تحریر : چوہدری غلام غوث فرد کے معاشرتی اور عورت کے خاندانی کردار سے ہی معاشرہ متوازن رہ سکتا ہے یہ توازن فطری ہے عورت اور مرد میں کون کمتر اور کون معتبر قرار دینے والہ مباحثہ انتہائی گمراہ کن ہے ہمارے ملک میں خواتین کی تعداد پچا س فیصد سے زیادہ ہے یہاں پر بات عورت اور مرد کی کمتری اور معتبری کی نہیں بلکہ دونوں ہی قدرت کی منفرد تخلیقات ہیں۔اور ان کے لیے قواعد و ضوابط بھی الگ الگ ہیں۔ محترم قارئین آج 8 مارچ ہے حقوق نسواں کا عالمی دن اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ امسال کی طرح آج بھی پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں بالخصوص غیر ملکی پرفیوم سے معطرالٹرا ماڈرن خواتین آزادی نسواں کے سیمینارز کا انعقاد کریں گی۔ عورت کے حقو ق عورت کی آزادی ، عورت کی مرد سے برابری کے لیے سہانے نعرے لگائے جائیں گے پاکستانی عورت کی مظلومیت ثابت کرنے کے لیے یورپ ، امریکہ، آسٹریلیا، مشرق بعید کی رپورٹوں کے حوالے دیے جائیں گے، زچگیوں کے دوران مرنے والی خواتین ، خاوندوں کا تشدد برداشت کرنے والی خواتین گھر سے بھاگ جانے والی لڑکیوں ، جینز پہن کے ماڈلنگ کرتی خواتین ، فلموں ڈراموںمیں کام کرکے سافٹ امیج اُبھارنے والی اداکارائیں، ننگے سر شاہرات پر سر عام موم بتیاں جلاتی خواتین کے بارے میں گفتگو زبان زد عام ہوگی مگرکھیتوں میں گھاس کاٹتی ، کھلیانوں میں محنت مزدوری کرتی ، بھیڑ بکریاں چراتی ،بھٹوں پر اینٹیںبناتی، سڑکوں پر بجری ڈالتی ، کارخانوں میں مزدوری کرتی خواتین کو نظر انداز کر دیا جائے گا عورت کا تقابل مس یورپ، مس ورلڈ، میڈونا اور الزبتھ ٹیلر جیسی خواتین سے کیا جائے گا اور یہ سیمینارز ، کانفرنس ، واک سب ڈالرز ہتھیانے کا باعث بنیں گے۔ یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔
یہ بات سچ ہے ”مردوں کی برتری” کے معاشرے میں آج عورت کو وہ مقام حاصل نہیں جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے لے کر حضر ت علی کرم اللہ وجہہ کے ادوارتک حاصل تھا۔ مگراس کے باوجود یہ بھی سچ ہے کہ مشرقی معاشرے میں ہمارے ہاں جو پروٹوکول اور عزت عورت کو یہاں حاصل ہے ہ شائد یورپ کی عورت کو ایک ہزار سال بعد بھی نصیب نہ ہو۔ آج بھی لوگ پرائی عورت کو دیکھ کر نظریں نیچی کر لیتے ہیں ،بسوں میں ان کے لیے نشست خالی کر دیتے ہیں ان کی موجودگی میں سگریٹ نہیں پیتے ، ان سے عزت و احترام سے مخاطب ہوتے ہیں ، بہن جی، بیٹی، ماں جی کہہ کر پکارتے ہیں آج بھی لوگ گھر میں بیٹی پیدا ہونے پر شراب ، جوا اور دیگر بُری عادات کو ترک کر دیتے ہیں ۔آج بھی لفظ بھائی سن کر لوگوں کی آنکھیں حیا میں جھک جاتی ہیں ، آج بھی ایک بیٹا اپنی ماں سے خود کو معتبر نہیں گردانتا اور نہ ہی ایک بیٹی یہ گوارہ کر سکتی ہے کہ اس کے والد کو اس سے کمتر مانا جائے۔ آج بھی لوگ عورت پر زیادتی پر آپے سے باہر ہو جاتے ہیں ، عورت کی چیخ و پکار پر آج بھی سربازار لوگ مرد کو پیٹنے میں دیر نہیں لگاتے آج بھی لوگ عورت کو طلاق دینے کے عمل کو معیوب سمجھتے ہیں ، ماں بہن اور بیٹی سے تلخ رویہ اپنانے والے کو بُرا جانتے ہیں اور اُس کی صحبت سے احتراز کرتے ہیں ہاں یہ حقیقت ہے کہ آج بھی اس ”قدامت پسند” معاشرے میں میں عورت اتنی محفوظ ہے جتنی یورپ کے جنگی معاشروں میں کبھی محفوظ نہیں تھی مگریہ کون این جی اوز زدہ روشن خیال خواتین ہیں جو اسلام آباد ، لاہور اور کراچی میں بیٹھ کر عورت کے لیے یورپ جیسی آزادی طلب کر رہی ہیں۔
جہاں عورت ایک عورت نہیں مشین ہے جہاں عورت کو تشہیری صنعت کا نام دے دیا گیاہے ۔یورپ کا مرد وراثت میں حصہ داری ، ٹیکس اور اخراجات کے ڈر سے پوری زندگی کی” رفاقت”کے بعد بھی عورت کو بیوی کا درجہ نہیں دے پاتا جہاں ایک ہی عورت کے تین بچوں کے رنگ ، ناک نقشے آپس میں نہیں ملتے جہاں عورت ماں، بہن بیٹی اور بیوی نہیں صرف پارٹنر ہوتی ہے۔
ڈاکٹر علامہ اقبال نے جب اپنی آنکھوں سے یورپ کے ماحول کا مشاہدہ کیا توانہوں نے کہا کہ مغرب نے آزادی کے نام پر عورت کو مرد سے چھین کر معاشرے کے حوالے کر دیا ہے اور انہوں نے اس عمل کو عورت کے خلاف بہت بڑی سازش قرار دیا آزادی کے نام پر عورت کے قومیائے جانے کی سختی سے مخالفت کی۔
اقبال فطر ت کے شارح شاعر تھے انہوں نے واضح کہا تھا کہ عورت کی آزادی کا محافظ صرف مرد ہے اور یہ فطرت انسان کی بے حد سادہ سی حقیقت ہے ۔ قارئین تصویر کا دوسرا رخ جہاں پر ہم لکھاری لوگ حکومت کی خامیوں اور ناکامیوں کو قلم کی نوک پر رکھتے دیر نہیں لگاتے وہاں ہماری یہ بھی ذمہ داری ہے کہ اچھے حکومتی اقدامات بھی عوام کی نظروں سے اوجھل نہ ہونے پائیں، حکومت پنجاب کی طرف سے خواتین کی فلاح و بہبود اور اُن کے حقوق کے تحفظ کے لیے متعدد احسن اقدامات اٹھائے گئے ہیں میاں شہباز شریف کی موجودہ حکومت نے ہی 6 سال قبل خواتین کے لیے باقاعدہ نیا صوبائی محکمہ وویمن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ قائم کیا اس کے علاوہ دیگر اقدامات جن میں ملازمت پیشہ خواتین کی نوکری والی جگہ پر جنسی ہراسگی کے خلاف تحفظ کا قانون ، تحفظ حقوق نسواں بل2016، پنجاب لینڈریونیومیں جائیداد کی خواتین کو منتقلی کے لیے ترامیم ، ریونیوآفیسرکو 180یو م میں وراثتی منتقلی کو یقینی بنانے کا قانون، نابالغ بچی کے نکاح کا غیرقانونی قرار دینا، خواتین کا سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ 5 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کرنااور عمر کی حد میں خواتین کے لیے ملازمت میں 3 سال کی مزید رعایت دینا، صوبائی دارلحکومت سمیت تمام اضلاع میں خواتین کے لیے ملازمت کی جگہوں پر علیحدہ واش رومز اور نماز کے لیے کمرے مختص کرنا خواتین کے لیے صوبائی محتسب خاتون کا تقرر، پنجاب ڈے کیئرفنڈ سوسائٹی کا قیام پنجاب ورکنگ وویمن انڈوومنٹ سوسائٹی کا قیام، 696 پولیس اسٹیشن میں خواتین کی مدد کے لیے ہیلپ ڈیسک ، پنجاب کے 16 اضلاع میں علیحدہ فیملی کورٹ کمپلیکس کا قیام، 1043 ٹول فری خواتین ہیلپ لائن پنجاب کے 9 ڈویثرنل اضلاع میں 3663 خواتین کی صلاحیتوں کی استعداد کار کو بڑھانے کے لیے ٹریننگ کروائی گئی ہے صوبہ بھر میں36682 ہونہار سٹوڈنٹ بچیوں کو لیپ ٹاپ دئیے گئے ہیں ، جنوبی پنجاب کے (زیور تعلیم پروگرام کے تحت) 16 اضلاع میں 450,000 سٹوڈنٹس بچیوں کو ایک ہزار روپیہ ماہانہ وظیفہ دیا جا رہا ہے، جبکہ وزیر اعلی خود روزگار سکیم کے تحت پنجاب کی 836200 خواتین نے حکومتی پالیسی کے تحت بلا سود آسان اقساط پر قرضہ سے استفادہ حاصل کیا ہے۔
ادارہ پیف کے تحت 130028 مستحق سٹوڈنٹس بچیوں کو ساڑھے چھ ارب روپے وظیفہ دیا گیا ہے ۔حاملہ خواتین کی زچگی ہسپتالوں میں ممکن بنانے کے لیے پنجاب بھر میں 326 فری ایمبولینسز دی گئی ہیں۔16 اضلاع میں علیحدہ فیملی کورٹس بنا دی گئی ہیں ، معاشی خود کفالت کے لیے ٹاسک فورس کا قیام ، خواتین کی مناسب نمائندگی اور نسلی امتیاز کے خاتمے کا قانون عمل میں لایا گیا ہے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی خواتین کو فاطمہ جناح ایوارڈ اور کیش انعام دینے کا اجرا کیا گیا ہے ، سٹوڈنٹ بچیوں کی سفری سہولت کے لیے 161گرلز کالجز کو بسیں فراہم کی گئی ہیں 5 سالہ دور میں خواتین کے لیے علیحدہ (90)نوے گریجویٹ و پوسٹ گریجویٹ کالجز کا قیام عمل میں لایا گیا ہے ، فاطمہ جناح میڈیکل کالج کو فرسٹ وویمن میڈیکل یونیورسٹی کا درجہ دے دیا گیا ہے۔
قارئین! آج بھی اگر ہم خواتین کی فلاح و بہبود اور اُن کے حقوق کے تحفظ کے لیے اُٹھائے گئے اقدامات کا دوسرے صوبوں سے تقابلی جائزہ کریں تو میاں محمد شہباز شریف اور اُن کی حکومت اس معاملے میں آپ کو سرفہرست نظر آئے گی اس کے علاہ آج 8 مارچ کے دن وزیر اعلیٰ پنجاب کی طرف سے خواتین کے لیے پنجاب وویمن ڈویلپمنٹ پالیسی 2018 کا اعلان متوقع ہے۔