واشنگٹن (جیوڈیسک) اس خدشے کے پیش نظر کہ داعش نے اپنے شامی دارالحکومت رقعہ میں اکٹھا ہونا شروع کر دیا ہے اور امکان ہے کہ وہ وہاں سے اپنے دہشت گرد حملوں کا آغاز کر سکتا ہے، امریکہ اور اُس کے مغربی اتحادیوں کے لیے رقعہ پر توجہ دینا ناگزیر ہوتا جا رہا ہے۔
امریکہ اور مغربی عہدےداروں کا کہنا ہے کہ وہ ہمیشہ یہ سوچتے رہے ہیں کہ رقعہ کو جو دہشت گرد گروہ داعش کا مضبوط ٹھکانہ خیال کیا جاتا ہے، صفائی کی ضرورت ہے۔ تاہم، وہ کہتے ہیں کہ اس کارروائی میں پیش قدمی کا فیصلہ چند ہی روز قبل سامنے آیا، حالانکہ اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ شام کی سرزمین پر موجود افواج ابھی آپریشن کے لیے تیار نہیں۔
’آپریشن انہیرنٹ رزالو‘ کے کمانڈر نے بدھ کے روز بغداد سے وڈیو لنک کے ذریعے پینٹاگان میں موجود اخباری نمائندوں کو بتایا کہ ’’ضرورت اس بات کی ہے کہ رقعہ کے ارد گرد کے علاقے کو خالی کرایا جائے؛جب کہ، ہمارے انٹیلی جنس ذرائع کا کہنا ہے کہ اہم نوعیت کے بیرونی حملے ہو سکتے ہیں‘‘۔
معاملے کی نزاکت بیان کرتے ہوئے، لیفٹیننٹ جنرل اسٹیفن ٹاؤن سینڈ نے کہا کہ ’’ہمیں پتا ہے کہ وہ کس کام میں لگے ہوئے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ کچھ کر گزرنا چاہتے ہیں؛ معاملہ کہاں اور کب کا ہے‘‘۔
خیال کیا جا رہا ہے کہ رقعہ کو الگ تھلگ کرنے اور اُس پر دباؤ بڑھا کر اتحاد ’’اسے دبا سکتا ہے‘‘، چاہے داعش کی جو بھی منصوبہ بندی ہو۔
ایسے میں جب رقعہ کے مضافات میں کی گئی انٹیلی جنس نسبتاً نئی ہے، لیکن یہ تشویش پرانی ہے۔
امریکی اور یورپی انٹیلی جنس اہل کاروں کو طویل مدت سے یہ تشویش لاحق رہی ہے کہ عراق اور شام میں بڑھتے ہوئے نقصانات داعش کو مجبور کریں گے کہ وہ اپنا دھیان خودساختہ خلافت سے ہٹا کر دہشت گردی کی جانب موڑ دیں۔