ہمسائے کے گھر میں آگ لگ جائے تو کسی دن اس آگ کی تپش اور حدت اپنے گھر کو اپنی لپیٹ میںلے لیتی ہے۔ اس وقت جو عالمی صورتِ حال بننے جا رہی ہے اس میں پاکستان ایک انتہائی پچیدہ صورتِ حال سے دوچار ہے۔ایسی صورتِ حال شائد اس سے پہلے کبھی نہیں آئی تھی ۔شائد اس کی اسٹریٹیجک پوزیشن ایسی ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی اسے تنازعہ میںگھسیٹ لیا جاتا ہے ۔امریکہ اور ایرن کی حالیہ مخاصمت عالمی امن کے لئے خطرہ ہے اور پاکستان اس کا نشانہ بننے والا ہے ۔سعودی عرب اور خلیجی ریاستیں کھلے عام ایران کو للکار رہی ہیں اور پاکستان ان سب کے درمیان اپنی غیر جانبداری کو قائم رکھنے کے جتن کر رہا ہے۔تاریخ کے اوراق الٹتے ہیں تا کہ ہمیں احساس ہو کہ ہمارا مقام و اہمیت کیاہے اور ہم گاہے بگاہے دوسروں کے جھمیلوں میں کیوں گھسیٹ لئے جاتے ہیں ؟١٩٧٩ میں افغانستان پر سوویت یونین نے یلغار کی تویہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں تھی کیونکہ سویت یونین ایک زمانے سے اس کی پیش بندی کر رہا تھا اور پاکستان پر چڑھائی کیلئے بہانے تلاش کر رہا تھا۔اسے گرم پانیوں تک رسائی چائیے تھی اور وہ پاکستانی ساحلوں سے ہی مل سکتی تھی۔بھارت نوازی نے سویت یونین کی قیادت کو پاکستان سے بد ظن کیا ہوا تھا لہذا سویت یونین کیلئے پاکستان کے خلاف بغض اور عناد اپنی انتہائوں کو چھو رہا تھا۔
پاکستان کا وجود اس کی نگاہوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہا تھا اور وہ اس کانٹے کو ہمیشہ کیلئے نکال دینا چاہتا تھا ۔ افغانستان پر چڑھائی اسی کا شاخسانہ تھا ۔ مشرقی یورپ کو اپنے قدموں میں روھندنے والا سویت یونین اپنی فوجی برتری کے زعم میں ایسا مست تھا کہ وہ بھول گیا کہ پاکستان مشرقی یورپ نہیں ہے بلکہ اسلام کے شیدائیوں کا ایسا ملک ہے جس میں وطن کی خاطر مر جانا ایک سعادت سمجھی جاتی ہے ۔شہادت کی موت مرنے والے زندگی کی پرواہ کب کرتے ہیں۔اس بات کا تجربہ بھارت کو تھا لیکن سویت یونین اس تجربے سے نہیں گزرا تھا۔وہ غلط فہمی کا شکار تھا اور یہی غلط فہمی اس کی تباہی کا پیش خیمہ بنی ۔افغانستان پر اس کی یلغار کے نتیجے میں ٣٥ لاکھ افغانیوں کو پاکستان میں پناہ لینی پڑی ۔ افغانیوں کی آمد سے پاکستان کا اپنا کلچر بری طرح متاثر ہوا لیکن پاکستان نے مہمان نوازی میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔لبرل اور ترقی پسند حلقوں کو افغانیوں کی آئو بھگت ایک آنکھ نہ بھائی لیکن حالات کی ستم ظریفی کے پیشِ نظر انھیں یہ کڑوا گھونٹ پینا پڑا ۔افغانیوں کی ہجرت سے ہمارا اپنا کلچرتبدیل ہو کر رہ گیا۔ایک دفعہ کلچر ڈگمگا جائے تو پھر اسے سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے ۔کلچر ویسے بھی کوئی جامد شے تو ہوتا نہیں کہ جو ایک ہی جگہ پر جم کر کھڑا ہو جائے ۔ کلچر میں تبدیلی کی استعداد ہی در اصل کسی کلچر کو مستحکم بناتی ہے۔جس کلچر میں وقت کے نئے سانچوں میں ڈھل جانے کی خوبی نہ ہو وہ مٹ جایا کرتا ہے ۔
دنیا کے نئے نئے رحجانات نئے نئے ثقا فتی جھمیلے ایک نئے عالمی کلچر کو پروان چڑھانے کا باعث بن رہے ہیں جس سے ہماراوہ کلچر جو آزادی کے وقت تھا ناپیدتا جا رہا ہے۔اب ہم ایک نئے کلچر کی دنیا میں ہیں یہ الگ بات کہ یہ نیا کلچر کسی نہ کسی انداز میں ہمارے پرانے کلچر سے جڑا ہوا ہے۔ہمارے رسم و رواج اب نئی شکل اختیار کر چکے ہیں حالانکہ ان میں پرانی روح کو اب بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔معاشرتی میل ملاپ،مہمان نوازی،شادی بیاہ خوشی وغم میں پرانا کلچر اپنا وجود اور ڈھانچہ تو رکھتا ہے لیکن اس کا اظہاریہ بدل چکا ہے۔ اب سب کچھ نئے پیکروں میں جلوہ نما ہے اور انسان تبدیل ہوتے ہوئے کلچر میں خود کو بے بس محسوس کررہا ہے۔جس کے پاس دولت کے انبار ہیں وہ نئے کلچر میں شاداں و فرحان ہے لیکن وہ جو قدامت پرست ہیں اور غربت کی گرفت میں ہیں پرانی اقدار کی موت پر نوحہ کناں ہیں۔انھیں پرانے کلچر کی وضع داری اور احترام کی رمق اب بھی بے چین رکھتی ہے لیکن اب پرانے کلچر کا یہ رنگ پھیکا پڑ چکا ہے ۔لاکھوںافغانیوں کی پاک سر زمین پر ہجرت نے پاکستانی معاشرے پر گہرے نقوش ثبت کئے ہیں جس سے ہماری بودو باش اور رہن سہن تبدیل ہو کر رہ گیا۔ہماری قومی ترجیحات بدل گئیں۔نیاکلاشنکوف کلچر متعارف ہوا ہے جس سے معاشرے میں عدمِ برداشت نے جنم لے لیا ہے۔شدت پسندی نے معاشرے کی چولیں ہلا کر رکھ ی ہیںاور یوں برداشت اور تحمل کا مادہ دم توڑ چکا ہے ۔دھشت گردی کا ایک ایسا طوفان اٹھا ہے جس میں نہتوں کا خون بے دردی سے بہایا جا رہا ہے ۔جب بارود، ہتھیار اور آتشیں اسلحہ گلی محلوں میں نوجوان نسل کا اثاثہ بن جائیں تو پھر نئے رحجانات کو روکنا کسی کے بس میں نہیں ہوتا۔ ،۔
سویت یونین نے بھارتی رفاقت سے افغانستان پر فوجی غلبہ تو پا لیا لیکن اسے مستقل اور دائمی کیفیت سے ہمکنار کرنا اس کے بس میں نہیں تھا کیونکہ اس کے خلاف پاکستان خم ٹھونک کر میدان میں نکل چکا تھا۔افغانیوں کی بسالتیں تو اپنی جگہ تھیں لیکن پاکستانی قوم نے جس طرح افغانیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا اس نے سویت یونین کے عزائم کو خاک میں ملا دیا ۔ ابھی یہ کھیل ابتدائی مراحل میں تھا کہ امریکہ بہادر کو اس خطے میں اپنی بالا دستی کی نائو ڈولتی ہوئی محسوس ہوئی لہذا اس نے بھی پاکستان کے ساتھ کھڑا ہونے کا اعلان کر دیا۔امریکی اعلان سے سویت یونین کو شدید دھچکہ لگا اوراس کا تسخیرِ پاکستان کا خواب بری طرح سے بکھر گیا ۔ پاکستا ن جنرل ضیا الحق کے مارشل لاء کی وجہ سے دنیا میں تنہا ہو رہا تھا لیکن امریکی تائید سے اس کی اہمیت دو چند ہو گئی۔روس کی شکست امریکہ کی چودھراہٹ کا پہلا زینہ تھا لہذا وہ سویت یونین کو ہر حال میں حزیمت سے دوچار کرنا چاہتا تھا۔افغان مجاہدین کا ایک نیا گروہ سامنے آیا جس نے اپنی استقامت سے ناممکن کو ممکن بنا کر دکھایا۔اس زمانے کے ترقی پسند حلقوں میں مجاہدین کا مذا ق اڑایا جاتا تھا لیکن وقت نے ثابت کیا کہ مجاہدین کا عزم سویت یونین کی شکست و ریخت کا باعث بناتھا ۔ان کی قدامت پرستی سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ان کے عزم پر کوئی سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔جنرل ضیاا لحق کی افغان پالیسی پر سیاسی قائدین کو تحفظات تھے لیکن سویت یونین کی جارحیت کے خلاف پوری قوم یک مشت تھی کیونکہ اس جنگ میں اس کے اپنے وجود کا سوال درپیش تھا ۔اگر سویت یونین کے خلاف مجاہدین دفاعی دیوار نہ بنتے تو معلوم نہیں پاکستان کا کیا حشر ہوتا ۔یہ تو مجاہدین کی ثابت قدمی تھی جو سویت یونین کی پیشقدمی کے سامنے آہنی دیوار بن کر کھڑی ہو گئی ۔
اتحادِ ثلاثہ کی باہمی رفاقت کا نتیجہ تھا کہ ١٩٨٩ کو سویت یونین افغانستان سے بے نیل و مرام نکلا اور اس کی اپنی سلطنت کا شیرازہ بکھر کر رہ گیا۔یہ کسی کے حیطہ ادراک سے ماورا تھا کہ افغانستان سویت یونین کا قبرستان بن جائیگا ۔سویت یونین جس کا سامنا کرنے سے امریکہ بھی خم کھاتا تھا اسے افغانیوں کے ہاتھوں نیست و نابود ہو نا پڑا ۔ دنیا کے نقشے پر اب سویت یونین نام کا کوئی ملک باقی نہیں ہے۔افغانستان کی جنگ سویت یونین کے تابوت میں آخری کیل تھی اور یہ کیل امریکہ پاکستان، افغانستان اور ان کے اتحادیوں نے باہم مل کر ٹھونکی تھی۔دنیا کو اپنی جوتی کی نوک پر لکھنے والا سویت یونین دیکھتے ہی دیکھتے ہوا میں تحلیل ہو گیا اور اس کی جگہ امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور بن کر ابھرا۔پاکستان کو تباہ و برباد کرنے والوں کا وہ حشرہوا کہ دنیا شسدر رہ گئی ۔پاکستان کو مٹانے والے خود مٹ گے۔ روس کا ہوا دنیا سے نابود ہوا اور اس کی چودھراہٹ خاک میں مل گئی ۔حالات کے بدلائو میں ایک بار پھر پاکستان کی سلامتی کو شدید خطرات لا حق ہیں ۔اسے کل افغانستان کی یلغار کی آڑ میں نشانہ بنایا گیا تھا جبکہ اسے آج ایران کی آڑ میں نشانہ بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔حالات کیا رخ اختیار کریں گے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ پاکستان کو انتہائی مختاط رہنے کی ضرورت ہے ۔ دوسروں کی جنگ سے دور رہنا ہی اس کا کامیابی ہو گی ۔،۔
Tariq Hussain Butt Shan
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال