تحریر : میر شاہد حسین لکھنے والے لکھ رہے ہیں اور پڑھنے والے پڑھ رہے ہیں۔ پڑھنے والے بھی وہی کچھ پڑھ رہے ہیں جو وہ پڑھنا چاہتے ہیں اور لکھنے والے بھی وہی کچھ لکھ رہے ہیں جو وہ پڑھانا چاہتے ہیں۔ ایسے میں کس طرح لکھنے اور پڑھنے کا اصل حق ادا ہو سکتا ہے جب اس کی بنیاد ہی تعصب پر رکھی ہو۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ آپ اس لیے پڑھ رہے ہوں کہ جانیں کہ ہمارا مخالف کیا کہتا ہے اور ایسا بھی بہت کم ہوتا ہے کہ ہم اپنے مخالف کی تعریف کرنے کیلئے قلم اٹھائیں اور اپنی جماعت کو تنقید کا نشانہ بنائیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ایک ایسی دنیا کا اسٹیج ڈرامہ دیکھ رہے ہیں جس میں ایک ہیرو ہے جس سے کوئی غلطی سرزد ہی نہیں ہوتی اور دوسرا ولن ہے جو غلطیوں کا پتلا ہے۔
ایک شخص چلتے ہوئے اچانک کیلے کے چھلکے سے پھسلا اور فٹ پاتھ پر جا گرا۔ اس واقعہ کو دیکھنے والے مختلف لوگوں نے مختلف تاثرات کا اظہار کیا۔ ایک شخص نے یہ دیکھ کر بھرپور قہقہہ لگایا اور ہنس دیا۔ دوسرے شخص نے اس کے گرنے پر افسوس کا اظہار کیا۔ تیسرے شخص نے سوچا کہ یہ کس شخص نے ایسی جگہ کیلا گرایا ہے جس کی وجہ سے اس شخص کو تکلیف پہنچی۔اسی طرح ایک شخص نے سوچا کہ اگر یہ شخص آنکھیں کھول کر چلتا تو کبھی اس طرح نہ گرتا۔غرض واقعہ ایک ہی تھا لیکن سوچنے کا انداز جدا جدا تھا۔
یہ ایک مثال ہے کہ سوچنے والا کسی کو مورد الزام بھی دے سکتا ہے، کسی پر ہنس بھی سکتا ہے، کسی پر رو بھی سکتا ہے اور کسی کو حل بھی پیش کرسکتا ہے کہ پھر ایسا نہ ہو۔ یہی کام ایک قلمکار کا ہے جو لوگوں کو مشکلات سے نکالنے کیلئے حل پیش کرتا ہے ۔ منفی سوچ ،محرومی اور جہالت کے تاریک اندھیروں میں امید کی کرن پیدا کرنا ہی اصل میں ایک قلمکار کا فریضہ ہے۔اگر آپ کواندھیرے میں کچھ سجھائی نہیں دے رہاتو برائے مہربانی آپ دوسروں کو گمراہ نہ کریں۔ زندگی میں جہاں خوشی ہے وہیں غم بھی ہیں۔ جہاں اندھیرا ہے وہیں روشنی بھی ہے۔گزر جانے والے وقت کو نہ دیکھیں آنے والے وقت کی فکر کریں۔ جو نہ مل سکا اسے بھول جا اسے یاد رکھ جو تیرے پاس ہے
Media
آج جب میں میڈیا پر خبریں دیکھتا ہوں ، اخبارات پر تبصرے پڑھتا ہوں تو مجھے اس وقت بڑی مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔خبر کا معیار یہ نہیں کہ اس کو پیش کرنا کیسا ہے؟ بلکہ اس کا معیار یہ ہے کہ کتنے لوگ اسے دیکھنا چاہتے ہیں۔ کئی بڑے بڑے چینلز اور کالم نگار صرف ایسا آئینہ بن کر رہ گئے ہیں اور جو عوام کو وہی کچھ دکھا رہے ہیں جو عوام خود خوش قسمتی یا بدقسمتی سے دیکھ نہیں پا رہی۔ چار لاکھ کی آبادی میں ایک شخص قتل ہو گیا تویہ خبر پیش کر دی گئی اور ایک شخص مرنے سے بچ گیا تو کوئی خبر نہیں بنی۔یا ممکن ہے اس شہر میں کوئی شخص مرنے سے بچتا ہی نہ ہو۔ کم از کم میڈیا کی خبروں سے تو ایسا ہی تاثر پیدا ہوتا ہے۔ میرے پسندیدہ قلمکار نویس بھی کبھی کبھی ایسا کالم لکھتے ہیں کہ جسے پڑھ کر سر پیٹنے یا ہنسنے کا دل چاہتا ہے۔لیکن میں نہ سر پیٹتا ہوں اور نہ ہی ہنستا ہوں کیونکہ میں یہ جانتا ہوں کہ وہ بھی ہماری طرح کا ایک انسان ہے۔
وہ بھی حالات سے متاثر ہوتا ہے بلکہ اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ زیادہ متاثر ہوتا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ پھر ایسے میں جبکہ اس کا روزگار ہی قلم سے وابستہ ہو تو اسے لامحالہ لکھنا ہوتا ہے اور پھر اس کا قلم وہی لکھتا ہے جسے نہیں لکھنا چاہیے اور ہم صرف اس بنیاد پر اسے پڑھتے ہیں کہ شاید اسے پڑھ کر تاریکی میں اجالا مل سکے گا۔اگر آپ نیک نیتی سے سوچیں تو دنیا کا کوئی کام بدنیتی پر مبنی نہیں ہوتا ۔ نیتوں کا حال اﷲ تعالیٰ بہتر جانتا ہے اس لیے ہم کون ہوتے ہیں کسی کی نیت پر شک کرنے والے۔ کوئی بھی شخص برا کام اس لیے نہیں کرتا کہ وہ برا ہے بلکہ اس لیے برا کرتا ہے کہ یا تو اسے برائی کا پتہ نہیں ہے یا پھر وہ اچھائی سے ابھی تک ٹھیک سے واقف نہیں ہوپایا۔
لکھنے والوں کو چاہیے کہ وہ دیانتداری سے ہر رخ کا جائزہ لے کر اپنے قاری کو پیش کرے اور پھر کسی سدھار کی صورت پیش کرے اور یہی کام ایک قاری کا بھی ہے کہ وہ تعصب سے بالا تر ہو کر کسی کو شیطان اور کسی کو فرشتہ سمجھنا چھوڑ کر کھلے دل سے ہر موقف کو عقل و دل کی کسوٹی پر پرکھے۔ پھر فیصلہ کرے کہ کیا ٹھیک ہے اور کیا غلط؟جو منہ میں آئے وہ بول دینا بہت آسان ہے لیکن بہتر ہو گا کہ زبان چلانے سے پہلے اسے عقل کی کسوٹی پر تول بھی لیا جائے ورنہ جس قلم کی قسم قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ نے اٹھائی ہے اس کا کبھی بھی حق ادا نہیں ہوگا۔