کسی بھی ملک کی معاشی ترقی میں وہاں کے زرائع آمدورفت کو ایک خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے وطن عزیز پاکستان میں نوے کی دہائی میں جب موٹر وے کی تعمیر کاباقاعدہ آغاز ہوا تو اِ س پراجیکٹ پر اعتراضات اُٹھانے والوں کی کمی نہ تھی لیکن جب اس کی تعمیر مکمل ہوئی تو وہ ہی لوگ جو مسلسل اِس کی تعمیر کو ملکی خزانہ پر بوجھ اور قرضوں کے حجم میں اضافہ کا رونا رو رہے تھے اِس شاہکار پر سفر کرنے کو اہمیت دینے لگے میاں نواز شریف کی پہلی حکومت کا خاتمہ کرنے والوں نے موٹر وے کی تعمیر پر اُٹھنے والے بھاری اخراجات کو بھی نواز حکومت کی نااہلی قرار دیتے ہوئے الزامات میں سر فہرست رکھا تھا جبکہ بعد میں آنے والی حکومتوں بشمول نواز شریف کا دوسرا ،تیسرادور اقتدار اور جنرل پرویز مشرف کا دور حکومت بھی اِس طر ح کے پراجیکٹ بنانے میں پیش پیش رہا اور آج وطن عزیز میں موٹر ویز کا جال بچھ چکا ہے ،ملک کی معاشی ترقی میں دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ بنیادی اہمیت بہترین سڑکوں کی تعمیرکو حاصل ہے ترقی و خوشحالی کی منزل کے حصول میں زرائع آمدورفت کے کردار کو کلیدی حثیت حاصل ہے وطن عزیز میں آبادی کے لحاظ سے بڑے صوبہ پنجاب میں سڑکوں کا نیٹ ورک دیگر صوبوں سے زیادہ بہتر موجود ہے۔
بڑے شہروں کے ساتھ ملانے والی سڑکیں توکافی بہتر ہیں مگرچھوٹے شہروں اور دیہاتوں کی رابطہ سڑکیں عرصہ دراز سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہی ہیں سابقہ پنجاب حکومت کے وزیر اعلی میاں شہباز شریف نے ”خادم پنجاب دیہی روڈ پروگرام”اپنے دور میں شروع کیا تو پنجاب کے اضلاع میں یہ پروگرام بیک وقت شروع کیا گیاتاکہ دیہاتوں میںرہنے والوں کی زندگی میں پیش آنے والی مشکلات کا خاتمہ ممکن ہو سکے اُنہیں محفوظ سفر کی سہولیات حاصل ہوں اس پروگرام کے مکمل ہونے سے شہری اور دیہی زندگی میں فرق کو کافی حد تک کم کیا جانا مقصود تھا دیہاتوں سے شہروں کی طرف منتقل ہونے والی آبادی کو اُنھیں کے علاقوں میں بنیادی سہولیات کے حصول میںحائل رکاوٹوں کو دور کرنا بھی شامل تھا اگر دیہاتوں کے رہنے والوں کو بنیادی سہولیات اپنے گھروں کے پاس دستیاب ہوں گی تو اُنکی مشکلات اور مسائل میں واضح کمی ہوگی اس پروگرام کے تحت پنجاب میں جہاں سڑکوں کو چوڑا کیا گیا وہیں نئی سڑکوں کی تعمیر بھی شروع کی گئی تھی جس کو پزیرائی بھی حاصل ہوئی وہیں یہ اُمید بھی تھی کہ شہروں میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار سڑکوں کو بھی نئے سرے سے تعمیر کیا جائے گا۔
خاص طور پر شہروں کے وسط سے گزرنے والی سڑکوں پر برسات کے موسم میں پانی کے نکاس کے لیے بہترین منصوبہ سازی کی جائے گی لیکن افسوس کہ میرے شہر اوکاڑہ میں مال روڈ کی اہمیت اور حثیت رکھنے والی سڑک کے ایک اہم حصہ کو بارہا نظر اندازکیا جاتا رہا ،سانچ کے قارئین کرام !بے نظیر روڈ چار کلو میٹر طویل ہے جو کہ شہر کے وسط سے گزرتی ہے ،ون فور ایل کے ریلوے پھاٹک سے ڈسٹرکٹ کمپلیکس تک جانے والوں اور خاص طورسڑک سے ملحقہ درجنوں کالونیوں کے رہنے والوں کوسفر کے لیے کسی نعمت سے کم نہ ہے اس کا باقاعدہ افتتاح اگست انیس سوچھیانوے میں اُ س وقت کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے کیا اِ سکی تعمیر کا سہرا تعمیرِ شہر سابق وفاقی وزیرِدفاع رائو سکندر اقبال مرحوم کے سر جاتا ہے بے نظیر روڈ کی تعمیر کے موقع پر اکثریتی شہریوں کا موقف وہ ہی تھا جو وطن عزیز میں موٹر وے کے قیام کے وقت معیشت دانوں اور نقادوں کا تھا لیکن اِس کی تعمیر کے چند ماہ بعد ہی اوکاڑہ کے شہریوں اور دور دراز سے آنے والوں کا اِس روڈکو استعمال میں لانا باعث فخر بن گیا قارئین کرام ! بات ہو جائے سڑک کے اُس حصہ کی جو اپنی تعمیر کے فوراََ بعد چند ٹیکنیکل فالٹ کی وجہ سے اِس روڈ کو استعمال کرنے والوں کے لئے درد سر بن گیا سکند ر چوک سے فلائی اوور تک کا حصہ خاص طور پربرسات کے موسم میں اور سال کی کسی بھی حصہ میں معمولی بارش کے سبب دریا کا منظر پیش کرتا نظر آتا ہے۔
بے نظیر روڈ پر ٹریفک کے بڑھتے ہوئے بوجھ کو کم کرنے کے لئے سال 2012-13میں اِسکو دورویہ کر دیا گیا سابق صوبائی وزیر اشرف خان سوہنا نے اِسکی تعمیر میں خصوصی دلچسپی لیتے ہوئے پراجیکٹ کو مکمل کروایا لیکن افسوس سڑک کا یہ حصہ جو مسائل سے دور چار کر رہا تھا اُس کو جب دورویہ کیا گیا تو وہاں پر موجود تعمیری فالٹ کو درست نہ کیا گیا بلکہ اُسے دورویہ بنانے پر ہی توجہ دی گئی جس کی وجہ سے سال 2013کا موسم برسات سکندر چوک سے فلائی اوور کی قریبی آبادیوں اور خاص طور پرکاروباری افراد کے لئے مشکلات اور مسائل کا بڑا سبب بن کر آیا برسات اور معمولی بارش میں اِس حصہ پر پانی کا کھڑا رہنا اب معمول بن گیا جس سے ٹریفک کا نظام بھی بُری طرح متاثر ہورہا ہے یہاں کے کاروباری طبقہ اور رہائشیوں کے بارہا احتجاج کے باوجود اِسکی تعمیر میں تاخیر کی جارہی ہے۔
سابقہ حکومت کی مدت کے آخری مہینوں میں اِس حصہ کی از سرنو تعمیر کے بارے خوشخبری عوامی نمائندوں نے سنائی اور اِس کی تعمیر کے لئے 9کروڑ روپے کی خطیر رقم فراہم کرنے کا عندیہ بھی دیا گیا لیکن ایک بار پھر وہ ہی ہوا جو پہلے ہوتا آیا تھا سکندر چوک سے فلائی اوور تک کی تعمیر کٹھائی میں ڈالتے ہوئے سڑک کے اگلے حصے کوجو فلائی اوور سے مقامی کونسلر کے شادی ہال تک ہے کو تعمیر کردیا گیا جبکہ وہاں نہ تو سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی اور نہ ہی برسات میں پانی کھڑا رہنے سے عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا سکندر چوک سے فلائی اوور تک کے کاروباری طبقہ اور رہائشی کالونی کے مکینوں کا موجودہ حکومت سے مطالبہ ہے کہ اِس حصہ کو فوری تعمیر کیا جائے تاکہ سفری مشکلات میں واضح کمی ہو۔