ایک بنک ڈکیتی کے دوران ڈکیت نے چیخ کر سب سے کہا ? “کوئی بھی ہلے مت۔چپ چاپ زمین پر لیٹ جائیں۔۔رقم لوگوں کی ہے اور جان آپ کی اپنی ہے۔۔۔” سب چپ چاپ زمین پر لیٹ گئے۔۔۔کوئی اپنی جگہ سے نہیں ہلا ? اسے کہتے ہیں مائند چینج کانسیپٹ (سوچ بدلنے والا تصور) ڈکیتی کے بعد گھر واپس آئے تو نوجوان ڈکیت( جو کہ ایم بی اے پاس تھا )نے بوڑھے ڈکیٹ ( جو کہ صرف پرائمری پا س تھا )سے کہا “چلو رقم گنتے ہیں۔۔
“تم تو پاگل ہو گئے ہو اتنے زیادہ نوٹ کون گنے۔۔رات کو خبروں میں سن لینا کہ ہم کتنا مال لوٹ کر لائے ہیں۔۔” ? اسے کہتے ہیں تجربہ جو کہ آج کل ڈگریوں سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔۔ جب ڈاکو بنک سے چلے گئے تو منیجر نے سپروائزر سے کہا کہ پولیس کو فون کرو۔۔
سپروائز نے جواب دیا “رک جائیں سر ! پہلے بنک سے ہم دونوں اپنے لیے دس لاکھ ڈالرز نکال لیتے ہیں اور ہاں وہ چالیس لاکھ ڈالرز کا گھپلہ جو ہم نے حالیہ دنوں میں کیا ہے وہ بھی ڈاکووں پر ڈال دیتے ہیں کہ وہ لوٹ کر لے گئے۔۔” اسے کہتے ہیں وقت کے ساتھ ایڈجسٹ کرنا۔۔۔مشکل حالات کو اپنے فائدے کے مطابق استعمال کر لینا۔۔
منیجر ہنس کر بولا۔۔”ہر مہینے ایک ڈکیتی ہونی چاہیے۔?۔ ” اسے کہتے ہیں بوریت ختم کرنا۔۔۔ذاتی مفاد اور خوشی جاب سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔۔
اگلے دن اخبارات اور ٹی وی پر خبریں تھیں کہ ڈاکو بنک سے سو ملین ڈالرز لوٹ کر فرار۔۔۔ڈاکووں نے بار بار رقم گنی لیکن پچاس ملین ڈالرز سے زیادہ نہ نکلی۔۔۔بوڑھا ڈاکو غصے میں آ گیا اور چیخا
“ہم نے اسلحہ اٹھایا۔اپنی جانیں رسک پر لگائیں اور پچاس ملین ڈالرز لوٹ سکے اور بنک منیجر نے بیٹھے بیٹھے چند انگلیاں ہلا کر پچاس ملین ڈالرز لوٹ لیا۔۔اس سے پتا چلتا ہے کہ تعلیم کتنی ضروری ہے۔۔ ہم کو چور نہیں پڑھا لکھا ہونا چاہیے تھا۔۔”
اسے کہتے ہیں علم کی قیمت سونے کے برابر ہوتی ہے۔۔ بنک منیجر خوش تھا کہ اسٹاک مارکیٹ میں اسے جو نقصان ہو رہا تھا وہ اب ان پیسوں سے پورا ہو گا۔۔? اسے کہتے ہیں موقع پرستی۔۔