تحریر: مسکان احزم ایک وقت ایسا بھی تھا جب حوا کی بیٹی کا معاشرے میں کوئی مقام نہیں تھا اور نہ ہی خدا کی اس رحمت کی کوئی قدرو قیمت تھی۔لوگ یاتو اپنی بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی دفن کردیتے یا پھر زندہ جلا کر انہیں ستی کردیتے۔یہ وہ دور تھا جب اسلام کی شمع نے عورت کی اہمیت کو روشن نہیں کیا تھا۔لیکن اگر دیکھا جائے تو موجودہ دور ،زمانہ جاہلیت سے بھی بد تر ہیجس میں معصوم بچیوں کو محض جہیز کی خاطر جلا دیا جاتا ہے۔غریب والدین اپنی ساری زندگی بیٹی کا جہیز جمع کرتے ہی گزار دیتے ہیں مگر بیٹی کا گھر پھر بھی نہیں بسا پاتے۔
ماں باپ کے سر سے یہ سختی اتر کیوں نہیں جاتی یہ رسم جہیز آخر مر کیوں نہیں جاتی اگر حضورۖکی حیاتِ طیبہ پر نظر ڈالی جائے تو آپۖنے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو جہیز کے طور پر صرف یہ چیزیں دی تھیں ایک چادر،ایک مشکیزہ،ایک تکیہ جس میں اذخر کی گھاس بھری ہوئی تھی۔لیکن آپۖ کی دوسری بیٹیوں کے نکاح کے سلسلے میں جہیز وغیرہ کا کوئی ذکر نہیں آتا۔حضرت فاظمہ کے لیے آپ ۖ نے ان چیزوں کا انتظام حضرت علی رضی اللہ عنہہ کے سرپرست ہونے کی حیثیت سے انہی کی طرف سے اور انہی کے پیسوں سے کیا تھا کیونکہ ضرورت کی یہ چیزیں ان کے گھر میں نہیں تھیں۔اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ صرف ضرورت کا سامان ہی بیٹی کو دیا جاسکتا ہے۔مگر موجودہ دور میں قیمتی سامان ہی اصل جہیز سمجھا جانے لگا ہے۔
Wedding
ہمارے ہاں جب بھی کوئی بیٹیوں کا رشتہ دیکھنے آتا ہے تو اس کا پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ لڑکی اپنے ساتھ جہیز میں کیا لائے گی۔ اگر تو لڑکے والوں کی ڈیمانڈ پوری ہوجاتی ہے تو رشتہ پکا ورنہ یہ کہہ کر انکار کہ ہمارے لڑکے کو کونسا لڑکیوں کی کوئی کمی ہے۔جو والدین اتنا مہنگا جہیز نہیں دے سکتے ان کی بیٹیاں ماں باپ کے در پر ہی بوڑھی ہوجاتی ہیں۔اور ماں باپ ان کے رشتے کی فکر میں ہی بقیہ زندگی گزار دیتے ہیں۔ آہ حسن ڈھل گیا ، جوانی گزر گئی بیٹی غریب باپ کی بے موت مر گئی
لڑکی بیاہ کر لے جانے والوں کے لیے یہی بات کافی ہونی چاہیے کہ کوئی ان کو اپنی سب سے قیمتی متاع دے رہا ہے۔کیا یہ لوگ سودا کرتے ہیں کہ آپ اپنی بیٹی ہمیں دے دیں اور ساتھ میں بیش قیمت سامان دے دیں ہم آپ کی بیٹی کو گھر کی ملکہ بنا کر رکھیں گے؟؟صد افسوس۔لوگ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ان کے اس لالچ کی وجہ سے بہت سی بچیاں اپنی خواہشات کا گلہ گھونٹ دیتی ہیں۔بہت سے والدین بے بسی کی چکی میں پسنا شروع ہوجاتے ہیں۔ہم لوگ یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ جن والدین کو بمشکل دو وقت کی روٹی کھانے کو ملتی ہے وہ پورے گھر کا سامان اپنی بیٹی کے لیے کہاں سے لیکر آئیں گے؟بیٹی کا گھر بسانا اتنا مشکل کیوں کردیا گیا ہے کہ بیٹی کے پیدا ہوتے ہی ماں باپ کو اس کے جہیز کی فکر لاحق ہوجاتی ہے؟ان بچیوں کا کیا صر ف یہ قصور ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسے معاشرے میں پیدا ہوگئی ہیں جہاں بیٹی کو نہیں جہیز کو ترجیح دی جاتی ہے؟
طلبِ جہیز نے چھین لیں ان کی تمام شوخیاں دیکھو اداس بیٹھی ہیں حوا کیا بیٹیاں لیکن ایک جگہ پہ قصور لڑکی کے والدین کا بھی ہوتا ہے۔خاندان میں اپنی ناک اونچی رکھنے کی خاطر اپنے کندھوں پر قرض کا بوجھ خوشی خوشی اٹھا لیتے ہیں۔کچھ والدین کا یہ خیال ہوتا ہے کہ وہ قیمتی سامان دے کر اپنی بیٹی کا گھر بسا سکتے ہیں لیکن یہ صرف ان کی بھول ہے۔بیٹی کا گھر بسنا تو قسمت کی بات ہوتی ہے۔جو بچیاں اپنے ساتھ بے بہا سامان لیکر جاتی ہیں وہ بھی کچھ عرصے میں طلاق کا داغ اپنے ماتھے پر سجا کر والدین کے در پر آجاتی ہیں۔ایسے والدین کو یہی کہنا چاہوں گی کہ خدارا اپنی اس سوچ کو بدلیں۔
Daughter
اس قاتل رسم کو ختم کریں۔ بیٹی کی قسمت میں راج کرنا ہوا تو بغیر جہیز کے بھی کر سکتی ہے۔اپنے لیے بھی آسانیاں پیدا کریں اور ان والدین کے بوجھ کو بھی ہلکا ہونے دیں جنہیں دو وقت کی روٹی بھی بڑی مشکل سے ملتی ہے۔ لڑکے والوں سے یہی گزارش ہے کہ رشتہ کرتے وقت بچی کی نیک سیرت کو ترجیح دیں۔ خاندان میں اپنی شان کو برقرار رکھنے کی خاطر حوا کی بیٹی کو جہیز کے نام پر بے موت مرنے نہ دیں۔ان کو بھی اپنی بیٹیاں سمجھیں اور رشتے کے معاملات طے کرتے وقت خدا کے قہر سے ڈریں۔بے شک اس چیز کا بھی سوال کیا جائے گا۔