تحریر: علی عبداللہ روہنگیا مسلمانوں کو اکثر مظلوم اقلیت تصور کیا جاتا ہے ۔ یہ لوگ بدھ اکثریت علاقے میانمار میں آباد ہیں ۔ یہاں مسلمانوں کی آبادی 1.1 ملین ہے اور یہ لوگ روہنگیا یا روینگا زبان بولتے ہیں ۔ رخائن میانمار کی غریب ترین ریاست ہے جہاں یہ روہنگیا مسلمان آباد ہیں ۔ یہاں کے لوگ حکومتی اجازت کے بغیر یہ علاقہ نہیں چھوڑ سکتے اور یہاں بنیادی سہولیات کی کمی کی بنا پر لوگ خیموں میں رہنے پر مجبور ہیں ۔ موجودہ فسادات کی وجہ سے کئی ہزار لوگ یہاں سے نزدیکی ہمسائے ممالک کی جانب ہجرت کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں ۔
بیشتر تاریخ دانوں اور اراکان روہنگیا نیشنل آرگنائزیشن کے مطابق اس بات کا اندازہ لگانا مشکل ہے کہ مسلمان میانمار میں کب سے آباد ہیں ۔ سو سالہ برطانوی راج کے دوران میانمار میں بہت سے مزدور طبقہ لوگوں نے ہندوستان اور بنگلہ دیش سے نقل مکانی کر کے یہاں رہائش رکھی کیونکہ برطانوی دور حکومت میں میانمار ہندوستان کا ایک صوبہ تصور کیا جاتا تھا ۔ اس نقل مکانی کو یہاں کے مقامی لوگ پسند نہیں کرتے تھے اور انہیں برا جانتے تھے ۔ آزادی کے بعد میانمار حکومت نے ان تمام لوگوں کو اپنا شہری ماننے سے انکار کر دیا جو برطانوی دور میں یہاں آکر آباد ہوئے تھے ۔ ان میں اکثریت روہنگیا مسلمانوں کی تھی ۔ اس وجہ سے بدھ اکثریتی اس علاقے میں بدھوں نے ان کو بنگالی کہہ کر رد کرنا شروع کر دیا ۔
1948 میں برطانیہ سے آزاد ہونے کے کچھ عرصے بعد ہی میانمار میں یونین سیٹیزن ایکٹ پاس کیا گیا جس میں ان تمام قوموں کا ذکر کیا گیا جنہیں میانمار کی شہریت کا حق تھا جن میں یہ مسلمان شامل نہیں کیے گئے تھے ۔ لیکن اس ایکٹ کے تحت ان لوگوں کو بھی شہریت لینے کا حق دیا گیا جن کے خاندان دو نسلوں سے یہاں آباد تھے ۔ لہٰذا بہت سے مسلمانوں کو اس ایکٹ کے تحت عارضی شہریت دے دی گئے اور اس دور میں روہنگیا مسلمانوں نے پارلیمنٹ میں بھی اپنی خدمات پیش کیں ۔ 1962 کے فوجی اقتدار کے بعد میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے لئے تمام حالات ڈرامائی انداز میں بدلتے چلے گئے ۔ تمام شہریوں کے لیے نیشنل رجسٹریشن کارڈ کا حصول لازم کر دیا گیا لیکن روہنگیا مسلمانوں کو غیر ملکی تصور کر کے انہیں غیرملکی شناختی کارڈ جاری ہوئے ۔ جس کی وجہ سے ان کے لئے ملازمتوں، تعلیم اور دیگر سہولیات کے دروازے بند ہوتے چلے گئے ۔ 1982 میں پھر ایک نیا قانون پاس ہوا جس کے مطابق روہنگیا مسلمان میانمار میں موجود کسی بھی قومیت سے تعلق نہیں رکھتے ۔
اس کے ساتھ ساتھ شہریت کے حصول کے لیے تین مراحل متعارف کروائے گئے جن کی کم از کم شرط یہ تھی کہ شہریت لینے والے کے پاس اس بات کا ثبوت ہو کہ وہ یا اسکا خاندان میانمار میں 1948 سے پہلے کا قیام پذیر ہے اور قومی زبانوں میں سے کسی ایک زبان پر مکمل عبور بھی رکھتا ہے ۔ اسطرح اکثر روہنگیا مسلمان ان شرائط پر یا تو پورا نہ اتر پائے یا پھر انہیں جان بوجھ کر مسترد کر دیا گیا ۔ نتیجتاً مسلمانوں کے لیے تعلیم، روزگار، مذہبی رسومات اور دیگر بنیادی سہولیات پر پابندی عائد کر دی گئی جو اب تک جاری ہے ۔ یہ لوگ نہ تو ووٹ دے سکتے ہیں، نہ میڈیکل یا قانون کے شعبوں میں جا سکتے ہیں اور نہ ہی اپنا کوئی کاروبار شروع کر سکتے ہیں ۔
1970 سے رخائن میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کئی آپریشن ہو چکے ہیں ۔ کئی ہزار مسلمان زبردستی بنگلہ دیش، ملائشیا، تھائی لینڈ اور دیگر جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی جانب ہجرت کرنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں ۔ ان کریک ڈاؤنز کے نتیجے میں انسانی حقوق کی پامالی، جنسی تشدد، اور قتل کے واقعات معمول بن چکے ہیں ۔ اکتوبر 2016 میں نو سرحدی پولیس اہلکاروں کے قتل کے بعد فوجی دستوں نے رخائن کے علاقے میں گھس کر مظالم کا سلسلہ شروع کر دیا اور حکومت کے مطابق اس قتل میں مسلمانوں کا عسکری گروپ ملوث ہے جو رخائن میں موجود ہے ۔ اس بنیاد پر فوجی کاروائیاں شروع ہوئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور جنگی جرائم کا ارتکاب شروع ہو گیا ۔ سرکاری سطح پر اب بھی ان سب اقدامات کی نفی کی جا رہی ہے ۔
1970 سے اب تک تقریباً ایک ملین روہنگیا مسلمان مظالم کی وجہ سے نقل مکانی کر چکے ہیں ۔ تازہ ترین یو این رپورٹ کے مطابق 2012 سے اب تک ایک لاکھ اڑسٹھ ہزار سے زائد مسلمان نقل مکانی کر کے ہمسائے ممالک جا چکے ہیں ۔ اسی طرح 2016 کے فوجی آپریشن کے نتیجے میں تقریباً 87000 مسلمان بنگلہ دیش کی جانب ہجرت پذیر ہوئے ۔ اور 2012 سے 2015 کے درمیان تقریباً ایک لاکھ بارہ ہزار لوگوں نے سمندر کے راستے ملائشیا جانے کا خطرناک سفر اختیار کیا۔
آنگ سان سوکی جو کہ نوبل انعام یافتہ میانمار کی حکمران ہیں وہ روہنگیا مسلمانوں کو دہشت قرار دیتی ہیں اور رخائن فسادات کا اصل ذمہ دار انہی کو قرار دیتی ہیں ۔ نوبل انعام لینے والی یہ حکمران خاتون ملٹری طاقت کو ختم کروانے میں ناکامی اور ایک ملین مسلمانوں کے حقوق کو نظرانداز کرنے پر بین الاقوامی سطح پر تنقید کا شکار ہیں۔
ستمبر 2016 میں کوفی عنان کے ساتھ ملاقات میں آنگ سان نے میانمار کے مسئلے کو حل کروانے کی یقین دہانی کروائی اور اس سلسلے میں ایک کمیشن کا قیام بھی عمل میں لایا گیا لیکن اس کمیشن کو کبھی حقائق تک پہنچنے ہی نہیں دیا گیا ۔ حکومت نے صحافیوں اور دیگر امدادی کارکنوں کی رخائن تک رسائی بند کر دی ۔ یو این رپورٹرز اور مختلف انویسٹیگیشن ٹیموں کو روہنگیا مسلم علاقے تک رسائی سے روکنے کے لیے انہیں میانمار کے ویزے ہی نہیں جاری گئے ۔ یو این، ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ سمیت کئی عالمی اداروں کا کہنا ہے کہ میانمار میں مسلمانوں کے خلاف جنگی جرائم کا ارتکاب کیا جا رہا ہے جبکہ حکومت خود خاموش ہے اور ساتھ ہی بین الاقوامی اداروں کو بھی وہاں تک رسائی دینے سے ٹال مٹول کر رہی ہے ۔ ایسے میں مسلسل ظلم کا شکار روہنگیا مسلمان ہیں جو بنا کیسی امداد کے زندگی کے دن گذارنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
مسلم دنیا اپنے حالات کا رونا رو کر روہنگیا مسلمانوں سے آنکھیں چرا رہی ہے اور اب یہاں کوئی معتصم، کوئی حجاج حتی کہ کوئی طارق بھی نہیں موجود جو کسی غیر مذہب عورت پر زیادتی کی وجہ سے سپین پر آن چڑھا تھا ۔ گو کہ کچھ مسلم ممالک روہنگیا مسلمانوں کو پناہ تو دے رہے ہیں لیکن اتنا کافی نہیں ہے ۔ مسلم امہ کو باقاعدہ کوشش کرنا ہو گی تاکہ یہ مظلوم مسلمان اپنے ملک میں با آسانی ررہ سکیں ۔ ورنہ بلکتے بچوں، چیختی عورتوں، اور قتل ہوتے مردوں کی آہیں مسلم حکمرانوں کو چین نہیں لینے دیں گی۔