انجمن تحفظ حقوق ِ پرند کا احتجاج اور تلور کی مظلومیت

Balochistan

Balochistan

تحریر: مبشر حسن شاہ
قارئین سیاسی بلی کو خدا خدا کرکے ہم نے اپنے سر سے اتارا تھا کہ ایک گدھ اپنے پر پھیلائے آن وارد ہوا اس کی چونچ میں کسی مردار کی بوٹی دبی ہوئی تھی اور آنکھوں سے خون ٹپک رہا تھا۔ ہم حیران و پریشان ہوئے کہ اس کو بٹھائیں کہاں ۔اتنا بڑا پرندہ ہے خیر سے ہے بھی خون خوار ۔ اس کی آنکھوں سے وحشت ٹپک رہی تھی۔ ہمارے کچھ بولنے سے قبل ہی اس نے اپنے بے ہنگم پر سمیٹے اور ہمارے سامنے رکھی میز پر پنجے گاڑ کر بیٹھ گیا۔ ہم نے ڈرتے ڈرتے استفسار کیا ” جی جناب ؟ ” لیکن اس نے مطلق توجہ نہ دی اپنی چونچ میں دابی کسی مردار کی بڑی سی بوٹی کو پنجے میں تھام کر نوش کرنے میں مشغول ہو گیا۔اطمینان سے کھا پی کر اس نے ہمیں خون آشام نگاہوں سے دیکھا اور گویا ہوا۔ تم دیکھ رہے ہو ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے ؟ ہم نے بالترتیب بوکھلا اور ہکلا کر عرض کی جناب میں کچھ سمجھا نہیں ۔ اس نے زور سے پر پھڑ پھڑائے اور دو قدم آگے آگیا پھر کھرکھراتی آواز میں بولا ۔ بلوچستان میں تلور کے شکار کے بارے میں تم انسانوں نے جو تماشا لگا رکھا ہے میں اس پر بات کرنے آیا ہوں اور میرا تعلق انجمن تحفط ِحقوق ِ پرند سے ہے۔ میں صدر ہوں اس انجمن کا۔ ہماری رگِ ظرافت پھڑک اٹھی اور بے ساختہ بولے اچھا پرندوں نے بھی انسانی کام شروع کر دیے ۔بات بے بات تنظیمیں بنانا اور آپ جیسے صدور کا انتخاب کرنا۔

اس گستاخی کو وہ جانتے بوجھتے نظر انداز کر کے بولا کہ ہمارے بارے میں لکھو ۔ ہم نے عرض کی جناب آپ کے بارے میں کیا لکھوں آپ پر تو بڑے بڑے سائنسدان تحقیق کر رہے ہیں غالب گمان ہے کہ جناب کرہ ارض کیقدیم ترین پرند میں سے ایک ہیں۔ پرندوں کے مربی و بزرگ ہیں ۔ڈائنو سار کی معدوم نسل سے آپ کے ڈانڈے ملتے ہیں۔ ہماری اس خوشامدانہ مبالغہ آرائی پر وہ دل ہی دل میں خوش ہوا لیکن ظاہر نہیں ہونے دیا اور ڈانٹ کر بولا ۔ تم نے سنا نہیں آج کل ہماری برادری کے معصوم پرندے تلور پر کیس چل رہا ہے ۔ ہم نے سعادت مندی سے سر ہلایا اور دل ہی دل میں تلور کی معصومیت اور اس کے گدھ نمائندے کو بے نقط سنائیں۔ خیر جبہماری بزدلی اور خوشامد سے اس کا موڈ بحال ہوا تو اس نے بتایا کہ تلور نامی پرندہ جو کہ بلوچستان کے ڈومیسائل کا حامل ہے ۔ معاف کیجئے گا پرندوں کے ڈومیسائل کب ہوتے ہیں ہم بھی سٹھیا گئے ہیں۔ کچھ سر پر سوار گدھ کا خوف ہے شائد۔ تو بات ہو رہی تھی تلور کی جس کے شکار پر سپریم کورٹ نے پابندی لگا دی ہے کہ آئندہ عرب ممالک کے لوگ اس کا شکار نہیں کریں گے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی وجہ مذکورہ پرندے کی معدوم ہوتی نسل ہے۔

جس پر حکومت نے رٹ دائر کر دی کہ شکار کی اجازت دی جائے ۔اب اس رٹ کی سماعت ہو رہی ہے اور اٹارنی جنرل سمیت ایڈیشنل ایدوکیٹ جنرل پنجاب اس بات پر مصر ہیں کہ اجازت دی جائے۔اٹارنی جنرل نے استدعا کرتے ہوئے یقین دلایا کہ شکار کے حوالے سے جنگلی حیات کے تحفظ اور عالمی معاہدوں کی مکمل پاسداری کی جائے گی۔ جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ وزارت ِ خارجہ کی طرف سے شکار کی اجازت دینے کا نوٹیفیکشن جاری کرنا آئین سے متصادم ہے۔جسٹس فائز عیسی کا کہنا ہے کہ معاملہ تو وائلڈ لائف کا ہے وزارت داخلہ کیا لینے آئی ہے ؟ اس پر اٹارنی جنرل نے اپنی دلائل کیپٹاری سے کنگ کوبرا نکالا کہ معاملہ چونکہ بیرون ملک سے آنے والی اعلیٰ و معزز شخصیات کا ہے لہذا نوٹیفیکیشن وزارت داخلہ نے جاری کیا۔جس پر جسسٹس فائز عیسی نے دلائل کی پٹاری سے نکلے ششیش ناگ کا سر کچلتے ہوئے فرمایا کہ کیا آئین میں اعلیٰ شخصیات اور معزز مہمانوں و غیر ملکیوں کے لیے کوئی الگ شق ہے یا معاملہ سب کے لیے برابر ہے۔ کیا آ پ کوئی ایسا قانون یا معاہدہ عدالت عظمیٰ کو دکھا سکتے ہیں جس کی رو سے وزارت داخلہ نوٹیفیکیشن جاری کر سکے۔یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔

Hunting birds

Hunting birds

جسٹس عطا عمر بندیا ل نے کہا کہ آپ کو معلوم ہے یہاں پرندوں کو شکار کر کے انہیں سعودی عرب بھجوایا جاتا ہے ۔ اس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے پینترا بدلا اور کہا کہ اس بارے میں کوئی ڈیٹا موجود نہیں۔ جسٹس فائز عیسی نے کہا کہ تلور کی نسل تیزی سے ختم ہو رہی ہے یہ معاملہ انسانیت کا ہے کیونکہ تلور سنٹرل ایشیا سے ہجرت کرکے یہاں آتا ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اس معصوم مہاجر پرندے کا خیال رکھیں جو اس وقت عدالت میں موجود نہیں۔ ادھر ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے جب معاملہ ہاتھ سے نکلتے دیکھا تو اپنے تعین تُرپ کا اِکا پھینکا اور کہا کہ تمام پیغبر بھی شکار کھیلتے تھے۔اس پر جسٹس نثار ثاقب نے رزاق اے مرزا کی دلیل کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ بنیادی حق فرد کا ہوتا ہے پرندوں کا نہیں ۔ یہاں پر ہمارے میز پر براجمان گدھ بری طرح سیخ پا ہوگیا۔کہنے لگا ہم پرندوں کے کیوں کوئی حقوق نہیں ہیں ۔ ہم بھی اللہ کی مخلوق ہیں اور شکار ضرورت کے تحت کیا جاتا ہے انبیا ضرورت کے تحت شکار کرتے تھے ۔

آج کل تم انسان تو اپنی تسکین اور سٹیٹس سمبل کے طور پر ہم پرندوں کو نشانے پر رکھے ہوئے ہو۔ کیا یہ انسانیت ہے کہ دنیا کے کئی ممالک میں تمہارے ہم جنس یعنی انسان بھوکے مر رہے ہیں اور ادھر تم لوگ اتنی دولت اکٹھی کر کے بیٹھے ہو کہ محض شوق کی تسکین کے لیے لاکھوں روپے لگا کر ہمارا شکار کرتے ہو۔ اس پر اگر کوئی نیک فطرت تمہیں روک رہا ہے تو اس کے لیے دلیلیں اور تاویلیں لائی جارہی ہیں۔ اگر تم انسانوں میں شرم ہوتی تو پہلے اپنے ہم جنسوں کا خیال کرتے روزانہ کتنے انسان دنیا میں بھوک سے مر جاتے ہیں۔ کتنوں کو پیٹ پھر روٹی نہیں مہیا ، کتنے بھو ک اور غذا کی کمی کی وجہ سے مختلف بیماریوں کا شکار ہیں اور پل پل موت کی جانب سرک رہے ہیں۔ پھر تم کہتے ہو کہ انسانوں کا حق فائق ہے پرندوں کا نہیں چلو ہم مان لیتے ہیں کہ پرندے کا کوئی حق نہیں لیکن جن کا حق اپنے منہ سے مانتے ہو ان کے لیے تم لو گ کیا کر رہے ہو۔ گدھ کی آواز بتدریج بلد ہو تی جارہی تھی۔ اور اس میں وحشت ،نفرت اور حقارت اس قدر تھی کہ ہم شرم سے پانی پانی ہو گئے۔ نگاہیں جھک گئیں۔ بولو جواب دو؟ گدھ چلایا ؟ ہم خا موش رہے ۔ اس نے اپنا جسم تولا ، پر پھیلائے اور یہ کہا کر اڑ گیا کہ اللہ سے ڈرو ابھی بھی وقت ہے ورنہ اس کے عذاب کا انتظار کرو۔ ہم پرندے ہوئے نہ ہوئے کوئی بات نہیں ۔ میں نے کافی دیر بعد سر اٹھا کر دیکھا تو کمرہ خالی تھا ۔

Mubashir Hasan Shah

Mubashir Hasan Shah

تحریر: مبشر حسن شاہ