وطن عزیز پاکستان محض زمین کے ٹکڑے کا نام نہیں ہے بلکہ دنیا میں یہ وہ پہلی ریاست ہے جس کی بنیاد کلمہ ء توحید اور قرآن و سنت پہ رکھی گئی ہے۔ پاکستان ہمارے پاس خدا وندکریم کی وہ حسین نعمت و امانت ہے جس کی حفاطت ہمارا اخلاقی و دینی فریضہ ہے جس میں خیانت کا ارتکاب کرنے والا عذاب الہی سے نہیں بچ سکتا مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم اس نعمت خداوندی کی قدرومنزلت کی بے توقیری کے مرتکب ہو ررہے ہیں۔حاکم وقت سے اختلاف رائے کوئی گناہ کبیر نہیں بلکہ نظام مملکت چلانے کے لیے اختلاف رائے حسن کا درجہ رکھتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ اس میں اخلاص ہو اور نیت میں کسی قسم کا فتور نہ ہو۔ ذاتی اغراض و مقاصد اورمفادات سے پاک اپنی الگ سوچ اور رائے رکھنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے لیکن اس حق کے استعمال کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم دوسروں کے حقوق کو پاؤں تلے روند تے ہوئے اخلاقیات کا جنازہ نکال دیں اور پھر اخلاقی اقدار کی نعش پر کھڑے ہو کرفاتحانہ انداز میں نعرے لگائیں دوسروں کی کردار کشی کریں اور وہ بھی صرف اپنے ذاتی مفادات کے لیے۔بنیادی حقوق کی محرومی کی بجائے عوامی فیصلے کی روشنی میں اقتدار سے دور ہونے پر اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈالتے ہوئے مہم جوئی کرناکہاں کا انصاف ہے؟کس ٓئین کے نتاظر میں اسے قانونی تحفظ فراہم کیا جاسکتاہے۔
عام انتخابات میں بری طرح شکست کا سامنا کرنے کے بعد مولانا فضل الرحمن اسی دن سے سرکاری بنگلہ کی جدائی پر تڑپ رہے ہیں اور اب اسلام آباد میں ٓ”آزادی مارچ“ کے نام پر احتجاج کر رہے ہیں۔ احتجاجی کنٹینر پر کھڑے ہوکرموٹروے جتنی چوڑی اور ریلوے ٹریک جتنی لمبی زبان استعمال کرنے والے مولانا فضل الرحمان صاحب انتشار اور انارکی پھیلانے میں شیطان سے بھی زیادہ پرعزم دکھائی دیتے ہیں۔رینٹ پر دستیاب یہ نام نہادمذہبی لیڈردرحقیقت کسی اور کی جنگ لڑ رہا ہے۔اِسے کرائے پر لینے والے خود کو محفوظ رکھتے ہوئے یہ سارا کھیل دیکھنے کے خواہشمند ہیں جبکہ مولانا صاحب اپنی کمال مہارت سے انہیں بھی اِس کھیل میں گھسیٹ رہے ہیں۔ پیسے اور اقتدار کے لالچ میں ہر کھیل کھیلنے میں یہ ہرفن مولوی 2%ووٹوں کے ساتھ 98%غیور پاکستانیوں پر حکمرانی اور ملک پر قبضے کے دلفریب خواب دیکھ کو ہوش پر جوش غالب آجانے والی کیفیت میں مبتلا ہوچکے ہیں۔یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ دین کے ٹھیکیدار اِس مولوی کو عوام کی اکثریت بکاؤمال اور دین کے نام پر سیاہ دھبہ سمجھتے ہیں۔
اسلام اور انسانیت کے تصور سے یکسر ناآشنا یزیدیت اور فرعونیت جیسے متکبرانہ لہجے میں جوش خطابت میں ہوش کھودینے والایہ مولوی نامعلوم طاقتوں کے اشاروں پرناچتے ہوئے ملکی سلامتی کو داؤ پر لگا رہا ہے۔ملک میں خانہ جنگی یا ملکی اداروں کے ساتھ ٹکراؤ کا ماحول پیدا کررہاہے۔اور ہوس اقتدار میں سیاست کے تمام مداریوں اور بہروپیوں کو کنٹینر پر سوار کرکے انتہائی مکارانہ انداز میں ملکی سلامتی کے اداروں پر حملہ آور ہے۔اقتدار سے محرومی کے نتیجے میں دماغی توازن برقرار نہ رکھ سکنے والے یہ مولانا صاحب فوج کی نگرانی کے بغیرعام انتخابات کا مطالبہ کرکے دراصل فوج جیسے قومی اور باوقار ادارے کو متنازعہ بناکے اُن پر عدم اعتماد کا اظہار کررہے ہیں جوکہ انتہائی شرمناک بات ہے۔مولانا صاحب اپنی خودغرضانہ سوچ کی وجہ سے قومی اداروں کو للکارتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ وطن عزیز کوجب بھی خون کی ضرورت پڑی تو پاک فوج کے جوانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ملک میں زلزلہ آئے۔سیلاب آئے۔حادثہ ہو جائے یاپھردوسری قدرتی آفات کی صورت میں پاک فوج قوم کے شانہ بشانہ کھڑی ہوتی ہے۔ مگر مولانا صاحب ان اداروں کو خراج تحسین پیش کرنے بجائے مسلسل تنقید کیے جارہے ہیں اور اب کنٹینر فراہم کرکے ان تمام افراد کو ان اداروں پر ہرزہ سرائی کا موقع فراہم کررہے ہیں جو کھاتے پیتے اور اپنی شان و شوکت پاکستانی عوام کے ٹیکسوں سے حاصل کرتے ہیں مگر ان کے دل دشمنان وطن کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔
کنٹینر پر ماجود افرا ایک دوسرے کے لیے د لوں میں نفرت لیے صرف اپنے اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کے لیے یکجا نظر ارہے ہیں مولانا صاحب دوسروں پر تنقید کرتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ وطن عزیز میں بسنے والوں کی بھاری اکثریت کا انہیں مذہبی لیڈر ماننے والوں کی عقل پر ماتم کرنے کو دل کرتا ہے۔ملکی سلامتی کے ضامن اداروں کو متنازعہ بنانے اور للکارنے والایہ نام نہاد مذہبی لیڈر انتہائی گھناؤنا کھیل کھیلنے میں مصروف ہے۔اِسے بروقت لگام نہ دی گئی تویہ بے لگام اور منہ زور گھوڑاامن،سلامتی،اسلامی،قومی اور اخلاقی اقدار کو روند ڈالے گا۔مولانا صاحب نے دینی تعلیم کے لیے دوسروں کے تعاون سے چلنے والے مدارس کے نیٹ ورک کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے ایک مافیا بنا رکھا ہے اور اِسی مافیا کے بل بوتے پرخود بغاوت کررہے ہیں اوردوسروں کو بغاوت پر اکسا رہے ہیں۔
اِن دینی مدارس میں حکومتی اصلاحاتی پروگرام کی وجہ سے اِن کے مفادات پر ممکنہ طور پر پڑنے والے اثرات کوبھانپتے ہوئے مولانا صاحب آپے سے باہر ہورہے ہیں کیونکہ دھرنے میں بیٹھے مدارس سے وابسطہ انسانی بتوں میں شعور آگیاتوپھر ہمارا کیا بنے گا۔مولاناصاحب! خدا کے لیے سوچئے یہ وطن ہمارا ہے ہم سب کا ہے اس کی جڑیں کھوکھلی نہ کریں کیونکہ یہ وہی طن ہے جہاں آپ غریب عوام کے ٹیکسوں پر عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتے رہے ہیں۔ یہ وہی وطن ہے جس پر آپ اقتدار کے مزے لوٹتے رہے ہیں۔یہ وہی وطن ہے جس کے خزانے سے آپ نے مبینہ طور پر لاکھوں روپے کی لسی پی ہے۔ یہ وہی وطن ہے جس میں آپ کا کام کاج کچھ نہیں مگر آپ وزیر کے برابر درجے پر فائز رہے۔ یہ وہی وطن ہے جس میں کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہونے کے ناطے آپ کی کارکردگی صفر نہیں بلکہ باعث شرم ہے مگر پھر بھی آپ ایک وفاقی وزیر کے برابر مراعات و سہولیات کا پیکج حاصل کرتے رہے اگر عوام نے اس بار آپ کو نہیں چنا تو اس کا انتقام پوری قوم سے نہ لیں بلکہ صبر و تحمل سے محنت کریں تاکہ اگلے انتخابات میں کامیابی آ ٓپ کے قدم چومے اور آپ کے مخالفین شکست کی ذلت سے دو چار ہوں۔