روہنگیائی مسلمانوں کی نسل کشی کی منظم منصوبہ کو بالاآخر اقوام متحدہ نے تسلیم کرلیا اور گذشتہ دنوں باقاعدہ رپورٹ بھی جاری کردی ہے۔اقوام متحدہ کی جانب سے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ہونے والی کارروائی پر کی جانے والی تحقیقاتی رپورٹ جاری کر دی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ میانمارملک کے اعلی ترین فوجی افسران سے ‘روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی’ اور ‘انسانیت کے خلاف جرائم’ کے حوالے سے تفتیش کی جانی چاہیے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں100افراد کے تفصیلی انٹرویو بھی ہیں جو اقوام متحدہ نے روہنگیا ئی مسلمانوں کی نسل کشی کے حوالے سے کئے تھے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے میانمار حکام کے خلاف اب تک کی جانے والی یہ پہلی کڑی ترین تنقید قرار دی جا رہی ہے۔
رپورٹ میں میانمار کی فوج کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان کی جنگی حکمت عملی ‘مستقل طور پر سیکورٹی خدشات سے غیر متناسب حد تک بڑھ کر جارحانہ تھی۔’ اس رپورٹ میں فوج کے سربراہ من آنگ لیئنگ سمیت 5 افسران کے نام دیے گئے ہیں جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان پر مقدمہ چلنا چاہیے۔اس رپورٹ میں امن کا نوبل انعام جیتنے والی میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی پر بھی سخت تنقید کی گئی تھی اور کہا گیا کہ وہ روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو روکنے میں ناکام رہیں۔اس رپورٹ میں تجویز دی گئی کہ یہ معاملہ انٹرنیشنل کرمنل کورٹ میں بھیجا جائے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان کی تفتیش کے مطابق جو جرائم مرتکب ہوئے ہیں، وہ ‘اس لیے اتنے حیران کن ہیں کہ ان کی بڑے پیمانے پر نفی کی جاتی رہی ہے، ان جرائم کو معمول کی کارروائی سمجھا گیا ہے اور بلادریغ کیا گیا ہے۔”فوجی کارروائیاں، چاہے وہ کتنی ہی ضروری کیوں نہ ہوں، ایسا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے کہ اندھا دھند لوگوں کو قتل کیا جائے، خواتین کا گینگ ریپ کیا جائے، بچوں پر حملہ کیا جائے یا گاؤں جلائے جائے۔’
روہنگیا مسلم نسل کشی پر عرصے دراز سے دنیا بھر میں آوازیں اٹھائی جا تی رہی ہیں۔ مظاہرے ، احتجاج ذریعے اقوام متحدہ کی توجہ میانمار میں روہنگیائی مسلمانوں کے خلاف نسل کشی پر کرائی گئی لیکن لاکھوں روہنگیائی باشندوں کہ ہجرت اور انہیں درپیش مسائل پر عالمی برداری کی جانب سے ایک چھوٹے ملک کی بربریت کو نظر انداز کرکے رسمی بیانات کو ہی کافی سمجھا جاتا رہا ۔ اقوام متحدہ کو پہلے میانمار کے متاثرہ علاقوں میں جانے کی اجازت بھی نہیں دی جا رہی تھی تاہم جب اقوام متحدہ و انٹرنیشنل صحافیوں پر مشتمل گروپ نے میانمار کا دورہ کیا تو جو ہوشربا تفصیلات دنیا کے سامنے آئی جس نے انسانیت کو شرما دیا ۔ حالاں کہ اقوام متحدہ روہنگیائی مسلمانوں کو دنیا کی مظلوم ترین اقلیت قرار دی چکی ہے لیکن ظالم ، جابر اور سفاک میانمار حکومت کے خلاف سخت عملی اقدامات بالکل نہیں کئے گئے ۔ گزشتہ برس میانمار حکومت کے سفاک آپریشن کی وجہ سے تقریباََ7 لاکھ مسلمان ہجرت پر مجبور ہوئے لیکن تکلیف دہ ہجرت بھی عالمی برداری کے ضمیر کو جھنجوڑنے میں ناکام رہی۔
دنیا بھر میں مسلمانوں کی جانب سے احتجاجی مظاہروں اور سخت ردعمل کے بعد اقوام متحدہ نے ‘ انٹرنیشنل فیکٹ فائنڈنگ مشن ‘ برائے میانمار2017میں قائم کیا تھا ۔ جس کے مقاصد میں روہنگیائی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی تفتیش کی جاسکے۔” رپورٹ میں کچن، شان اور رخائن میں ہونے والے جرائم کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہاں قتل و غارت، قید، اذیت، ریپ، جنسی قیدی اور دیگر ایسے جرائم شامل ہیں جو کہ ‘بلاشبہ بین الاقوامی قوانین کے تحت گھناؤنے ترین جرائم میں تصور کیے جاتے ہیں۔’اقوام متحدہ کے مشن کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ تفصیلی رپورٹ اگلے ماہ کی 18 تاریخ کو شائع کریں گے۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ تفتیش سے یہ معلوم ہوا ہے کہ ‘ریاست رخائن میں لوگوں کو ان کے گھروں سے نکالے جانے کا سلسلہ اسی طرز کا ہے جیسا اور مقامات پر نسل کشی کرنے کے حوالے سے ہوتا ہے۔’اقوام متحدہ نے واضح کیا کہ رپورٹ کی تیاری میں انھیں متاثرہ علاقوں جانے کی اجازت نہیں تھی لیکن انھوں نے عینی شاہدین سے انٹرویو کیے جبکہ سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر سے بھی مدد لی۔واضح رہے کہ ماضی میں اقوام متحدہ نے میانمار کی فوجی کارروائیوں کے بارے میں کہا تھا کہ وہ ‘ان کی کارروائیاں نسل کشی کی بالکل کتابی تشریح کی مانند ہیں۔’
واضح رہے کہ یہاں صرف اقوام متحدہ نے ہی میانمار میں روہنگیائی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر تفتیش نہیں کی بلکہ امریکا کی وزرات خارجہ نے بھی اس حوالے سے جداگانہ تفتیش کی۔ امریکی سفیر نکی ہیلی کے مطابق کہ امریکی محکمہ خارجہ نے بھی اپنی رپورٹ کے لیے ایک ہزار سے زائد روہنگیائی مسلمانوں کے انٹرویو کیے جن سے گزشتہ سال کے واقعات کی ہولناک تصویر سامنے آئی ہے۔امریکا ، اقوام متحدہ کی رپورٹ کی تصدیق کررہا ہے کہ روہنگیائی مسلم کشی کی ذمے داری میانمار حکومت ، ان کی فوج کا سربراہ اور پانچ دیگر فوجی افسران ہیں ۔ امریکا نے یہ بیان دفتر خارجہ سے نہیں بلکہ اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل کے اجلاس میں دیا۔ اقوام متحدہ کی اُس سلامتی کونسل کے سامنے جہاں عالمی قوتیں اپنے مفادات کے خاطر لاکھوں انسانوں کو امن کے نام پر قتل کرادیتی ہیں۔
امن کے قیام کے نام پر مسلم ممالک پر قابض و جارحیت کرتی ہیں ۔ مسلم ممالک کے مظلوم نہتے عوام پر ہولناک بمباریاں کرکے مسلم دنیا کو خانہ جنگی میں مصروف رکھنے کے لئے اپنے اپنے مفادات کے خاطر کھربوں ڈالر خرچ کرنے میں ایک لمحے کی تاخیر نہیں کرتی ۔ اقوام متحدہ کا مشن باقاعدہ تصدیق کررہا ہے کہ میانمار میں منصوبہ بندی کے تحت مسلم نسل کشی کی گئی۔ امریکا بھی اقرار کررہا ہے کہ وزرات خارجہ نے بھی تصدیق کی ہے کہ اقوام متحدہ مشن کی رپورٹ درست ہے۔ تو پھر اس کے بعد کیا جواز رہ جاتا ہے کہ روہنگیائی مسلم کشی کے خلاف میانمار حکومت کے خلاف اقوام متحدہ سلامتی کونسل سخت اقدامات کرے اور وہی اصول روا رکھے جو عالمی قوتیں اپنے مفادات کے لئے دیگر جنگ زدہ ممالک میں اپنائی ہوئی ہیں۔ یہ کوئی کسی ملک کا داخلی معاملہ نہیں ہے کہ سرسری بیان دے کر صرفِ نظر کردیا جائے۔اقوامِ متحدہ کے تین رکنی آزاد بین الاقوامی کمیشن نے میانمار میں اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کے بارے میں منگل کو جنیوا میں اپنی رپورٹ جاری کی تھی جس میں رخائن اور دو دیگر ریاستوں میں نسلی اقلیتوں کے خلاف مظالم کا ذمہ دار میانمار کی فوجی قیادت کو ٹہرایا گیاتھا۔عالمی کمیشن نے کہا ہے کہ رخائن میں گزشتہ سال پیش آنے والے واقعات باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کی جانے والی نسل کشی تھی جس پر میانمار کی فوج کے چھ اعلیٰ جرنیلوں کے خلاف عالمی عدالت میں مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔
عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق نکی ہیلی نے کونسل کو بتایا کہ جن افراد کے انٹرویوز کیے گئے ان میں سے 82 فی صد نے اپنی آنکھوں سے کسی کو قتل ہوتے دیکھا، نصف سے زائد افراد کے سامنے خواتین کی آبرو ریزی کی گئی جب کہ لگ بھگ 250 افراد نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے 100 سے زائد افراد کو ایک ساتھ قتل یا زخمی ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔نکی ہیلی کا کہنا تھا کہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی رپورٹ کے مطابق ان میں سے بیشتر مظالم میں برما کی فوج اور دیگر سکیورٹی ادارے براہِ راست ملوث تھے۔ امریکی سفیر کا کہنا تھا کہ دنیا اب مزید اس مشکل سچ سے آنکھیں نہیں چرا سکتی کہ رخائن میں کیا ہوا تھا۔نکی ہیلی کے بیان سے امریکی محکمہ خارجہ کی روہنگیا بحران سے متعلق رپورٹ کے مندرجات پہلی بار منظرِ عام پر آئے ہیں۔اطلاعات کے مطابق محکمہ خارجہ کے ماہرین نے یہ رپورٹ رواں سال اپریل کے اختتام پر مکمل کی تھی جس کے لیے بنگلہ دیش کے کیمپوں میں مقیم 1024 روہنگیا مہاجرین کے انٹرویوز کیے گئے۔ عالمی ابلاغ کے مطابق تاحال یہ واضح نہیں کہ امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو آیا یہ رپورٹ ذرائع ابلاغ کو جاری کریں گے یا نہیں۔ قبل ازیں اس رپورٹ کو اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے اجرا سے ایک روز قبل، پیر کو جاری کیا جانا تھا لیکن امریکی محکمہ خارجہ نے رپورٹ پر مزید غور کے لیے اس کا اجرا روک دیا تھا۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ میانمار میں مسلم نسل کشی کو کئی برسوں سے مختلف ذرائع و ابلاغ نمایاں شائع کرتے رہے ہیں لیکن عالمی قوتوں و مسلم اکثریتی ممالک نے میانمارمیں روہنگیائی مسلم نسل کشی پر مجرمانہ خاموشی برقرار رکھی ۔ جنوری 2018 میں میانمار کی فوج نے پہلی بار تسلیم کیا تھا کہ ریاست رخائن میں حالیہ کشیدگی کے دوران اس کے فوجی روہنگیا مسلمانوں کے قتل میں ملوث تھے۔میانمار کی فوج کے مطابق تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ فوج کے چار اہلکاروں نے انڈن گاؤں میں دس لوگوں کو ہلاک کیا۔ لیکن جب عالمی اداروں کی جانب سے ہولناک مظالم کی رپورٹس تواتر سے آنے لگیں تو میانمار حکومت اپنے بیان سے مکر گئی اور فوج کے مسلم روہنگیائی نسل کشی کے الزام کو رد کردیا ۔ میانمار حکومت نے ہلاکتوں ، بچوں کے ساتھ زیادتیوں اور خواتین کی عصمت دری کے واقعات سے بھی انکار کردیا ۔ حالاں کہ عالمی طبی امدادی ادارے ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے گذشتہ برس ایک ہولناک رپورٹ جاری کی تھی کہ میانمار میں اگست(2017 )کے مہینے شروع ہونے والے پرتشدد واقعات میں ایک مہینے کے دوران کم از کم 6700 روہنگیا افراد کو قتل کیا گیا۔ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کا کہنا ہے کہ یہ ‘وسیع پیمانے پر پھیلنے والے تشدد کی واضح ترین نشانی ہے۔
طبی تنظیم کے سروے کے مطابق 25 اگست 2017سے 24 ستمبر 2017 کے درمیان 9 ہزار روہنگیا میانمار میں مارے گئے۔ڈاکٹرز ود آؤٹ باڈرز کے مطابق محتاط ترین اندازوں کے مطابق کم از کم 6700 ہلاکتیں پرتشدد واقعات میں ہوئیں جن میں کم از کم پانچ سال سے کم عمر کے 730 بچے شامل ہیں۔ڈاکٹرز ود آوٹ باڈرز کے میڈیکل ڈائریکٹر سڈنی وونگ کا کہنا ہے کہ ‘جو کچھ ہم سامنے لے کر آئے وہ حیران کن ہے، تعداد کے حوالے سے وہ لوگ جن کے خاندان کا کوئی فرد پرتشدد واقعات میں قتل ہوا، اور جس انداز میں انھیں قتل یا زخمی کیا گیا۔’ڈاکٹرز ود آؤٹ باڈرز کے مطابق69 فیصد پرتشدد واقعات میں گولی لگنے سے ہلاک ہوئے تھے۔نو فیصد کی موت گھروں کا جلانے سے ہوئی۔پانچ فیصد کو مار مار سے ہلاک کیا گیا۔ڈاکٹرز ود آؤٹ باڈرز کے مطابق ہلاک ہونے والے پانچ سال سے کم عمر بچوں میں 59 کو مبینہ طور پر گولی ماری گئی، 15 فیصد کو جلایا گیا، سات فیصد کو مار مار کے ہلاک کیا اور دو فیصد بارودی سرنگ سے ہلاک ہوئے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے اب میانمار حکومت کی جانب سے مسلم روہنگیائی نسل کشی کے ناقابل تردید شواہد سامنے آچکے ہیں تو اقوام متحدہ خواب غفلت سے جاگنے کی کوشش کررہی ہے۔اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے کہا کہ عالمی ادارے کے ماہرین کی رپورٹ سنجیدہ غور کی متقاضی ہے اور میانمار کے مختلف نسلی گروہوں کے درمیان حقیقی مفاہمت کے لیے ضروری ہے کہ مظالم کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔سات لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمانوں کو بنگلہ دیش ہجرت کرنا پڑی تھی جہاں وہ تاحال عارضی کیمپوں میں مقیم ہیں اور وہاں روہنگیائی مسلمانوں کو شدید تکالیف کا سامنا ہے۔ کم سن لڑکیوں او ر خواتین کو روزگار دلانے کے بہانے بنگلہ دیشی قبحہ گر جسم فروشی کرانے پر مجبور کرتے ہیں۔ انہیں وہاں فروخت کرکے قبحہ خانوں میںہوس کے درندوں کے آگے پھینک دیا جاتا ہے جہاں روہنگیائی مسلم خواتین اپنی زندگی بچانے کے لئے ظلم کے آگے مجبور ہوجاتی ہیں ۔ جو خواتین انکار کرتی ہیں انہیں قتل کردیا جاتا ہے۔ بنگلہ دیشی حکومت کی جانب سے روہنگیائی مسلمانوں کو کام کرنے اور کیمپوں سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے ۔ روہنگیائی مسلم مہاجرین کی خیمہ بستیوں میں ایک نیا انسانی المیہ جنم لے رہا ہے ۔ عالمی ادارے مہاجرین کی بنیادی سہولیات و مناسب غذا و علاج پہنچانے میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہے۔ عالمی قوتیں جنگوں کے نام پر کھربوں ڈالرز تو بارود میں اڑا دیتے ہیں لیکن لاکھوں مہاجرین کی حالت زار اور انہیں صحت و خوارک کی مناسب سہولت پہنچانے کے لئے ان کے خزانے خالی ہوتے ہیں۔
مسلم روہنگیائی نسل کشی میں سوشل میڈیا نے بڑا مکروہ کردار ادا کیا۔ اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کے بعد فیس بک انتظامیہ نے میانمار کے فوجی افسران کے کئی اکائونٹس بند کردیئے ہیں۔ سوشل میڈیا میں روہنگیائی مسلمانوں کے خلاف جس قدر نفرت انگیز کردار ادا کیا اس حوالے سے اقوام متحدہ کے ایک اہلکار نے فیس بک کو ایک ‘ خونخوار جانور ‘ قرار دیا تھا۔ پہلی مرتبہ فیس بک انتظامیہ کی جانب سے میانمار کے کئی اعلیٰ فوجی اہلکاروں کے، جن میں فوج کے سپاہ سالار بھی شامل ہیں، عالمی ابلاغ کے مطابق یہ پہلی مرتبہ ہے کہ فیس بک نے کسی فوجی یا سیاسی رہنما پر پابندی لگائی ہے۔ فیس بک نے میانمار سے وابستہ 18 اکاؤنٹ اور 52 فیس بک صفحات بند کیے ہیں۔ انسٹاگرام پر بھی، جسے اب فیس بک نے خرید لیا ہے، ایک اکاؤنٹ بند کر دیا گیا ہے۔ان سب کے کل ملا کر تقریباً ایک کروڑ بیس لاکھ فالوورز ہیں۔میانمار میں فیس بک سوشل میڈیا کا سب سے بڑا پلیٹ فارم ہے اور ایک کروڑ آٹھ لاکھ سے زیادہ لوگ اسے استعمال کرتے ہیں۔اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق میانمار میں زیادہ تر افراد کے لیے’فیس بک انٹرنیٹ ہے’لیکن’یہ ان افراد کے لیے ایک مفید آلہ بن گیا ہے جو نفرت پھیلانا چاہتے ہیں۔’ابھی تک روہنگیا افراد کے خلاف میانمار کے فوجی آپریشن کے حوالے سے یہ اقوامِ متحدہ کے سب سے سخت مذمتی الفاظ ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کئی برسوں سے روہنگیا کے خلاف حکومتی اور فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں’پیدائش سے لے کر موت تک جبر کو ایک شدید اور منظم نظام کا حصہ بنایا گیا۔’ریاستی اخبار ان کے متعلق لکھتے ہوئے انھیں’پسو’یعنی خون چوسنے والے کیڑے کہتے رہے ہیں۔بودھ قوم پرستوں نے بھی اس خیال کو تقویت دی ۔گذشتہ برس شائع ہونے والی خبر رساں ادارے روئٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق فیس بک پر ایسی 1000 پوسٹس، تبصرے اور تصاویر تھیں جن میں روہنگیا اور مسلمانوں پر حملے کیے گئے تھے۔تبصروں میں روہنگیا کو کتے، کیڑے اور ریپسٹ کہا گیا تھا۔کئی ایک میں کھلے عام مذہب اسلام کی مذمت کی گئی تھی اور ایک فیس بک صفحے میں تو’سب مسلمانوں کی نسل کشی’کا کہا گیا تھا۔میانمار کے فوجی سربراہ من آنگ لیئنگ کے دو فیس بک اکاؤنٹ ہیں۔خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایک اکاؤنٹ کے 13 لاکھ جبکہ دوسرے کے 28 لاکھ فالوورز ہیں۔فیس بک انتظامیہ نے اعتراف کیا ہے کہ ‘اس صفحے اور اس جیسے دیگر صفحات نے جن پر پابندی ہے نسلی اور مذہبی تناؤ کو آگ دکھائی ہے۔ 2014 میں بھی ماہرین نے اس بات کی طرف نشاندہی کروائی تھی کہ فیس بک میانمار میں منافرت پھیلا رہی ہے۔
مارچ میں اقوامِ متحدہ کے ایک اہلکار نے کہ فیس بک ملک میں ایک خونخوار جانور بن گئی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نفرت انگیز مواد سے نمٹنے میں فیس بک آہستہ اور بے اثر رہی ہے۔منگل کو فیس بک نے اس بات کو تسلیم کیا کہ اس کا ردِ عمل بہت سست رہا ہے لیکن وہ اب نفرت انگیز مواد کی شناخت کرنے والی بہتر ٹیکنالوجی، رپورٹنگ کے بہتر آلات، اور مواد کا جائزہ لینے کے لیے زیادہ افراد کے حصول کے بعد بہتر کام کر رہی ہے۔
عالمی ابلاغ ، اقوام متحدہ اور امریکا وزرات خارجہ کی رپورٹس کے بعد سوشل میڈیا کی جانب سے بھی سخت مذمتی بیانات اور رپورٹس کے بعد بھی عالمی قوتوں کی جانب سے میانمار حکومت کے خلاف کوئی کاروائی نہ کرنا ظاہر کررہا ہے کہ یہ کوئی ایک ملک کا ایجنڈا نہیں ہے بلکہ عالمی قوتیں جس طرح دنیا بھر مسلم کشی کے لئے مسلم امہ کے درمیان فرقہ وارنہ و مسلکی اختلافات کا فائدہ اٹھا رہی ہیں ۔ وہ روہنگیائی مسلمانوں کی نسل کشی کے لئے بھی ان کی غیر سنجیدہ ، سست اور بے اثر کاروائیاں اور رسمی بیانات ظاہر کررہے ہیں کہ مسلم نسل کشی دراصل ایک عالمی قوتوں کا متفقہ ایجنڈا ہے جو مختلف شکل میں افغانستان ، عراق ، شام ، ایران ، یمن، صومالیہ، سعودیہ ، لبنان، قطر، ترکی ، مصر۔ مقبوضہ کشمیر سمیت پاکستان میں پراکسی وار ، خانہ جنگی یا جارحیت کی صورت میں مسلط کیا گیا ہے۔
بد قسمتی سے مسلم اکثریتی ممالک کی اسلامی تعاون تنظیم بھی اس حوالے سے مکمل طور پر غیر موثر ہے۔ د نیا بھر میں مسلم امہ کے خلاف جو مظالم مغربی ممالک سمیت دیگر عالمی قوتوں کی سرزمینوں میں ہوتے ہیں ۔اور مسلمانوں کو ” اسلام فوبیا” کا شکار ہوکر انتہا پسند کا نشانہ بناتے ہیں ۔ یہ شدت پسند صرف بھارت ، میانمار میں ہی نہیں بلکہ ترقی یافتہ اور مغربی ممالک میں بھی مسلمانوں کے شعائر کے خلاف اپنا مکروہ کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ بھی گستاخ خاکوں کے نام پر تو کبھی توہین آمیز مواد کے نام پر ناپاک جسارت کرتے ہیں ۔ مسلم اکثریتی ممالک کے درمیان اتفاق و یکجہتی نہ ہونے کا فائدہ جہاں عالمی قوتیں اٹھا رہی ہیں وہاں میانمار جیسے چھوٹے ملک بھی کھلے عام مسلم نسل کشی پر اقوام متحدہ سمیت پوری دنیا کے مسلمانوں کو چیلنج کررہے ہیں ۔میانمار کے روہنگیائی مسلمانوں کے حالت زار پر عالمی برداری کو سخت ایکشن لینے کی ضرورت ہے ، انہیں اپنے ملک میں محفوظ و باعزت واپسی کے لئے میانمار حکومت کے خلاف غیر جانبادارنہ کردار ادا کرنا چاہیے۔ او آئی سی خواب غفلت سے بیدار ہوجائیں کب تک امت مسلمہ پر ہونے والے مظالم پر خاموش رہیں گے۔