تحریر:صاحبزادہ نعمان قادر مصطفائی کل میرے لکھے گئے کالم آخر غریب کارکن کا مقدر دھکے ہی کیوں ۔۔۔؟ پر ضلع لیہ کے گوٹھ ، گائوں ، بستی ، شہر سے کثیر تعداد میں احباب نے پسندیدگی کا اظہار کیا ہے اور ایلیٹ کلاس نے ہمیشہ کی طرح نا پسندیدگی کا مظاہرہ فر مایا ہے میرے دامن میں غریب کارکن کے لیے سوائے دُعائیہ کلمات کے اور کچھ بھی نہیں ہے میری زندگی کا مقصد معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کی آواز کو بلند کرنا ہے اور وطن عزیز کی سیاسی چڑیلوں اور جونکوں کے کالے کرتوت غریب عوام کے سامنے لانا ہیں مگر اِن نو دولتوں کو جب آئینہ دکھا یا جاتا ہے تو بُرا منا جاتے ہیں قوت برداشت اورسچ سننے کا حوصلہ اِن میں ذرا برابر نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔میں نے ہمیشہ سچ ہی لکھا ہے اور لکھتا رہوں گا میرا سر مایہ غریبوں کی دُعائیں ہیں اور لُٹیروں کے لیے خجالت کا پیغام غریب کی آہیں ہیںمجھے ایلیٹ کلاس کی ناراضی کی کچھ پروا نہیں ہے کیونکہ میری دوستی اُس بے پروا ذات کے ساتھ ہے جو سب کا پالن ہار ہے جو بے چارے خود کبھی جاتی اُمراء اور کبھی بلاول ہائوس ایڑیاں رگڑ رگڑ کے اور متھا گھسا گھسا کے پائی پائی اکھٹا کرتے ہیں اور غریبوں کا خون چوستے ہیں وہ مجھ جیسے کارکن اور دین کے طالب علم کو کیا دے سکتے ہیں ۔۔۔۔۔؟میں نے ہمیشہ اپنے اُس رب سے مانگا ہے جس نے مجھے بِن مانگے میری طلب سے زیادہ عطا فر مایا ہے شکر ہے اُس کریم و رحیم ذات کا کہ آج میں کسی جاگیر دار اور وڈیرے کا کانڑاں نہیں ہوں۔
یونان کے مشہور مجذوب فلسفی دیو جانس کلبی بہت بھلے مانس انسان تھے اور آپ کے پاس اکثر و بیشتر مشہور سپہ سالار سکندر اعظم کچھ سیکھنے کے لیے آیا کرتا تھا ایک دن دیو جانس کلبی نے سکندر اعظم سے کہا کہ میں آپ کی دعوت کرنا چا ہتاہوں آپ مع لشکر میری کٹیا میں تشریف لائیں سکندر اعظم وقت مقررہ پر دیو جانس کلبی کے پاس حاضر ہوا ،مجذوب نے اپنے خادمین سے کہا کہ میرے اور سکندر اعظم کے لیے الگ دستر خواں سجا یا جائے اور لشکر کے لیے الگ اہتمام کیا جائے اور اس بات کا خیال رکھا جائے کہ لشکر کے لیے انواع و اقسام کے کھانے چُن دیئے جائیں اور ہمارے دستر خواں پرصرف ہیرے اورجواہرات چُن دیئے جائیں احکامات کے مطا بق خادمین نے علیحدہ علیحدہ دستر خواں چُن دیئے اب جب کھانے کے لیے سکندر اعظم اور دیو جانس کلبی دستر خواں پر پہنچے اور انتظار کرنے لگے کہ کب انواع و اقسام کے کھا نے دستر خواں پر سجائے جاتے ہیں ؟بھوک کی شدت جب بڑھنے لگی تو سپہ سالار سکندر اعظم بھوک بر داشت نہ کرتے ہوئے بول پڑا کہ کھا نا کب لگے گا ؟تو اس پر دیو جانس کلبی نے کہا کہ کھانا آپ کے سامنے پڑا ہے اور آپ کے پرو ٹول کو مدِنظر رکھتے ہو ئے عوام الناس کے لیے عام کھانا اور آپ کے لیے ہیرے اور جواہرات منگوائے گئے ہیں آپ شروع کیجئے !اس پر وہ بولاکہ یہ ہیرے اور جواہرات انسانوں کے کھانے کی چیز تو نہیں ہے سکندر اعظم کے اس جملے پریونان کا فلسفی بول پڑا کہ ”کھانی تو انسان نے صرف دو روٹیاں ہی ہیں صرف دو روٹیوں کی خاطر آپ نے پوری دنیا میں اودھم مچا رکھا ہے۔
میں تو سمجھ رہا تھا کہ آپ اب عام انسانوں والا کھانا نہیں بلکہ ہیرے اور جواہرات آپ کی خوراک ہوں گے ”یو نانی فلسفی کے اس ایک جملے نے سکندا اعظم کی بند آنکھیں کھو لنے میں اہم کردار ادا کیا اور مرتے وقت سکندا اعظم کو کہنا پڑا کہ ”میرے دونوں ہاتھ میرے کفن سے باہر نکال دینا تاکہ غافل لو گوں کو پتہ چل سکے کہ دیکھو آج سکندر اعظم بھی اس بھری دنیا سے خالی ہاتھ واپس جا رہا ہے ” کاش ہمارے حکمرانوں کو بھی کو ئی دیو جانس کلبی میسر آجائے جو ایک ہی نکتے میں ساری بات سمجھا دے اور ہمارے حکمران دنیا کی حقیقت کو سمجھتے ہو ئے محض اپنی بھری تجوریوں کو ہی نہ مزید بھریں بلکہ مہنگائی ، بے روز گاری اور بد امنی کی وجہ سے پریشان حال غریب عوام کا بھی کچھ خیال کر یںاور یہ تصور ان کے ذہنوں میں آجائے کہ ان کے آبائو اجداد نے لوٹ مار کر کے اور انگریزوں کی راج غلامی کر کے جو دولت کمائی تھی وہ ادھر ہی چھوڑ گئے ہیںہم نے بھی مکاری اورعیاری کی وجہ سے لوٹی گئی دولت کو ادھر ہی چھوڑ جانا ہے اور کھانی صرف 2 روٹیاں ہی ہیں اگر وہ بھی نصیب ہو جائیں ،کاش ایسا ہو جائے ! ہمارے ”سُوٹڈ بُوٹِڈ”حکمرانوں کو اس بات کا احساس ہی نہیں ہے کہ غریب بچارہ ”بے حسی اور لاچارگی”کی زندگی گزار رہا ہے بس غریب اور محکوم عوام ان کی ”آنی جانیاں ”دیکھ رہے ہیں۔
Petrol And Taxes
کبھی نائن زیرو کا طواف تو کبھی بلاول ہائوس کی زیارت ،فاضل دوست ریحان اظہر صاحب نے درست کہا کہ یہ سب کیمرے اور رپورٹر دیکھ کر حرکت میں آجاتے ہیں اور جیسے ہی کیمرہ آف ہوتا ہے یہ بھی آف ہو جاتے ہیں ”دوسال سے فرینڈ لی اپوزیشن اورحکومت ”فکس میچ ” کھیل رہی ہے ہر چیز ان کی فکس ”ہوئی” ہوئی ہے ،گزشتہ دنوں مرکزی حکومت نے پٹرول کی قیمت کم کی اور ٹیکس بڑھا دیے تو اگلے تین دن بعد فرینڈ لی اپوزیشن پارٹی کے اپوزیشن لیڈر سمیت دیگر لیڈران نے صرف عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے پریس کانفرنس داغ ڈالی اور دکھاوے کا اپنے ”جگری دوست ”شریفین والبریفین کو الٹی میٹم بھی دے ڈالا ،اس سے اگلے دن معاملات طے پا گئے خیر بات ہماری کسی اور طرف چل نکلی ،آج ماشاء اللہ اپنے ”مولانا” کے دستِ راست جنہوں نے بڑی چالاکی اور ہو شیاری سے اپنے زیرک اور دانشور ساتھی حافظ حسین احمد سے سیکرٹری جنرل شپ ہتھیائی ہے عبدالغفور حیدری صاحب نے بھی جب دیکھا کہ اب اکیلے رہ کر ہم نے مکھیاں تو نہیں مارنی انہوں نے بھی غریب عوام کی ”خیر خواہی ” میں بیان داغ دیا کہ ”ہم حکومت میں شامل بھی رہیں گے اور حکومت کے اچھے کاموں میں تعاون ضرور کریںگے مگر مارچ میں اکیسویں ترمیم کے خلاف ملک گیر احتجاج بھی کریں گے ”لو اور سن لو ! کشمیر کمیٹی کی چیئر مینی سے بھی استعفیٰ نہیں دیں گے اور نظریاتی کونسل کی چیئر مینی بھی اپنے پاس رکھیں گے اپنا ریٹ زیادہ لگوانے کے لیے گاہے گاہے حکومت کو تنگ بھی کرتے رہیں گے۔
کیا خوب تماشہ! واہ رے جمہوریت ،آدھے حکومت میں اور آدھے اپوزیشن میں ،تاکہ غریب عوام بھی خوش اور امیرحکمران بھی راضی ،اپنے زرداری صاحب بھی کچھ اسی طرح کا کھیل کھیلنے کی کوشش فر مارہے ہیں ،بہر حال کھلاڑی تو وہ ہیں ناں!۔۔۔۔۔۔مولانا صاحب کی بارگاہ ِ مفادات سے تڑی لگنے کے بعدشریف زادہ بہت پریشان تھا اوپر سے اپنے ”نائن زیرو ” والوں نے بھی یکبارگی سیاسی حملہ کر دیا کہ روٹھی ہوئی دلہن کی طرح گاہے گاہے ڈرامہ بازیاں کرتے رہنا اُن کا شیوہ ہے اور جب سے سانحہ بلدیہ کی جے آئی ٹی رپورٹ ”نائن زیرو ” کے خلاف آئی ہے اور 12مئی کے سانحے کا ذمہ دار ایم کیو ایم کا عہدیدار ملوث پایا گیا ہے اس اعلان سے اُن کی راتوں کی نیندیں اُڑ گئی ہیں اوراو پر سے کپتان نے ایک مرتبہ پھر سکاٹ لینڈ یارڈ کو قتل کے مقدمے میں الطاف بھائی کو نامزد کرنے کا اعلان بھی کر دیا ہے بلکہ شیریں مزاری نے تو با قاعدہ بر طانوی ہائی کمشنر کو خط بھی لکھ دیا ہے ایسے حالات میں کراچی کی حکومت پریشان ہونے لگی ہے مگر پھر اپنے ”جاتی امراء ”والے پیٹی بند بھائی نے بیان داغ کر حوصلہ دیا کہ ہم نہ تو حکومت گرانے میں حصہ لیں گے او ر نہ ہی حکومت بچانے میں۔
اس اعلان سے75سالہ شاہ جی کے حواس بحال ہو ئے اور حوصلہ ملا کہ نہیں ”مُنج کُٹ رکھ”ابھی تین سال مزید ”حقِ حکمرانی ”باقی ہے اور اُن کا حوصلہ ”قائم ” ہوا ہے یہ ہوائی کسی دشمن نے اُڑائی ہے اپنے ”میاں ”صاحب کے ہوتے ہوئے جملہ ”حقوقِ حکمرانی ”بحقِ حکمران محفوظ ہیںکیونکہ باری باری کی حکومت کی حکمرانی کی کتاب میں اگر درمیان میں سے یا درمیان سے پہلے کسی نے بھی ”حکمرانی ” کے صفحے پھاڑنے یا اُکھیڑنے کی کوشش کی تو ”تعزیراتِ حقِ حکمرانی” کے تحت وہ باری باری کی حکومت کرنے کے حق سے دس سال کے لیے محروم بھی ہو سکتا ہے یا بصورت دیگر اسے ”مینوئل جیل” بھی ہو سکتی ہے ،یہ سارے سیاسی مسخرے پرانی تنخواہ پر کام کرنے کے عادی ہیں محض غریب عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے ”اُکھاڑ پچھاڑ ” کی سیاست گری کا اتوار بازار لگا ہواہے اندر سے سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں ،قوم اسوقت کسی امام خمینی کے انتظار میں ہے جو ان کو وقت کے ”رضا شاہ پہلوی” سے نجات دلا سکے۔