تحریر: حافظ کریم اللہ چشتی حقوق کی دوقسم ہیں۔ 1 ۔حقوق اللہ 2 ۔حقوق العباد حقوق اللہ سے مراد اللہ تعالیٰ کے حقوق ہیں ان حقوق کے بارے میں میرارب فرماتاہے فَیَغْفِرُلمن یَّشائُ وَیُعذِّبُ من یَّشَائُ ”تو جسے چاہے گابخشے گاجسے چاہے گاعذاب دے گا”۔حقوق العبادسے مراد بندوں کے حقوق ہیں ۔ اللہ پاک اپنے حقوق تواپنی رحمت سے بخش دیگا۔پربندوں کے حقوق تب تک معاف نہیں ہونگے جب تک وہ بندہ خودمعاف نہ کرے گا۔حقوق العبادمیں سب سے پہلاحق والدین کاہے ۔دورِجاہلیت میں عورت کوحقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتاتھا۔عورت کی معاشرے میں کوئی قدروقیمت نہ تھی ۔مائوں کے ساتھ لونڈیوں جیساسلوک کیاجاتاتھا۔بیویاں کو ستایا جاتا تھا اور ہر قسم کے تکلیف دی جاتی تھی اگرکسی کے گھر میں بیٹاپیداہوتاتوخوشی کی انتہا نہیں رہتی ۔اوراگراسی گھرمیں بیٹی پیداہوتی تواسکے گھرغم کاساماں پیدا ہوجاتاتھا۔لوگ اپنی بیٹیوں کوزندہ درگور (زندہ دفنادینا) کردیتے تھے۔
لیکن جس وقت میرے پیارے آقا ،رسولوں کے سردارنبی مختار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا پر تشریف لائے توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورت کو معاشرے میں عزت کامقام دیا۔والدین کی خدمت اور بیویوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کاحکم دیا۔اللہ رب العزت اپنی پاک کتاب قرآن مجید فرقان حمیدمیں ارشادفرماتاہے۔”اورتمہارے رب نے حکم فرمایاکہ اس کے سوا کسی کی کونہ پوجواورماں باپ کے ساتھ اچھاسلوک کرواگرتیرے سامنے ان میں ایک یادونوں بڑھاپے کوپہنچ جائیں توان سے اف تک نہ کہنااورانہیں نہ جھڑکنااوران سے تعظیم کی بات کہنا اور ان کے لئے عاجزی کابازوبچھانرم دلی سے اورعرض کراے میرے رب توان دونوں پررحم کر جیسا کہ ان دونوں نے مجھے بچپن میں پالا”۔پارہ نمبر 15 سورة بنی اسرائیل آیت نمبر 23,24 جس طرح اللہ رب العزت نے والدین کے ساتھ نیکی اوراحسان کرناہم پرفرض کیاہے اسی طرح انکے ساتھ سختی سے بات کرنے سے بھی منع فرمایاہے۔ اوروالدین کی نافرمانی کوحرام قراردیاہے۔
اس لئے اپنے والدین کومت جھڑکناکیونکہ انہو ںنے تیرے لئے بہت تکلیفیں اٹھائی ہیںبلکہ اُف تک نہ کہہ اگرتوان کو جھڑکے گاتوان کے دل کوتکلیف پہنچے گی جب انکے دل کوتکلیف پہنچی تواللہ تعالیٰ اُس آدمی پرناراض ہوجاتا ہے اس لئے اللہ رب العزت نے حکم دیاہے کہ والدین کے ساتھ ادب و احترام سے بات کراورانکے حق میں رحمت کے لئے دعاکرکیونکہ توانکے احسانات کابدلہ نہیں چکاسکتا۔پس تواللہ رب العزت کی بارگاہ میں عرض کر کہ یااللہ انہوں نے مجھے بچپن میں پالاپُوسااورمیں انکااحسان نہیں چکا سکتااسکے بدلے توان پررحمت نازل فرما۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا”جس بندے کے دونوںماںباپ یاان میں سے ایک فوت ہوچکا ہواوروہ آدمی اپنے والدین کا نافرمان ہوتووہ اُن کیلئے دعاکرے اوران کے حق میں استغفارکرے تواللہ تعالیٰ اسکوفرمانبردار لکھدے گا”۔ (مشکوٰة شریف)
Muhammad PBUH
اللہ رب العزت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مومنین کے لئے رئوف اور رحیم بنا کر بھیجاہے۔آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے لئے کتنی آسانیاں مہیاکردی ہیں کہ کسی نہ کسی طریقہ سے میری امت دوزخ کی آگ سے بچ جائے۔آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس ارشاد مبارک کااگرہم مطالعہ کریں توپتاچلتاہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم پرکتنی مہربانی کی کہ جوشخص والدین کی زندگی میں خدمت نہیں کرسکاتواسکوچاہیے کہ والدین کی وفات کے بعدانکے حق میں دعااور استغفارکرے تواسکو اللہ پاک فرمانبرداربندوںکی لسٹ میں لکھ دے گاخداکی قسم! اگرآقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ مہربانی نہ فرماتے توہم بربادہوجاتے کیونکہ والدین کانافرمان جنت میں داخل نہیں ہوسکتا داخل ہونا تو بعد کی بات ہے جنت کی بُوبھی نہیں سونگھ سکے گا۔آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا”کہ تین شخص ایسے ہیں جوجنت میں داخل نہیں ہونگے اورنہ ہی (جنت)کی بُوسونگھ سکیں گے۔ح
الانکہ اسکی خوشبو 100 سال کی مسافت سے سونگھی جاسکتی ہے۔ 1 ۔والدین کانافرمان 2 ۔بغیرت (جواپنے اہل میں زنادیکھے اورغیرت نہ کرے)3۔وہ عورت جومردوں سے مشابہت رکھے۔حضرت مسلم سے روایت ہے کہ آقاعلیہ الصلوٰة والسّلام نے ارشادفرمایا”خاک آلودہوناک اسکی ،خاک آلود ہوناک اسکی، خاک آلودہوناک اسکی عرض کیایارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی کی !آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایاجسکے ماں باپ دونوں یاان میں سے ایک زندہ ہوں اور وہ (انکی خدمت کرکے)جنت میں داخل نہ ہو۔کتنابراشخص ہے جووالدین کی خدمت بھی نہیں کرتابلکہ انکی دل آزاری کرتاہے ۔ایسے شخص کواللہ پاک کاعذاب گھیرلیتاہے۔حضورنبی اکرم نور مجسم شفیع بنی آدم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا’تین شخص ایسے ہیں جن کی طرف اللہ رب العزت نگاہ رحمت سے نہیں دیکھے گااوران کے لئے دردناک عذاب ہوگاان میں سے پہلا شخص والدین کانافرمان ہے دوسراشخص ہمیشہ شراب پینے والاہے اورتیسراشخص نیکی کرکے جتلانے والا۔
یہ تینوں شخص اللہ پاک کی نگاہ رحمت سے محروم رہیں گے۔جب تک اپنے والدین کی نافرمانی کرنے اورشراب پینے سے توبہ نہیں کرتے ۔آجکل ہم کسی کے ساتھ نیکی کرتے ہیں توبارباراسکونیکی کوجتلاتے رہتے ہیں جوآدمی کسی کے ساتھ احسان کرتاہے اوراسکوجتلاتاہے تووہ بھی اللہ پاک کی نگاہ رحمت سے محروم رہتاہے۔ہمیںایسے گناہوں سے بچناچاہیے اگرگناہوں سے نہیں بچیں گے تواللہ پاک کی ذات ہم پرناراض ہوجائیگی۔آجکل تولوگ اپنی بیویوں کے اُکسانے پروالدین سے لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں یہاں تک اپنے والدین کوزدوکُوب کرنے کی حدتک پہنچ جاتے ہیں ایسے شخص لعنتی ہیں جواپنی بیویوں کووالدین پرترجیح دیتے ہیں۔ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا۔”جوشخص اپنی ماں پراپنی عور ت کوترجیح دیتاہے اسپراللہ پاک اسکے فرشتے اورسب انسانوں کی لعنت ہوتی ہے”۔اللہ پاک اس سے محفوظ رکھے۔آجکل توبیویوں کواسقدرترجیح دی جاتی ہے کہ والدین چھوٹ جائیں توخیرہے بیوی ناراض نہ ہو۔
Women’s
بیوی کی خفگی برداشت نہیں کرسکتے ۔ایسے انسان پراللہ پاک ناراض ہوجاتاہے اوراس پر لعنتیں پڑتی رہتی ہیں۔ایک دوروہ بھی تھاکہ والدین کے کہنے پرعورت کو طلاق دینا پڑتی کیونکہ والدین کی محبت کو عورت پر ترجیح دی جاتی ۔حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ میری ایک بیوی تھی جسکے ساتھ میری سخت محبت تھی لیکن میرے والد حضرت عمر اسکو ناپسندکرتے تھے۔ایک روزمجھے والدنے فرمایاکہ اپنی بیوی کوطلاق دے دولیکن جب میںنے ایسانہ کیاتومیرے والدحضرت عمر نے حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوکرعرض کی۔یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں نے عبداللہ سے کہاتھاکہ اپنی عورت کوطلاق دیدوتواس نے اسے طلاق نہیں دی اس پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایااے عبداللہ اپنی عورت کوطلاق دے دواپنے والدکاحکم مانواوراپنے والدکی محبت کواپنی عورت پرترجیح دو۔(مشکوٰة شریف)۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی حضرت علقمہ جونمازاورروزہ کے پابندتھے خیرات وصدقات میں بھی بہت آگے تھے ایک دفعہ وہ سخت بیمارہوئے یہاں تک کہ اسکی بیوی نے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں پیغام بھیجاکہ آپکاصحابی حالت نزع میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمار،حضرت بلال اورحضرت صہیب کوعلقمہ کے پاس بھیجاکہ اسکوکلمہ کی تلقین کریں چنانچہ ان صحابہ کرام نے بہت کوشش کی لیکن کلمہ شریف پڑھنے کے لئے حضرت علقمہ کی زبان نہ کھلی ۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کواس بات کا پتا چلا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھاکہ اسکے والدین میں سے کوئی زندہ ہے صحابہ کرام علہم الرضوان نے عرض کیایارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسکی بوڑھی والدہ زندہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسکی بوڑھی والدہ کے پاس پہنچے اورپوچھا اے مائی سچ بتائوتمہارابیٹاعلقمہ کیساتھا بڑھیانے عرض کیامیرابیٹانمازگذارتھاروزے بھی رکھتا تھا اور صدقہ خیرات بھی کثرت سے کیا کرتا تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی ماں سے پوچھا کیا تو اس پرراضی ہے یاکہ ناراض اس صحابی کی بوڑھی والدہ بولی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اس سے راضی نہیں ہوںآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ناراضگی کی وجہ پوچھی تو عرض کی کہ وہ میری بات نہیں مانتاتھااوراپنی بیوی کے کہنے پرچلتاتھااپنی بیوی کومجھ پرفضیلت دیتاتھاتو حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاتیری اس ناراضگی کیوجہ سے اسکی زبان پرکلمہ جاری نہیں ہوتاہے ۔پھرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت بلال کوحکم دیاکہ لکڑیاں جمع کرواس کی والدہ نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیوں؟آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاتیرے بیٹے علقمہ کواس میں جلائوں گااس صحابی کی والدہ نے عرض کیاوہ تومیرابیٹاہے اورمیرادل یہ بات برداشت نہیں کریگا کہ میرے سامنے اُسے جلایاجائے ۔آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایااللہ پاک کا عذاب تواس سے بھی سخت ترہے۔ خداکی قسم ! علقمہ کونمازروزہ صدقہ خیرات فائدہ نہ دیگاجب تک تواسے معاف کرکے راضی نہ ہوجائیگی۔
Parents
اگر تو چاہتی ہے کہ خدا اسکوب خش دے اور دوزخ کی آگ سے بچادے توتوُاُسکومعاف کردے اورا س سے راضی ہوجاتواسکی والدہ نے عرض کیا یارسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اس پر راضی ہوں پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت بلال کوعلقمہ کے پاس بھیجاحضرت بلال دروازے پرابھی پہنچے تواندرسے کلمہ پڑ ھنے کی آوازیں آرہی تھیں حضرت علقمہ کلمہ پڑھتے ہوئے دنیاسے رخصت ہوگئے توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علقمہ کی نمازجنازہ پڑھائی اوراُن کی قبرپرکھڑے ہوک رفرمایا۔”اے مہاجر اورانصارکے گروہ جوشخص اپنی ماں پراپنی عورت کو فضیلت دیگااس پراللہ تعالیٰ اوراسکے فرشتے اورسب انسانوںکی لعنت ہوئی”۔میرے بھائیو! انسان جتنابھی عبادت گزارہواگر اس پروالدین ناراض ہیں تواس کی سب عبادتیں رائیگاں چلی جاتی ہیں۔اگرانسان خداکی بندگی بجالائے اوروالدین کی خدمت کرے تواس انسان کی دنیابھی بن جاتی ہے اورآخرت بھی۔۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کافرمان عبرت نشان ہے “اللہ رب العزت تین آدمیوں کے فرض اورنفل قبول نہیں کرتا۔1۔جووالدین کانافرمان ہو.2 ۔احسان جتلانے والاہو3.۔تقدیرکاجھٹلانے والاہو
جو انسان والدین کادل دکھاتاہے اور ان کوتکلیف دیتاہے وہ یہ نہ سمجھے کہ میں اپنی زندگی سکون سے گزاروںگابلکہ والدین کانافرمان دنیامیں بھی عذاب میں مبتلاہوجاتاہے اورطرح طرح کی مصیبتیں اُسکوگھیرلیتی ہیں۔اس بارے میں مشکوٰة شریف میں حدیث مبارکہ موجودہے جسکامفہوم “سب (ہرقسم کے)گناہوں میں سے اللہ تعالیٰ جوچاہتاہے ،معاف فرمادیتاہے مگروالدین کے نافرمان کو نہیں بخشتااورایسے گناہ گارکواللہ تعالیٰ بہت جلدمرنے سے پہلے ہی دنیاکی زندگی میں اسکی سزادیتاہے.معاذاللہ اللہ پاک ایسے گناہ سے معاف فرمائے۔ہم دنیامیں والدین کو ستاتے ہیںان کوگالیاں دیتے ہیں اسکی سزاکے بارے میں ایک روایت ملاحظہ فرمائیں۔شب معراج کی رات آقائے دوجہاں سرورکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ آدمیوں کوآگ کی ٹہنیوں سے لٹکے ہوئے دیکھااورجبرائیل امین علیہ السّلام سے پوچھایہ کون لوگ ہیں جبرائیل امین نے عرض کیایارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ وہ لوگ ہیں جواپنے ماں باپ کودنیامیں گالیاں دیتے تھے۔نزہة المجالس میں ایک ایسے شخص کے متعلق روایت ہے جس نے اپنی ماں کودکھ دیاماں نے اسکو بددعادی جس سے اس کی عبادتیں رائیگاں چلی گئیں۔
حضرت انس بن مالک فرماتے ہیںکہ بنی اسرائیل میں ایک شخص تورات کاعمدہ قاری تھااس شخص کی قراء ت سننے کے لئے بہت سے لوگ جمع ہوجاتے اس کی عادت شراب پینا تھی۔والدہ اسکوشراب پینے سے منع کرتی تھی۔چنانچہ ایک رات اس نے شراب پی اورمستی کی حالت میں تورات پڑھنے لگالوگ تلاوت سن کرجمع ہوگئے ماں نے اُسے وضوکرنے کی ہدایت کی تواس نے اپنی ماں کے چہرے پرضرب ماری جسکی وجہ سے ماں کی ایک آنکھ اورکئی دانت نکل گئی ۔ماں نے اسے اس رنج میں بددعادی کہ خداتجھ سے راضی نہ ہو۔صبح جب ہوش میں آیاتوبہت شرمندہ ہوااوراس ارادے سے گھرسے نکل پڑاکہ ساری عمراللہ کی عبادت میں گزارے گا۔لیکن ماں نے کہاتوں جہاں بھی جائے اللہ پاک تجھ سے راضی نہ ہو۔وہ شخص ایک پہاڑپرچڑھ کر40سال تک عبادت الٰہی میں مشغول ہواکہ سوکھ کرکانٹاہوگیااورپھراللہ تعالیٰ کے دربارمیں عرض کی اے خداتونے مجھے بخش دیاہے یاکہ نہیں غیب سے آوازآئی چونکہ تجھے تیری ماں نے بددعادی تھی کہ خداتجھ سے راضی نہ ہوتوجب تک تیری ماں راضی نہ ہوگی خداراضی نہ ہوگا۔یہ سن کرپہاڑکوچھوڑدیااورگھرواپس آیااپنی ماں سے پکارکرکہااے جنت کی کنجی اگرتوزندہ ہے توخوشی کامقام ہے۔
Allah
لیکن اگر فوت ہوگئی تومیں ہلاک ہوگیا چنانچہ اسکی ماں نے کہا خداتجھ سے راضی نہ ہوتواس نے اپنی ماں کے پاس جاکراپنے ہاتھ کوکاٹاورکہااس ہاتھ نے تیری آنکھ نکالی تھی میں اسے دیکھنا نہیں چاہتا پھردوستوں سے کہاکہ لکڑیاں اکٹھی کرواورآگ جلائی اوراس میں کودگیالوگوں نے اسکی ماں سے جاکرکہاتووہ پکاراٹھ اے میری آنکھوں کی ٹھنڈک توکہاں ہے خداتجھ سے راضی ہوماں کاراضی ہوناتھاکہ خالق برحق بھی راضی ہوگیااوراللہ پاک کے حکم سے جبرائیل امین آئے اوراپناپَرمل کربڑھیاکوبھی تن درست کیااور جوان کاہاتھ بھی صحیح ہوگیا۔رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ میں تمہیں سب سے بڑاگناہ نہ بتائوں؟آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ جملہ تین مرتبہ فرمایاپھرفرمایااللہ کے ساتھ کسی کوشریک کرنا اوروالدین کی نافرمانی کرنا۔سیدناانس فرماتے ہیںکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے سامنے کبیرہ گناہوں کاذکرفرمایااللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کوشریک کرنااوروالدین کی نافرمانی کرنا۔
ایک روایت میں ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل یمن کی طرف ایک ارشادنامہ روانہ فرمایا”فرمایااللہ تعالیٰ کے ہاں قیامت کے دن کبیرہ گناہوں میں سے سب سے بڑاگناہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کوشریک کرنا۔دوسرابڑاگناہ مومن کوقتل کرناہے تیسراگناہ میدان جنگ سے پیٹھ پھیرکربھاگناہے چوتھابڑاگناہ والدین کی نافرمانی ہے پھرپاک دامن عورتوں پرتہمت لگاناہے پھرجادوسیکھنااورعمل کرناہے پھرسودکی لعنت اوریتیم کامال ہضم کرناہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاتم اپنے و الدین کوگالیاں مت دو۔صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کیایارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیاکوئی ایسابدبخت ہوگاجواپنے والدین کوگالیاں دے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایااسکی صورت یوں ہے۔کہ تم دوسروں کے والدین کوگالیاں دوگے تووہ جواب میں تمہارے والدین کوگالیاں دیگا۔گویاوہ تمہارے والدین کوگالیاں نہیں دیتاتم خوداپنے والدین کوگالیاں دیتے ہو۔
امام بخاری لکھتے ہیں دوگناہ ایسے ہیں جنکی سزااللہ پاک دنیامیں دیتاہے۔1۔بغاوت 2۔والدین کی نافرمانی۔ جوآدمی اپنے والدین کے ساتھ احسان کرتاہے اس کے بارے میںاللہ رب العزت اپنی پاک کتاب قرآن مجیدکے پارہ نمبر21سورة لقمان میں ارشادفرماتاہے۔اَنِ شْکُرْلِیْ وَلِوَلِدَیْکَ اِلَیَّ الْمَصَیْرترجمہ:یہ حق مان میرااورماں باپ کا(کیونکہ کہ) آخرمیری طرف لوٹ کرآناہے۔اس آیت کریمہ سے معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اورشکرگزاری کے ساتھ ساتھ والدین کی اطاعت ورضاضروری ہے ۔حضورعلیہ الصلوٰة والسّلام نے والدین کی اطاعت اوررضاجوئی پرزوردیتے ہوئے فرمایا۔”اللہ تعالیٰ کی رضاوالدین کی رضامیں اوروالدین کی ناراضگی میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ہے “۔ ایک شخص بارگاہ رسالت مٰآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضرہوااورعرض کیایارسول اللہ والدین کااولادپرکیاحق ہے توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔وہ تیری لئے جنت بھی ہوسکتے ہیں اوردوزخ بھی یعنی اگرتوان کی خدمت کریگاتوجنت میں جائے گا اگر نافرمانی کریگا تو دوزخ میں۔ مشکوٰة شریف ۔
Parents Service
ایک شخص آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضرہوااورعرض کیایارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں غزوہ یعنی جنگ میں شریک ہوناچاہتاہوںاوراس لئے حاضرہواہوں کہ مشورہ کرلوں۔تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا”تیری ماں ہے تواس شخص نے عرض کیاہاں ہے پھرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایااسکی خدمت کولازم رکھ کیونکہ اسکے پائوں تلے جنت ہے”۔حضرت عبداللہ ابن مسعود نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوکرعرض کیایارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کونساعمل اللہ تعالیٰ کوزیادہ محبوب ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایااول وقت میں نمازپڑھنا۔والدین کے ساتھ نیکی کرنا۔اللہ کے راستے میں جہادکرنا۔ایک روایت میں آیاہے کہ اپنے والدین کے ساتھ احسان اورنیکی کروتاکہ تمہاری اولادتمہارے ساتھ نیکی کرے۔حضرت ابوطفیل سے روایت ہے کہ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بمقام حجرانہ گوشت تقسیم کررہے تھے۔ایک عورت آئی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خودآگے بڑھے اپنی چادرمبارک بچھائی اوراسے اس چادرپربٹھایاحضرت ابوطفیلنے کہامیں نے پوچھاکہ یہ عورت کون ہے جسکی اسقدرتکریم کی جارہی ہے لوگوں نے بتلایاکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کودودھ پلانے والی والدہ ہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا “جسے پسندہوکہ اسکی عمرزیادہ ہواوررزق میں فراخی ہواسے اپنے والدین کے ساتھ احسان ،صلہ رحمی اورنیکی کرنی چاہیے”۔مشکوٰة شریف.انسان کے لئے والدین بہت عظیم نعمت ہیں جوشخص ایک دفعہ محبت کی نگاہ سے اپنے والدین کودیکھے تواسے مقبول حج کاثواب ملتاہے۔آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا”جب بیٹااپنے والدین کی طرف نظررحمت سے دیکھتاہے تواللہ تعالیٰ اسکے لئے ہرنظرکے بدلے ایک مقبول حج کاثواب لکھ دیتاہے.صحابہ کرام نے عرض کیایارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !اگرکوئی ہرروزسومرتبہ دیکھے تواسے کیا100حج کاثواب ملے گا۔آپۖ نے فرمایاہاں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے خزانے کثرت سے بھرے ہوئے ہیں اور وہ اس بات سے پاک ہے کہ اسکی طرف کمی کی نسبت کی جائے۔ام المومنین عائشہ الصدیقہ فرماتی ہیں کہ رسول اکرم ۖ فرماتے ہیں “میں جنت میں داخل ہواتواسمیں قران کریم پڑھنے کی آوازسنی تومیں نے پوچھایہ کون ہے جوقرآن پڑھتاہے توفرشتوں نے عرض کیایارسول اللہ ۖیہ حارث بن نعمان ہے دیگرصحابہ کرام علہیم الرضوان نے سوچاکہ کسطرح اس نے یہ فضیلت پائی ہوگی۔تورسول اللہ ۖ نے وضاحت فرمادی کہ تم بھی اسطرح نیکی حاصل کرسکتے ہیں کہ اپنی ماں کے ساتھ نیکی اوراحسان کرناجنت کی طرف لے جاتاہے”۔مشکوة شریف ۔
ایک مرتبہ حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السّلام نے اللہ رب العزت سے دعاکی اے میرے رب مجھے میراجنت کاساتھی دکھادے توحکم ہواکہ فلاں شہرمیں چلاجاوہاں ایک قصاب ہے جوجنت میں تیراساتھی ہوگا۔چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اسی شہرمیں گئے اوراس قصاب کے پاس پہنچے اس قصاب نے آپ کی دعوت کی جب کھاناکھانے بیٹھے تواس قصاب نے ایک بڑی زنبیل پاس رکھ لی وہ ایک نوالہ خودکھاتااوردونوالے زنبیل میں ڈالتاتھاسیدناحضرت موسیٰ اس امرسے متعجب ہوئے لیکن اسی دوران دروازے پردستک ہوئی اوروہ قصاب اٹھ کرباہرگیاتوموسیٰ علیہ السلام نے دیکھاکہ اس زنبیل میں ایک ضعیف ا لعمرمرداورایک عورت ہے جنہوں نے سیدناحضرت موسیٰ کودیکھ کرمسکراہٹ سے خوشی کااظہار کیااورآپ کی رسالت کی شہادت دی اورجاں بحق ہوگئے قصاب واپس آیاتوزنبیل میں اپنے والدین کومردہ پایاقدرََامعاملے کوسمجھ گیااورسیدناحضرت موسیٰ کی د ست بوسی کی اورکہاآپ اللہ کے نبی موسیٰ علیہ السلام ہیں توآپ نے پوچھاتجھے کیسے معلوم ہواتوعرض کیااے خداکے رسول زنبیل میں میرے والدین تھے جنکومیں کھاناکھانے سے پہلے کھلاتاتھا اور وہ ہروقت دعاکرتے تھے کہ اے خداہمیں موسیٰ کی زیارت کے بعداس دنیاسے اٹھانااب میں نے انکومردہ دیکھ کرجان لیاکہ آپ موسی علیہ السلام ہیں۔
Hazrat Musa
سیدنا موسیٰ نے کہاکہ تیری ماں کے ہونٹ ہلتے تھے وہ کیاکہہ رہی تھی توقصاب نے عرض کیاکہ اے خداکے برگزیدہ پیغمبرجب میں اسے کھاناکھلاتاتھاتووہ میرے حق میں ہمیشہ یہ دعامانگاکرتی تھی کہ اے الٰہ العالمین میرے بیٹے کوموسیٰ علیہ السلام کاجنت میں رفیق بنا۔یہ سن کرسیدناحضرت موسیٰ علیہ السّلام نے فرمایاکہ اے اللہ کے نیک بندے مبارک ہوکہ اللہ نے تجھے جنت میں میراساتھی بنایاہے۔انسان والدین کی خدمت کرجنت میں جانے کاحقداربن جاتاہے اللہ رب العزت سے دعاہے کہ اللہ پاک ہم سب کووالدین کی خدمت کرنے کی توفیق عطافرمائے اورتمام جہانوں میں آقاعلیہ الصلوٰة کی شفقت نصیب فرمائے اللہ پاک آقاۖ سے محبت کرنے کی توفیق عطاکرے اورمنکرین محبت سے دوررکھے آمین بجاہ النبی الامین۔
تحریر: حافظ کریم اللہ چشتی پائی خیل ضلع میانوالی 0333.6828540