تحریر : مولانا رضوان اللہ پشاوری اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے سلیے اس دارفانی میں پیدا کیا تو اس پر اس سماجی زندگی میں کچھ حقوق رکھ دیئے، تاکہ یہ بندہ ان حقوق کی پاسداری کر کے اسی کے ذریعے قرب باری تعالیٰ حاصل کریے،سب سے پہلے ان حقوق کی دو قسمیں ہیں٭حقوق اللہ ٭حقوق العباد۔ہم یہاں پر حقوق العباد کو بیان کریں گے۔حقوق العباد میں سب سے زیادہ حق الدین کا ہوا کرتا ہے،اس لیے سب سے پہلے والدین کے حقوق بیان کرتے ہیں۔
والدین کے حقوق: والدین کی راحت رسانی اور ان کے اعزازواکرام کی قرآن حکیم اور احادیث ِشریفہ میں بہت تاکید آئی ہے، رسولِ خدا ۖنے ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ کی رضامندی والد کی رضامندی میں ہے اور اللہ کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے اور فرمایا ہے کہ سارے گناہ ایسے ہیں کہ خدا جس کو چاہتا ہے معاف کردیتا ہے سوائے والدین کے ستانے کے کہ اس کی سزامرنے سے پہلے جلد دنیا میں دے دیتا ہے۔
حضرت ابن عباس کابیان ہے رسولِ خداۖ نے ارشاد فرمایا کہ جوکوئی اپنے والدین کی طرف ایک مرتبہ رحمت کی نظر سے دیکھے خدا اسکے لیے ہر نظر کے بدلے ایک مقبول حج لکھ دے گا۔ صحابہ نے عرض کیا کہ اگر کوئی سومرتبہ دیکھے تب بھی یہی بات ہے ؟ آپ نے فرمایا: (ہاں، اس میں اشکال ہی کیا ہے ؟) خدابہت بڑا ہے او ر ہر عیب سے پاک ہے ۔ اور رسولِ خدا ۖ نے ارشاد فرمایا ہے کہ باپ جنت کے دروازوں میں سے سب سے اچھا دروازہ ہے ، اب تجھ کو اختیار ہے کہ اس دروازہ کی حفاظت کرے یاضائع کر دے۔
ایک مرتبہ رسولِ خدا ۖ نے ارشاد فرمایا کہ جوشخص اپنے والدین کے حقوق کے بارے میں اللہ کافرماںبردار ہوجاتا ہے تو اس کے لیے جنت کے دودروازے کھل جاتے ہیں، اور اگر فقط ماں یافقط باپ ہو اس کی خدمت کی ہو تو اس شخص کے لیے جنت کاایک دروازہ کھل جاتا ہے اور جس نے والدین کے بارے میں اللہ کی نافرمانی کی یعنی ان کے حقوق ادانہ کیے تو اس کے لیے دوزخ کے دو دروازے کھل جاتے ہیںاور اگر فقط ماں یافقط باپ ہو اس کی حق تلفی کی ہو تو اس شخص کے لیے دوزخ کاایک دروازہ کھل جاتا ہے ۔ ایک صاحب نے عرض کیا کہ اگر ماں باپ ظلم کریں کیا تب بھی یہی بات ہے ؟آپ نے فرمایا: ہاں اگرچہ ظلم کریں، اگرچہ ظلم کریں، اگرچہ ظلم کریں۔
خداوند قدوس فرماتے ہیں:اور تیرے ربّ نے حکم دیا ہے کہ اس کے سواکسی کی عبادت مت کرو، اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو۔ اگر تیری موجودگی میں وہ بوڑھے ہوجائیں یاان میں سے ایک بوڑھا ہوجائے تو ان کو اُف بھی نہ کہو اور نہ ان کوجھڑکو اور ان سے تعظیم کے ساتھ بات کرو۔ اور جھکادو ان کے آگے عاجزی کابازورحمت کے ساتھ اور ان کے حق میں یوں دعاکرو کہ اے میرے پروردگار! ان پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے مجھ کو چھوٹا ساپالا ہے۔
بڑے بھائی کا حق: رسولِ خدا ۖ نے ارشاد فرمایا ہے کہ بڑے بھائیوں کاحق چھوٹے بھائیوں پر ایسا ہے جیسے والد کاحق اولاد پر ہے ۔
اولاد کے حقوق: جس طرح ماں باپ کے حقوق ہیں اسی طرح ماں باپ کے ذمہ بھی اولاد کے حقوق ہیں۔ ماں باپ کے ذمہ ہے کہ اپنی اولاد کو بداخلاقوں کے پاس اٹھنے بیٹھنے سے روکیں، خدا کے راستے پر ڈالیں، دین اور دنیا کی بھلائی سے آگاہ کریں۔ رسولِ خدا ۖ نے ارشاد فرمایا ہے کہ انسان اپنے بچے کو ادب سکھائے تو یہ ایک صاع صدقہ کرنے سے افضل ہے اور فرمایا ہے کہ کسی والد نے اپنے بچے کو کوئی چیز ایسی نہیں دی جو اچھے ادب سے بہتر ہو۔
اور رسولِ خدا ۖ نے ارشاد فرمایا ہے کہ تم سب نگہبان ہو اور نگہبانی کے متعلق تم سب سے پوچھ ہوگی۔ بادشاہ نگہبان ہے اور اس کی رعیت کے بارے میں اس سے سوال ہوگا، اور مرد اپنے گھر کانگہبان ہے اور اس کی رعیت کے بارے میں اس سے سوال ہوگا، اور عورت اپنے شوہر کے گھر میں نگہبان ہے اور اس کی رعیت کے بارے میں اس سے سوال ہوگا۔
یتیم کی نگرانی: حضرت رسول اللہۖ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جس نے یتیم کے سرپر ہاتھ پھیرا توجتنے بال اسکے ہاتھ کے نیچے آئیں گے ہر بال کے بدلے اسکے لیے بہت سی نیکیاں ہونگی، اور جس نے کسی ایسی یتیم لڑکی یا یتیم لڑکے کے ساتھ سلوک کیا جو اسکے پاس رہتے ہیں تو میں اور وہ جنت میں اس طرح ساتھ ہونگے اور آپ نے اپنی دوانگلیاں ملا کر دکھائیں۔
شوہر کا حق: رسولِ خدا ۖ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اگر میں کسی کوحکم کرتا کہ کسی کوسجدہ کرے تو عورتوں کوحکم کرتا کہ اپنے شوہروں کوسجدہ کریں، ان حقوق کی وجہ سے جوخدانے ان پر شوہروں کے مقرر فرمائے ہیں۔
حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسولِ خدا ۖ سے کسی نے سوال کیا کہ کون سی عورت بہتر ہے ؟ آپ نے فرمایا: وہ عورت کہ شوہر اس کی طرف دیکھے تو خوش کرے ،اور جب وہ حکم کرے تو اس کا کہامانے ، اور اپنے نفس کے بارے میں اس کی مخالفت نہ کرے (کہ بغیر اس کی اجازت کے کہیں چلی جائے یاکسی سے آنکھیں ملائے) اور اس کی مرضی کے خلاف اس کے مال میں تصّرف نہ کرے ۔اور رسول اللہۖ نے ارشاد فرمایا ہے کہ تین شخصوں کی نماز مقبول نہیں ہوتی اور ان کی کوئی نیکی اوپر نہیں جاتی:٭ بھاگا ہواغلام جب تک اپنے مالکوں کے پاس آکر اپنا ہاتھ انکے ہاتھ میں نہ دیدے٭ وہ عورت جس کاشوہر اس پر ناراض ہو٭ وہ شخص جونشہ میں مست ہو جب تک اس کوہوش نہ آ جائے۔
حضرت اُمِّ سَلَمَہ فرماتی ہیں کہ رسولِ خدا ۖ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جوعورت اس حال میں مرگئی کہ اس کاشوہر اس سے راضی تھا تو وہ جنت میں داخل ہوگئی۔اور ایک حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا: جب عورت پانچوں وقت کی نماز پڑھے اور رمضان کے روزے رکھے اورا پنی شرمگاہ کومحفوظ رکھے اور اپنے شوہر کی اطاعت کرے توجنت کے جس دروازے سے چاہے جنت میں داخل ہو جائے۔
بیوی کے حقوق: عورتوں کی طبیعت میں عموماً کجی ہوتی ہے ، ذرا سے میں ہنس رہی ہیں اور ہنسارہی ہیں اور ذراسے میں بگڑ کر بیٹھ جاتی ہیں پھر بڑی مشکل سے راضی ہوتی ہیں اور غضب یہ ہے کہ اپنی غلطی کو غلطی تسلیم نہیں کرتیں، قصور اپنا ناراض ہوگئیں شوہر سے۔
رسولِ خدا ۖ نے عورت کے حقوق کی نگہداشت اور اس کے ساتھ نرمی کابرتائو کرنے کی بڑی تاکید فرمائی ہے ۔ حجة الوداع میں آپ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ عورتوں کے بارے میں خدا سے ڈرو کیوںکہ تم نے ان کو اللہ کے عہد کے ساتھ (اپنے قبضہ میں)لیا ہے اور اللہ کی شریعت کے سبب ان سے نفع حاصل کرنے کے مستحق ہوئے ہو۔
حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسولِ خداۖ نے ارشاد فرمایا ہے کہ بے شک عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے ، تمہارے لیے کسی طرح سیدھی نہیں ہوسکتی، لہٰذا اگر تم اس سے نفع حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس کے ٹیڑھے پن کے ساتھ ہی نفع حاصل کرسکتے ہو، اور اس کوسیدھا کرنے لگو گے تو توڑ ڈالوگے اور اس کوتوڑنا طلاق دے دینا ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کی عادتیں صحیح نہیں ہوسکتی ہیں، کچھ نہ کچھ دل دکھانے والی باتیں، تکلیف دینے والی حرکتیں اس کی طرف سے سرزد ہوتی ہی رہیں گی،یہ مرد کی سمجھ اوردین داری کی دلیل ہے کہ عورت سے نباہ کرتا رہے اور اس کی اذیتوں کو سہتا رہے ۔ رسولِ خدا ۖ نے ارشاد فرمایا ہے کہ کامل ایمان والوں میں سے وہ لوگ بھی ہیں جو اچھے سے اچھے اخلاق والے ہوں اور اپنی بیوی کے ساتھ سب سے زیادہ نرم طبیعت ہوں۔
رفیقِ سفر کے حقوق: سفر میں تنہا جانے سے رسولِ خدا ۖ نے منع فرمایا ہے اور سفر کے ساتھیوں کی خبر گیری اور انکی راحت رسانی کی بڑی تاکید فرمائی ہے بلکہ یہاں تک فرمایا ہے کہ سفر میں وہی سردار ہے جو سفر میں ساتھیوں کی خدمت کرے ۔ جوشخص اپنے ساتھیوں سے خدمت میں بڑھ گیا تو اس کے ساتھی کسی عمل کے ساتھ اس سے نہیں بڑھ سکتے ۔ ہاں، اگر ساتھیوں میں سے کوئی شہید ہوجائے تو وہی بڑھ جائے گا۔
ایک حدیث میں ہے کہ رسولِ خداۖ نے ایک مرتبہ سفر میں ارشاد فرمایا: جس کے پاس سواری پر جگہ ہو اس کو چاہیے کہ بغیر سواری والے کو سوار کرے اور جس کے پاس خوراک بچی ہو وہ بغیر خوراک والے کوکھلادے اور اسی طرح دوسری چیزوں کے متعلق ارشاد فرمایا۔
ایک مرتبہ کسی سفر میں چند صحابہ نے بکری ذبح کرنے کاارادہ کیا اور اس کاکام تقسیم کرلیا، ایک نے اپنے ذمہ ذبح کاکام لے لیا، دوسرے نے کھال نکالنا، کوئی پکانے کاذمہ دار ہوگیا، رسولِ خدا ۖ نے فرمایا کہ لکڑیاں جمع کرنا میرے ذمہ ہے ،صحابہ نے عرض کیا کہ یہ بھی ہم کرلیں گے ،آپ نے فرمایا کہ یہ تو میں جانتا ہوں کہ تم بخوشی کرلو گے ، مگر مجھے یہ پسند نہیں کہ جماعت سے ممتاز رہوں اور خدا بھی اس کوپسند نہیں کرتا۔
رسولِ خدا ۖ کے ان ارشادات کو دیکھو اور اپنے حالات پر بھی نظر ڈالو،کہ ہم نے ان ارشادات نبویۖ میں سے کس کس ارشاد پر عمل کیاہے؟اگر عمل نہیں کیا ہے تو آئیے آج ہی سے عہد کرتے ہیں کہ ان ارشادات پر عمل کرنے کی پوری طرح کوشش کریں گے۔اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو(آمین)
Rizwan Ullah Peshawari
تحریر : مولانا رضوان اللہ پشاوری مدرس جامعہ علوم القرآن پشاور 0313-592058 rizwan.peshawarii@gmail.com