چند دن بیشتر آزادی مارچ آگے آگے تھا اور انقلاب پیچھے پیچھے حکومت کیلئے آگے کھائی پیچھے کنواں کی کیفیت تھی اب آزادی مارچ اور انقلاب ساتھ ساتھ ہیں قدم بہ قدم۔۔۔شانہ بشانہ۔۔مسلم لیگ ن کی قیادت نے آزادی مارچ اورانقلاب مارچ سے نمٹنے کیلئے الگ الگ حکمت ِ عملی تیار کی ہے شنید ہے۔
عمران خان اور طاہر القادری سے حکمرانوں نے علیحدہ علیحدہ سلوک کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے ہو سکتا ہے تحریک ِ انصاف کو پر امن رہنے کی تحریری ضمانت پر آزادی مارچ کی اجازت مل جائے لیکن شیخ الاسلام کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا تہیہ کرلیاگیاہے ان دنوںمنہاج القرآن سیکرٹریٹ کا محاصرہ جاری ہے عوامی تحریک نے الزام لگایاہے کہ پانی، کھانا ادویات اور دیگر ضروری سامان بھی اندر آنے نہیں دیا جارہا۔۔منہاج القرآن یونیورسٹی کو بندکرنے کی بھی اطلاعات سننے میں آرہی ہیں انقلاب مارچ کی اجازت نہ ملی تو لاہور میں عوامی تحریک کے کارکنوں کی شدید مزاحمت متوقع ہے 14 اگست سے پہلے طاہرالقادری کو گرفتار کرنے کی بھرپور تیاریاںکی جارہی ہیں۔اکثریت کا خیال ہے کہ میاں نواز شریف حکومت کو لانگ مارچ سے اتنا خطرہ نہیں جتنا وزیروں مشیروںکو انقلاب سے ڈر لگ رہاہے یہی وجہ ہے کہ ن لیگ کے ارکان ِ اسمبلی سے لے کر وزیرِ اعظم تک ہرکوئی لتھ لے کر بابا انقلاب کے پیچھے پڑا ہوا ہے کوئی اس قدر حواس پر چھا جائے تو یقینی امر ہے بدحواسی میں کئی حماقتیں سرزد ہو سکتی ہیں جبکہ حکومتوں کیلئے ایک حماقت ہی جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔
پیشگوئی یہ بھی ہے کہ حکومت عمران خان کو فری ہینڈ دی سکتی ہے لیکن انقلاب کے راستے میں روڑے ضرور اٹکائے جائیں گے۔ حکومت میں شامل اور حکومت سے باہر زیادہ تر جماعتیں کسی نہ کسی اندازمیں PTIکی حریف ہیں اور آئندہ بھی ان کے درمیان انتخابی معرکہ آرائی کا قوی امکان ہے عمران خان کا راستہ روکنے کیلئے ان سیاسی قوتوںکا اعلانیہ، غیر اعلانیہ اتحاد ہو گیا ہے اسی لئے میاں نوازشریف کا کہناہے کہ عمران خان اس وقت سیاسی طورپر تنہاہوگئے ہیں(تحریک ِ انصاف کے علاوہ) پارلیمنٹ میں موجود سب جماعتیں تو موجودہ حکومت کے ساتھ ہیں۔ اس وقت میاں نواز شریف” یک نہ شد دو شد”کے محاورے کی شکل میں عمران خان اور شیخ الاسلام طاہرالقادری سے بیک وقت نبرد آزماہیں ایک پارلیمنٹ میں ہیں دوسرے پارلیمنٹ سے باہر لیکن دونوں خطرناک ہیں عمران خان لانگ مارچ کی کامیابی کیلئے سرتوڑکوشش کررہے ہیں پاکستان میں اب تلک صرف ایک لانگ مارچ کامیاب ہوا ہے جو معزول ججزکی بحالی کیلئے کیا گیا تھا عمران خان کہتے ہیں میں جمہوریت بچانے کیلئے لانگ مارچ کررہاہوں جبکہ شیخ الاسلام کا کہناہے کہ وہ پاکستان کو بچانے کیلئے انقلاب لانا چاہتے ہیں ۔۔۔پاکستان میں پر امن جمہوری جدوجہد ہرشخص کا حق ہے اور اس کیلئے اسے آزادی پاکستان کا آئین دیتا ہے۔
نہ جانے کیوں حکومت سے وابستہ ہر شخص نے طاہرالقادری پر تنقید کرنا اپنے اوپرفرض قراردیدیاہے اگر طاہرالقادری یہ کہتے ہیں کہ ایسی جمہوریت۔۔ ایسا نظام ۔۔ ایسی سیاست سے جان چھڑائی جائے جس نے غربت کو عوام کیلئے بد نصیبی بنا دیاہے تو اس میں برائی کیاہے؟ اب تک صرف طاہرالقادری کی ذات کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے حیرت اس بات پرہے کہ ان کی باتوںکا آج تک کسی نے کوئی جواب نہیں دیا ہر کوئی خاموش ہے۔۔۔ کیوں؟۔۔سچ تو یہ ہے کہ جمہوریت ہو یا آمریت عام آدمی کو کبھی بھی ریلیف نہیں ملا۔محرومیاں ہی محرومیاں غربیوںکا مقدر بنی ہوئی ہیں۔سرکاری نوکریاں اور کاروبار کے وسائل پر عام آدمی کا کوئی استحقاق نہیں ، پڑھے لکھے نوجوان بیروزگارپھرتے ہیں اور نااہل لوگ آ گے۔۔۔ بتائیں جناب یہ کون سی جمہوریت ہے ؟ کیسے جمہوری تقاضے؟دل نہیں مانتا ،ذہن تسلیم نہیں کرتا حقیقت یہی ہے اس جمہوریت میں عام آدمی کیلئے کچھ بھی نہیں۔۔ لگتاہے موجودہ قومی رہنمائوں میں سے کوئی بھی دل سے موجودہ سسٹم کو تبدیل کرنا نہیں چاہتا سب کی خواہش ہے یہ موج میلہ ایسے ہی ہوتا رہے جب تک جمہوریت کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچیں گے ایسی جمہوریت کا کیا فائدہ ؟۔۔ پھر ملک میں جمہوریت ہو یا آمریت ۔۔عام آدمی کو کیا فرق پڑتا ہے۔
Tahir ul Qadri
اس میں کوئی شک وشبہ کی گنجائش نہیں جب تک موجود ہ استحصالی نظام موجود ہے بہتری کی کوئی امید نہیں اورشیخ الاسلام طاہرالقادری کے پاس ایک نظریہ ہے وہ انتخابی اصلاحات کی بات کرتے ہیں عوام کی بات کرتے ہیں آئین اور قانون کی بات کرتے ہیں یہ نظریہ کسی اور کے پاس نہیں ہے اسی لئے انہوں نے عوام کی نبض پرہاتھ رکھ دیاہے اب کوئی مانے یا نہ مانے اس کی مرضی ۔۔۔آنے والا وقت ملک میں کئی نوعیت کی تبدیلیاں لا سکتاہے ایک بات طے ہے موجودہ استحصالی نظام زیادہ دیرتک نہیں چل سکتا عمران خان تو موروثی سیاست کے خلاف ہیں اور شیخ الاسلام موجودہ سیاسی نظام کے ہی خلاف؟ اس لئے حکمران جماعت طاہرالقادری کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔یہ بھی کتنی عجیب بات ہے کہ1973ء کے متفقہ دستورمیں فوجی ڈکٹیٹروں اورجمہوری حکمرانوںنے18ترامیم کرکے اس کا حلیہ بگاڑکررکھ دیا یہ بات طے ہے کہ آخری دو آئینی ترامیم عوامی مفادمیں ہرگزنہیں کی گئیں بلکہ اس کا مقصد شاہانہ اختیارات حاصل کرنا اور ا نتخابی عمل پر اثراندازہونا تھا تاکہ حسب ِ منشاء حکومتوںکی تشکیل کی جا سکے سوچنے کی بات ہے تیسری باروزیر ِ اعظم بننا،حکومت اور اپوزیشن کی مشاورت سے نئے چیف الیکشن کمشنرکا تقرر،الیکشن کمیشن کی تشکیل، چیف جسٹس، آرمی چیف،نگران حکومتوںکا قیام یاچیئرمین نیب کی تقرری سے عام آدمی کیا مفادوابستہ ہے ان کو اس سارے معاملات سے کیا سروکار؟ یہ اشرافیہ کے اپنے مفادات ہیںحقیقت ہمیشہ تلخ ہوتی ہے حکمرانوںنے 1973ء کے متفقہ دستورمیںتمام ترامیم اپنے مخصوص سیاسی مفادات کیلئے کیں۔انتخابی اصلاحات کو بہتر بنانے سے الیکشن پروسس بہترکیا جا سکتاہے حکومت کو اپنی انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے کھلے دل و دماغ سے سب سے مذاکرات کئے جائیں میاں نوازشریف تو دہشت گردوںسے مذاکرات کے حامی ہیں دروازے بند کرنے سے مسائل کبھی حل نہیں ہو سکتے اور حالات سے فرار بھی کوئی اچھی بات نہیں یہ حقیقت بیان کرنے میں کوئی ہرج نہیں کہ موجودہ قومی رہنمائوں میں میاں نواز شریف زیادہ بہتر اور موزوں ہیں لیکن اس تلخ حقیقت کو بھی قبول کرنا ہوگا کہ میاں نواز شریف کے تیسری بار وزیر اعظم بننے کے باوجود عوام کے وہی مسائل۔۔۔وہی محرومیاں ہیں جن سے نجات کی بظاہر کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔ اور ہماری بد قسمتی تو یہ ہے کہ اس کے حل کیلئے کوئی منصوبہ بندی بھی نہیں کی جارہی ۔مہنگائی ، لوڈشیڈنگ، دہشت گردی، کرپشن، بیروزگاری اور غربت پاکستانی قوم کیلئے بد نصیبی بن چکی ہے ،حکومت عمران خان اور طاہرالقادری کی ٹرائیکا ملک وقوم کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک دوسرے کا ساتھ دیں متحدہوکر کام کریں تو اس ملک کی تقدیر سنواری جا سکتی ہے محاذ آرائی تو کسی بھی صورت قومی مفادمیں نہیں۔
میاں نواز شریف سے ایک درد مندانہ گذارش ہے عمران خان اور طاہرالقادری کی جو باتیں دل کو لگتی ہیں ۔۔جو عوامی و قومی مفاد میں ہیں ۔۔جو تجاویزقابل ِ عمل ہیں ان پر غور کرنے میں کوئی ہرج نہیں۔۔ آزادی مارچ اورانقلاب مارچ اب آگے پیچھے نہیں ساتھ ساتھ ہیں قدم بہ قدم ۔۔۔شانہ بشانہ ۔ہزاروں شاید14 اگست کو لاکھوں لوگ سڑکوںپر ہوں۔ اور حکومت بھرپور ریاستی وسائل سے آزادی مارچ اورانقلاب مارچ کوروکنے کی کوشش کرے گی۔تینوں جانب سے فل تیاریاں ہیں میں تصورکی آنکھ سے دیکھ رہاہوں میرے چاروں اطراف پاکستانی شہری ہیں ، ہم وطن میرے اہل ِ وطن۔۔۔،نعرے لگاتے،لاٹھی چارج کرتے ،آنسو لیس شیلنگ کرتے ، ایک دوسرے پر پتھر مارتے، گرفتاریاں کرتے ،مزاحمت کرتے ۔لہولہان ہوتے پھر زخمی ہوکر گرتے لوگ۔۔۔یہ سب کچھ 14 اگست کوہورہاہے آزادی والے دن۔خدا کے حضور سجدہ ٔ شکر کی بجائے ایک دوسرے کا گریبان پکڑے ہم کیسے لگیں گے ۔۔۔یقینا حضرت قائداعظم اور علامہ اقبال کی روحوںکی بھی چیخیں نکل جائیں گی۔ نہ جانے کتنے پاکستانیوں کا دل خون کے آنسورورہاہے کہ ایسا وقت دیکھنے سے پہلے سپید دودھ سی چادر اوڑھے سو جائیں۔