میرے ایک دوست فضل حیات جو ایک صحافی بھی ہے اس نے اپنے اسکول کا واقعہ مجھے بیان کیا ، جو میں ان ہی کی زبانی تحریر کرر ہا ہوں۔ میں میٹرک کر رہا تھا کہ ایک دن کلاس کے استاد سر محسننے ایک ایسی بات کہہ دی جس کو سن کر ہم سب کلاس فیلو دم خم سے ہو گئے، یو ں لگا یا تو سر محسننے نیند پوری نہیں کی یا ہم سب ہی چ ہیں۔ سر محسننے کلاس میں سب شاگردوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ چرس بھیجنا حلال ہے ، ریڑھی پتھارہ وغیرہ لگا کر اپنے بچوں کے لیے رزق کمانا حرام ہیں!۔سر محسنکی یہ باتیں سن کر سب بچے اپنے دماغ پر زور دے رہے تھے ، کسی کی ہمت نہیں ہو پارہی تھی سر محسنسے سوال کریں کہ سر یہ آپ نے کیا کہہ دیا۔
اگلے روز جب ایک دوست نے ہمت کر کے سر محسنسے سوال کر ڈالا، سر کل والا سبق چرس بھیجنا حلال پتھارہ لگا نا حرام ہمیں سمجھ نہیں آیا ،تو انہوں نے کچھ یوں جواب دیا ۔ اگر چرس بھیجنے سے کسی کی حق تلفی نہیں ہوتی اور نہ ہی کسی انسان کو نقصان تو جائز اور ریڑھی یا پتھارہ سڑک بیچوں بیچ لگا کر اگر راستے میں آنے جانے والوں کے لیے تکلیف کا سبب بنتا ہے تو کیا یہ رزق حلال ہوگا؟
ہم اللہ تعالیٰ کے فضل و کر م سے مسلمان ہیں ، ہم نے کلمہ طیبہ پڑھ کر یہ اقرار کیا ہے کہ اب ہم اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور رسول اللہ ۖ کی رسالت کے ساتھ ساتھ اسلام کے ان تمام قوانین پر عمل پھیراہ ہونگے، جو ہمیں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید و رسول اللہ ۖ نے احادیث کہ ذریعہ بتلائی ہیں۔ اسلام کی تعلیمات زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہیں۔ ان کا تعلق عقائد سے ہو یا عبادات سے،یا معاملات، اخلاقیات اورمعاشریات سے، اسلام کا اپنے ماننے والوں سے یہ تقاضا ہے کہ دوسروں کے جو حقوق تم پر عائد ہو تے ہیں،انہیں حتیٰ الامکان پورا کرنے کی کوشش کرو۔ چاہے وہ حقوق چھوٹے چھوٹے مسائل سے متعلق ہوں یا بڑے بڑے مسائل سے ان کا تعلق ہو۔
اسلام نے حقوق وواجبات کی فہرست میں راستے کے حق کا اضافہ کیا اور اس بات کو یقینی بنانے کا حکم دیا کہ راستہ مسافروں کے لیے مامون ومحفوظ ہو اور انہیں دوران سفر کسی پریشانی کا سامناکرنا نہ پڑے، اس کے لیے کسی بھی تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانا بھی ایک عبادت بنا دیا گیا، چناںچہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا: ایمان کے بہت سے شعبے ہیں ان میں پہلا کلمہ طیبہ و آخری راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے۔ انسان کے ہر جوڑ پر صدقہ ہے اور راستے سے تکلیف دہ چیزوں کا ہٹانا بھی صدقہ ہے۔ (بخاری ومسلم)ایک اور حدیث میں ہے کہ راستے سے تکلیف دہ وناپسندیدہ چیزوں کا ہٹانا کوئی عام صدقہ نہیں، بلکہ یہ اتنا بڑا عمل خیر ہے جو انسان کی مغفرت کے لیے کافی بھی ہے۔ روایت کے مطابق راستہ چلتے ہوئے ایک شخص کو کانٹوں بھری ٹہنی نظر آئی تو اس نے اسے راستے سے ہٹا دیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے اس کی مغفرت فرما دی۔ (بخاری ومسلم)
آج کل پورے پاکستان اور خاص کر کراچی کی سڑکوں پر کچروں کی ڈھیر ہونے کے ساتھ ساتھ ناجائز تجاویزات کی وجہ سے ٹریفک کی روانی اور آنے جانے والے راہگیر بھی متاثر ہیں،خاص کر سڑکوں کے بیچوں بیچ پتھارے لگا خرید و فروخت کا ایک نہ تھم نے والا سلسلہ شروع ہوگیا ہے ، جس میں انتظامہ کے کچھ لوگ بھی ملوث ہوتے ہیں، وہ اپنی جیب کو گرم رکھنے کے لیے یہ گناہ کرتے ہیں۔ اگر کچھ نیک افسران ان تجاویزات کو ہٹانے کی کوشش بھی کریں تو کچھ لوگ میڈیا ،یا پرسوشل میڈیا پر آکے اس کاروائی کو ظلم عظیم قرار دیکر متعلقہ افسران کو گناہ کبیرہ کا موجدید ٹہرا دیتے ہیں۔ حالانکہ اسلام میں راستہ کے حقوق کا اتنا خیال رکھا گیا ہے کہ جو شخص راستہ پر خرید وفروخت کرے اور اسکی وجہ سے راستہ تنگ ہو تو اس شخص سے خرید و فروخت کرنے سے بھی منع کیا گیا کہ ایسی صورت میں اس سے خریدنا گناہ پر مدد کرنا ہے کیونکہ جب کوئی خریدے گا نہیں تو وہ راستہ میں بیٹھے گا بھی نہیں۔ (فتاوٰی عالمگیر) ان پتھارہ داروں کے ساتھ ہم اپنا محاسبہ بھی کریں۔
جیسے کہ گھروں وغیرہ کے معاملات میں بھی یہ دیکھا گیا ہے کہ تعمیرات کے نام پر ملبہ،سریا،ریت بجری،ٹوٹا پھوٹا سامان مہینوں روڈ یا فٹ پاتھ پر بکھرا پڑا رہتا ہے، جس کی وجہ سے شارع عام لوگوں کے لیے تنگ ہوجاتی ہے اورگزرنے والوں کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے او رافسوس کی بات یہ ہے کہ حقوق العباد سے غفلت اور گزرنے والوں کو تکلیف دینے کی یہیں صورتیں مساجد و مدارس کی تعمیرات کے وقت بھی نظر آتی ہے، وہی روڈاور فٹ پاتھ پر کچرا پھینکنا، گزرنے والوں کا تنگ ہونا، گندگی کا پھیلنا، سریا، سیمنٹ بجری اور ملبے کا مہینوں بکھرا پڑے رہنا سب ویسے کا ویسے ہی ہے۔ اس کے ساتھ مارکیٹوں میں بھی بد نظمی عروج پر ہو تی جارہی ہے،دوسرے لوگوں کا لحاظ کئے بغیر ہر فرد بیچ روڈپرگاڑی کھڑی کرکے اپنی سہولت کے مطابق اپنا سامان لوڈ،اَن لوڈ کرنے میں مصروف ہو تا ہے،انتظامیہ اگر چاہے تو لوگوں کو تکلیف پہنچائے بغیر بھی یہ سب کام ہو سکتے ہیں،لیکن ایسا محسوس ہو تا ہے،دینی جذبہ رکھنے والے لوگوں میں بھی اس درد کو سمجھنے والے کم ہو تے جارہے ہیں۔
کاش کہ متعلقہ افراد ان چیزوں کو درست کرنے اور بے ہنگم اور اذیت ناک ماحول سے لوگوں کو نجات دلانے کی کوشش کریں ۔ ساتھ ہی ساتھ علمائے کرام کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ محراب و منبر سے بھی ان مسائل پر آواز اٹھائیں اور عقائد و عبادات اور حلال و حرام کے احکام سکھانے کے ساتھ ساتھ قرآن و سنت، اسوہ حسنہ اور سلف صالحین کی سیرتوں کی روشنی میں حقوق العباد پر لوگوں کو وعظ و نصیحت کریں۔ لیکن مجموعی صورت ِ حال سے یوں لگتا ہے کہ شاید ہر شخص یہیں سوچتا ہے کہ یہ مسئلہ میرے متعلق نہیں بلکہ کسی اور کو سمجھایا جارہا ہے۔ ریاست پاکستان کے کرتا دھرتائوں کے ساتھ دینی اداروں کی انتظامیہ کو بھی یہ درد سمجھنا ہو گا اور اس گناہ سے خود عملی طور پر بچ کر دوسروں کو بچانا ہو گا۔ان پتھاروں والوں کا بتانا ہوگا کہ تم دوسروں کو تکلیف دیں کر جو رزق کما رہے ہو”یہ رزق حلال نہیں”!۔
اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ یااللہ تو ہی ہمیں صحیح و غلط کی سمجھ عطا فرما(آمین)