وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم و انتظامی ڈھانچے میں توازن کا نہ ہونا سنگین معاملات ہیں۔ موجودہ حکومت نے پنجاب کی انتظامی تقسیم سمیت سابق فاٹا علاقوں کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کرنے سمیت ملک کی معاشی شہ رگ کراچی کے لئے خصوصی اعلانات کئے تھے۔ صوبہ پنجاب ایک ایسا اکثریتی صوبہ ہے جو ملک کے وسائل کا بڑا حصہ پاتا ہے اور کراچی ایسا شہر جو ملک کو چلانے کے لئے سب سے زیادہ ٹیکس دیتا و معاشی ضرورت کو پورا کرتا ہے لیکن شہر قائد کو اس کا حق پورا نہیں ملتا۔ پنجاب کو انتظامی طور پر تقسیم کرنے کے وعدے پر ایک الیکٹیبلز کا گروپ تحریک انصاف کا اتحادی بنا اور جنوبی پنجاب کے لئے جو بلند بانگ دعوے کئے گئے، اس پر سنجیدگی سے قانون سازی کی ایسی کوئی پیش رفت سامنے نہیں آسکی جس پر ملک کی تمام سیاسی جماعتیں متفق ہیں کہ پنجاب کو انتظامی بنیادوں پر تقسیم کردینا چاہیے۔ پنجاب کثرت آبادی اور ایوانوں میں حاصل نمائندگی کے سبب پاکستان کی حکومت بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
پنجاب میں ملک کے وہ وسائل بھی صَرف ہوتے ہیں جس میں پنجاب کا حصہ کم ہوتا ہے، نیز پنجاب میں وسائل کی تقسیم بھی مخصوص شہروں تک محدود رہنے کی وجہ سے زیادہ تر علاقے پس ماندگی کا شکار ہیں۔ اس موقع پر کہ ملک میں سیاست کا ایسا جمود طاری ہے جس میں عوام کو کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ وہ آنے والے دنوں میں اپنے مسائل کا حل کس طرح نکال سکیں گے کیونکہ مہنگائی، بے روزگاری سمیت معیشت کی صورتحال کے ساتھ ساتھ ملک کی سلامتی و بقا کو بھی خطرات لاحق ہیں۔ ہر قومی انتخاب میں پنجاب کی انتظامی تقسیم پر کھل کر سیاست کی جاتی ہے اور الیکشن کے بعد اس اہم ایشو پر منوں مٹی ڈال دی جاتی ہے۔
پی ٹی آئی حکومت نے جو وعدے کئے وہ بھی عمل درآمد ہونے کے منتظر ہیں، نئے اضلاع کی 72برس کی احساس محرومی کو ختم کرنے کے لئے حکومت نے اپنے وعدوں میں انتہائی سستی کا مظاہرہ کیا جس کے سبب نئے اضلاع سمیت خیبر پختونخوا میں بددلی کی مایوس کن کیفیت واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہے۔ کچھ ماہ قبل خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں پی ٹی آئی کو دوبارہ موقع دینے والوں کو جن امیدوں کی توقعات تھی انہیں پرجوش انداز سے بیان کرتے کہ موقع دیا ہے، مزید موقع دیں گے تاکہ ہمارے مسائل حل ہوسکیں، لیکن بدقسمتی سے اب اپنے آبائی علاقوں میں ان ہی پرجوش نوجوانوں سے ملتا ہوں، اُن سے مختلف ذرائع سے بات ہوتی ہے تو ان کے لہجوں میں مایوسی کیفیت دیکھ کر دل میں ہول سے آتا ہے کہ احساس محرومی کی جو لہر اور وعدے پورے نہ کئے جانے پر دل برداشتہ نوجوان طبقہ ہی نہیں بلکہ ہمارے بزرگ و انتہائی قابل احترام و بااثر احباب کا غصہ اچھا پیغام نہیں دے رہا، حجرہ پختون ثقافت کا ایک جز ہے جہاں نوجوان نسل اپنے آبا سے معاشرتی و سیاسی افکار کو سمجھتے ہیں، سیکھتے ہیں۔
سردترین موسم میں تفکرات کی گرمی کو واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا۔ ارباب اختیار کن وعدوں کو پورا نہیں کررہے اس کی تفصیل جاننے کے لئے سوشل میڈیا میں مشتعل جذبات کی تپش کو اٹھتے شعلوں کے ساتھ محسوس کیا جاسکتا ہے۔ کراچی کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے اب تو اس پر اتنے نوحے لکھے جاچکے ہیں کہ زخموں پر مرہم کے بجائے نمک رکھنے کی جگہ بھی نہیں بچی ہے۔ ارباب اختیار اہل کراچی کی بدترین پریشانی کو نہ جانے کیوں نظر انداز کررہے ہیں، یہاں تک اب اہل کراچی مملکت کے دشمنوں و سلامتی کے خلاف ہندو انتہا پسندوں سے معافی بھی مانگ رہے ہیں، پاکستان کے ٹکڑے کرنے کے خواب دیکھنے والے وطن فروش ٹولے کے پروپیگنڈوں سے متاثر ہونے لگے ہیں، قومی میڈیا میں بلیک آؤٹ کا کوئی فائدہ نظر نہیں آرہا کیونکہ سوشل میڈیا جس طرح وطن فروش کی تقاریر کو منظم انداز میں پھیلایا جاتا ہے وہ نوجوان نسل کے اذہان کو پرگندا کرنے سازش کررہے ہیں، ان حالات میں ارباب اختیار کا کراچی کو مسلسل نظر انداز کئے جانا بہت تکلیف دہ صورتحال کی طرف جانے کے خدشات ظاہر کررہا ہے۔
یہ حکومت کے لئے تفکر کا مقام ہے کہ ان کی ترجیحات میں وعدہ خلافیاں قومی اتفاق رائے کو نقصان دے رہی ہیں۔ خاص طور پر اپوزیشن کے قومی خزانے لوٹنے کے بیانئے دھجیاں بکھر چکی ہیں، کیونکہ جس جوش و خرو ش و تندہی اور تمام توانائی خرچ کرنے کے بعد پہاڑ کھودا گیا تو وہاں چوہا بھی نہیں نکلا۔ کرپٹ سیاست دانوں کو منطقی انجام تک پہنچانے و قومی دولت واپس لانے کا بیانیہ ناکام ہوچکا ہے۔ اب موجودہ حکومت پر عوام کو اُس وقت تک یقین نہیں آسکتا جب تک آٹے میں نمک کے برابر بھی وعدے پورے نہیں کئے جاتے۔ عوام کی خاموشی کو ”سب اچھا ہے“ سمجھ کر نظر انداز کرنے کی روش کو ختم کرنے کی ضرورت ہے، عوام کے جذبات ایک ایسے پریشر کوکر کے مانند ہیں جس سے مسلسل تیز وسل سنائی دے رہی ہے، اگر اس ابال کو ختم کرنے کے لئے زمینی حقائق کے مطابق ترجیحات نہیں اپنائی گئی تو اس کے نقصانات کا اندازہ کرنے میں زیادہ دماغ خرچ کرنے ضرورت نہیں ہے کیونکہ کھلا دشمن ہمارے سامنے ہے اور جس طرح ملک دشمن عناصر اپنے سازشی منصوبوں کو بیان کرتے ہیں وہ کسی بھی محب الوطن کے لئے دکھ و تکلیف کا سبب بنتا ہے۔
عوام میں اعتماد بحالی کے لئے ارباب اختیار کو خیبر پختونخوا (سابق فاٹا)، پنجاب(انتظامی تقسیم(، سندھ(کراچی)اور بلوچستا ن سمیت گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی عوام کی بے چینی کے خاتمہ کرنا ہوگا۔ اہل قلم باربار ارباب اختیار کو غیر یقینی صورتحال و معاشرتی انحطاط پزیری کے ساتھ ساتھ، ملک وقوم کی بقا و سلامتی کے خلاف ہونے والے سازشوں سے آگاہ کررہے ہیں تاہم بدقسمتی یہاں یہ بھی ہے، اب سرخ بتی کے بھاگنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، قومی ترجیحات سے زیادہ فروعی مفادات کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ یہ عمل عوام کے اعتماد کو دیمک کی کھا رہا ہے۔ لوگ اپنے مسائل کا حل اور کئے جانے والے وعدوں کو پورا کئے جانے والے اقدامات پر نظریں جمائے جمائے تھکتے جا رہے ہیں، جب وعدوں پر عمل نہیں کیا جاتا تو ڈپریشن میں اضافہ فطری ہوتا ہے۔ اگر عوام سے کئے وعدے پورے نہیں کئے جاتے اور انہیں مصنوعی حلیہ گری سے ناکامی کا ملبہ دوسروں پر ڈال کر خود کو بری الزمہ سمجھا جاتا ہے تونہیں سمجھنا ہوگا کہ اب وہ بھی سامنے آجاتا ہے جو ارباب اختیار نے سوچا بھی نہیں ہوتا۔ بہتر یہی ہے کہ حکومتں عوام کے حقیقی مسائل کے حل کی جانب اپنا رخ بدلیں کیونکہ یہ ملک و قوم کے حق میں بہتر ہوگا۔
میں اس کے سارے نقائص اسے بتا دوں گا انا کا اپنے بدن سے جدا غلاف کرے جسے بھی دیکھیے پتھر اٹھائے پھرتا ہے کوئی تو ہو مری وحشت کا اعتراف کرے