روہینگیا مسلمانوں پر اتنا ظلم

Rohingya Muslims

Rohingya Muslims

تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
گوتم بدھ کا احترام ساری دنیا اور ہر مذہب میں اسلئے کیا جاتا ہے کہ وہ عدم تشدد کی انتہا کو پہنچا ہواا انسان تھا۔جس نے بے زبان جانوروں تک پر بھی انسانی خدمت کے لئے کی جانیولی معمولی سختیوں کو بھی برداشت نہیں کیا تھا، جس نے شہزادگی کو چھوڑ کرجنگل میں بھوک پیاس کے عالم میں اپنے آپ کو ہڈیوں کا پنجر بنا لیا تھا ۔آج اس کی پیروی کا دم بھرنے والے درندہ صفت لوگ جانور تو کجا انسانوں پر ایسے مظالم ڈھا رہے ہیں کہ درندے بھی ان مظالم کو دیکھ کر تھر تھر کانپنے لگیں۔(برما) میانمارمیں کی رکھن اسٹیٹ میں معمولی تعداد میں ہندو اوربڑی تعداد میں مسلمان آباد ہیں ۔جن کی موجودہ تعداد گیارا لاکھ کے قریب ہے۔جب کہ ان کے علاوہ یہاں سے قریباََ دس لاکھ مسلمان گذشتہ تیس سالوں کے دوران انسانیت سوز تشدد کی وجہ سے ہجرت کر چکے ہیں اور دنیا کے مختلف ممالک میں مہاجر کی حیثیت میں مقیم ہیں۔ ان روہینگیا مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان کے شہر کراچی کے کورنگی کے علاقے میں ضیاء دور میں لا کر آباد کردی گئی تھی۔جنکو پاکستانی شہریت بھی دیدی گئی ہے۔ان لوگوں کو میانمار میں مکمل شہریت یاشہری حقوق حاصل نہیں ہیں۔ان لوگوں کے ساتھ جانوروں سے بھی برا اور ظالمانہ سلوک کیا جاتا رہا ہے۔جب روہینگی مسلمانوں کو 1982میں دوسرے نمبرکی شہریت ایک قانون کے ذریعے دینے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے ایسی شہریت لینے سے انکار کر دیا۔کیونکہ ان پر مکمل شہریت کے حصول کے لئے پابندیاں ہیں۔یہ لوگ ایک طویل مدت سے ارکان میں سیٹل ہیں۔

ہیومن رائٹ واچ کا کہنا ہے کہ’’ میانمار کا قانون ان کی ممکنہ حد تک نفی کرتا ہے‘‘۔یہ حقیقت ہے کہ روہینگیا مسلمان یہاں پر صدیوں سے آباد ہیں۔دوسری جانب برما کا قانون بطور ایک نسل کے ان کو مذہبی اقلیت تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے۔ ان لوگوں کو آزادانہ نقل و حرکت اور تحریر و تقریر کی آزادی نہیں ان پریہاں انسانی حقوق کے حصول کی مکمل پابندی ہے۔اور نہ ہی انہیں سرکاری ملازمتیں دیجاتی ہیں۔ان کے بچوں کو سرکاری اداروں تعلیم حاصل کرنے پر مکمل پابندی ہے۔روہینگیا مسلمانوں پر بار بار فوجی آپریشن کئے جاتے رہے ہیں۔1978میں ان پر ملٹری کریک ڈاؤن کیا گیا پھر 1991/92 میں اس کے بعد 2012سے تاحال2017تک (چار سالوں سے) فوجی آپریشن اوردہشت گرد تنظیموں کے حملے مسلسل جاری ہیں۔اس ضمن میں اقوام متحدہ کا بھی یہ ماننا ہے کہ میانمار کے مسلمانوں پر تشدد کا مقصد علاقے کو مسلمانوں سے خالی کرانا ہے۔تاکہ میانمار کو اس مسلم اقلیت سے مکمل نجات حاصل ہو سکے ۔ان کی کوشش ہے کہ روہینگیا مسلمانوں کی آبادی کا یہاں سے مکمل خاتمہ کر دیا جائے۔جس کی بناء پر عام میانمار کے باشندے بھی ان کی جانوں کے دشمن بن چکے ہیں اور ظلم کا ایسا بازار گرم ہے جس کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔

اس وقت میانمار میں بودھوں کی انتہا پسند تنظیموں اور فوج کے ہاتھوں ارکان کے روہینگیا مسلمانوں پر قتلِ عام اور فوجی انتہاپسندی کی انتہا ہوچکی ہے۔گذشتہ دو دنوں کے اندر مسلمانوں کے 30ہزار سے زیادہ گھروں کو نذرِ آتش کر دیا گیا ہے۔اسی طرح مزید 270 سے زیادہ مسلمان شہید کئے جا چکے ہیں ایک لاکھ کے لگ بھگ مسلمان پناہ گذین بنگلہ دیش کی سرحد پر جمع ہو چکے ہیں ۔بنگالیو ں نے ان پر اپنی سرحدوں کے دروازے بند کئے ہوے ہیں ۔اکثر لوگ بنگلہ دیش آرمی کی گولیوں کا نشانہ بھی بن چکے ہیں اوربہت سے لوگ ان کی بچھائی ہوئی بارودی سرنگوں کا بھی نشانہ بن چکے ہیں اور 60کے قریب ارکانی مسلمان دریا عبور کر کے بنگلہ دیش کے اندر داخل ہونے کی کوششوں میں لقمہِ اجل بن چکے ہیں۔میانمار سے ہجرت کرنے والے روہینگیا مسلمانوں کی تین کشتیاں دریا میں ڈوبنے سے بھی ان کا بھاری جانی نقصان ہوان کی قسمت میں اس وقت ہر جانب سے موت کی ہی نوید سنائی دے رہی ہے۔میانمار میں ان کے سفاکانہ قتلِ عام اور ان کی سر بریدہ لاشیں جو کھلے آسمان تلے پڑی ہیں اور سوشل میڈیا پر بھی اس کے بعض کلپ آچکے ہیں جن سے ساری دنیا میں تہلکہ تو مچا مگر ظلم کرنے والوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔اس ظلم کے خلاف مسلم دنیا کے عوام تو چیخ ہی رہے ہیں مگر اس ظلم و بر بریت پر عیسائیوں کے مذہبی پیشوا پوپ فرانسس بھی خاموش نہ رہ سکے۔

انہیں بھی کہناپڑا ’’انہیں مسلمان ہونے کی سزا دی جا رہی ہے‘‘ روہینگیا مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جانے پر اقوام متحدہ نے بھی اپنی ایک قرار داد میں واضح الفاظ میں یہ تسلیم کیا ہے کہ’’ اس وقت روئے زمین پر سب سے مظلوم برما کے مسلمان ہیں‘‘برما کی رہنما آنگ سان سوچی جن کو جمہوریت کی بقاء کے حوالے سے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔اس بوبل انعام کی واپسی کا مطالبہ پوری دنیا سے کیا جا رہا ہے ۔ مطالبے کے حق میں سب سے زیادہ مسلمان عوام ہیں۔کیونکہ سوچی کی موجودگی میں ہی برما کی فوجیں اور دہشت گردبرمی تنظیمیں مسلمانوں کی برما میں نسل کشی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی فوج مسلمانوں کو ناصرف قتل کر رہی ہیں بلکہ ان کو بڑی تعداد میں زندہ جلانے میں بھی پیش پیش ہیں۔اس ضمن میں ہماری وزارت خارجہ کی جانب سے ان انسانیت سوز مظالم کی شدید مذمت کی گئی ہے اس حوالے سے عالمی ضمیر کے سویا ہونے کی وجہ سے سلامتی کونسل بھی مداخلت سے گریزان ہے۔اس وقت یہ بات بھی بہت اہمیت کی حامل ہے کہ او آئی سی اور عالمی ادارے مل کر اس بربریت کے خلاف کھل کر آواز اٹھائیں تاکہ ظلم کے خلاف عالمی ضمیر بھی بیدار ہو جائے کیونکہ روہینگیا مسلمانوں کے خلاف اتنا ظلم!ناقابلِ برداشت ہے۔

Shabbir Ahmed

Shabbir Ahmed

تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
03333001671
shabbirahmedkarachi@gmail.com