آج میں اپنے مضمون کا آغاز شاعرِ مشرق علامہ اقبال کے ایک شعر سے کرتا ہوں۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے،،،نیل کے ساحل سے لے کرتابخاک کا شغر۔
آج علامّہ اقبال کو دنیا سے رخصت ہوئے ستر سال سے زیادہ عرصہ بیت گیا ہے لیکن ان کی یہ خواہش کہ ‘ایک ہوں مسلم’ پوری نہیں ہوسکی ہے اور جب ‘ایک ہوں مسلم’ کی تمنّا ہی پوری نہیں ہوئی ہے تو ‘حرم کی پاسبانی’ کے لئے ‘نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کا شغر’ مسلمانوں کے دل دھڑکتے بھی ہوں گے؟کیا ان کے دل پیہم جبر کی شکار امت کے ایک حصے برما (میانمار)کیلئے تڑپتے بھی ہوں گے، اللہ ہی جانے، پر لگتا نہیں ہے۔ اگر اُمت کا دل دھڑکتا اور تڑپتا ہوتا تو آج برما میں بدھمت درندوں کے ہاتھوں نہتے روہنگیائی مسلمانوں کے سینوں پر بہتے لہو کی سرخی دیکھ کر، اور وہاں کی روہنگیائی بہنوں کی پکار پر واقعی نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کا شغر ایسی آواز اٹھتی تو اقوام کفر کی اور بدھوں قوم کا اس کی شدت اور بازگشت ہی سے دم نکل جاتا۔ مگر چونکہ ایسا نہیں ہے اس لئے روزانہ ہی بدھمت فوجیں، بدھوں دہشتگرد اور برما کا سیکوریٹی عملہ بے گناہ برمی مسلمانوں کو اپنے ناپاک پیروں تلے روند رہے ہیں ، ان پر ظلم کی وہ داستان قائم کر رہے ہیں جس نے تاریخ کہ سب سے بڑے ظالم ہلاکو خان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا اور اس پر دنیا کی زخم پر نمک پاشی کہ روہنگیائی مسلمان دہشت گرد ہیں۔
یوں تو برما کے روہنگیائی مسلمانوں پر بدھمت دہشت گردوں کا ظلم کوئی نیا نہیں یہ نصب صدی پرانا ہے مگر گزشتہ چند سالوں میں یہ انتہاء کو پہنچا ہے۔ میانمار میں مسلمانوں پر ایسے ایسے مظالم ڈائے گئے کہ جو انسانیت کو شرمادیں ، مگر افسوس ان مظالم کے بعد دنیا کفر تو الگ کچھ مسلمان ملک اور کچھ مسلمان دانشور حضرات بھی ان ہی روہنگیائی مسلمانوں کو ہی دہشت گرد قرار دے رہی ہے، سب سے اہم میانمار کا پڑوسی ملک بنگلہ دیش جو ایک مسلمان ملک ہے جو ستانوئے فیصد مسلمانوں کی آبادی والا ملک ہے ۔ لیکن وہ بھی ان بے اسرا اور لاچار روہنگیائی مسلمانوں کو پناہ دینے سے کترا رہا ہے ۔ ایک اور پڑوسی ملک ہندوستان جو کہ ایک غیر مسلم ملک ہے اور وہاں کی حکومت بھی انتہا پسند ہندوں کے ہاتھ میں ہیں وہ بھی ان لوگوں اپنے ملک میں داخلے سے روکنے کے لئے ان کو دہشت گرد اور انتہا پسند قرار دے رہے ہیں ۔
کچھ عرصہ قبل امریکہ کے شگاکو میں عالمی مذاہب کانفرنس میں ہندوستان سے تعلق رکھنے والے سوامی وویکانند نے کہا تھا ”مجھے فخر ہے کہ میں اس ملک سے ہوں جس نے سبھی مذاہب اور سبھی ملکوں کے ستائے ہوئے لوگوں کو اپنے یہاں پناہ دی ہے، مجھے فخر ہے کہ میں ایسے مذہب کا ماننے والا ہوں جس نے پارسی مذہب کے لوگوں کوپناہ دی اور لگاتار اب بھی ان کی مدد کررہے ہیں”۔ مگر جھوٹ یہ سب جھوٹ کیوں کہ ہندوستان نے اپنے باڈر سیل کئے ہوئے ہے ان کی حکمران جماعت کے سرکردہ لوگ مسلسل اپنے بیان بازیوں سے روہنگیائی مسلمانوں کے زخم پر نمک پاشی کر رہے ہیں ۔
ہندوستان میں اپنے ملک برما سے ہجرت کر کے ہزاروں کی تعداد میں روہنگیائی مسلمان موجود ہے لیکن ان پر بھی میانمار کی طرح ہندوستان کی زمین تنگ کر دی گئی ہے اور مودی حکومت ان کو ہندوستان سے باہر کر نے کے لئے ان پر دہشت گردی کا الزام لگا رہی ہے ، روہنگیا مسلمان پناہ گزینوں کوہندوستان سے باہر نکالے جانے کے مودی حکومت کے اس ا قدام کے خلاف ہندوستان کی سپریم کورٹ کادروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ روہنگیائی کمیونٹی نے عدالت میں ایک درخواست دائر کرکے کہا ہے کہ ان کا دہشت گردی اورکسی بھی دہشت گردانہ تنظیم کے ساتھ کوئی لینادینا نہیں ہے۔اپنی درخواست میں روہنگیا کمیونٹی نے یہ بھی کہا کہ وہ صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے نشانہ بنائے جا رہے ہیں۔لیکن اس کے باوجود ہندوستان کی متعصب حکومت ان مظلوم مسلمانوں کو کسی طرح ہندوستان سے باہر نکالنے کی ضد پر اڑی ہیں ۔
میانمار کی حکومت نے اس الزام کے تحت روہنگیائی مسلمانوں کے خلاف کاروئی شروع کر رکھی ہے کہ صوبہ اراکان کہ روہنگیا نجات آرمی کا تعلق دہشت گردی تنظیموں سے ہے۔ ان کے مطابق یہ لوگ ایک جہادی گروہ بن کر عطیات لیتے ہیں۔ کچھ القاعدہ اور اسلامی اسٹیٹ سے بھی منسلک ہیں، اس لئے ہم ان کے خلاف کاروائی کر رہے ہیں ۔ اس الزامات کتنی صداقت ہے یہ تو سب ہی جانتے ہے ، القاعدہ اور داعش جیسے تنظیموں کو امریکا اور دیگر سپر پائور ممالک قابو نہیں کر سکے تو میانمار کی حکومت نے کیسے قابوں کیا اس سے واضح ہوتا ہے کہ روہنگیائی مسلمانوں کا کسی بھی تنظیم سے تعلق نہیں ہے ۔ مشرقی تیمور بہت سے دوستوں کو معلوم ہوگا یہ انڈونیشیا کے پڑوس میں واقعہ ہے ، وہاں مسلمانوں اور عیسائیوںکے درمیان کسی بات پر اند بھند شروع ہوا، اور جو فسادات کی صورت اختیار کر گیا ، جس کے فوراََ بعد عالمی صیہونی طاقتوں نے شور مچانا شروع کردیا ، جو کہ اس وقت تیمور انڈونیشیا کے قبضے میں تھا اور انڈونیشیا والے تو اپنا موقف دیتے رہے کہ یہ ہمارے علاقے ہیں ہمارا اندرونی مسئلہ ہے عیسائی اقلیت کو اگر مسلم اکثریت سے کچھ مسائل ہیں تو ہم پہلے کی طرح مل بیٹھ کر اس کو حل کر لیں گے مگر کیا مجال جو اس نقارخانے میں کسی نے ان کی باتوں پر کان دھرا ہو۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ عرصہ کی جدوجہد کے بعد عالمی اداروں اور عالمی طاقتوں کے دبائو پر انڈونیشیا اور سوڈان کو مجبور کر دیا گیا کہ وہ مشرقی تیمور اور دارفر میں ریفرنڈم (رائے شماری) کرائیں کہ یہ علاقے جہاں عیسائیوں کی اکثریت ہے ان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا علیحدہ ہونا چاہتے ہیںا و ر ساتھ ہی ساتھ اقوام متحدہ کی امن فوج کو بھی تیمور روانہ کیا گیا ۔ لیکن آج وہ میانمار میں مسلمانوں کی قتل عام پر خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہے جیسے ان کو سانپ سونگ گیا ہو۔
یہ تو تھی غیروں کی باتیں اب کچھ شکوئے اپنوں سے بھی اس وقت دنیا میں کم و بیش ایک ارب پچیس کروڑ مسلمان آباد ہے ، مسلمانوں کی آٹھاون ملکوں پر حکومت بھی ہے ، مگر اس کے باوجود آج کے مسلمان برما کے مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے مظالم پر خاموش ہے ، صرف ایک ملک ترکی اور اس کے صدر طیب اردگان ہی میانمار کے روہنگیائی مسلمانوں کے حق میں بول رہاہے ، باقی ستاون مسلم ممالک صرف تماشائی بننے بیٹھے ہیں ۔
آج دنیا کہ بیشتر ممالک روہنگیائی مسلمانوں کو دنیا کے لئے خطرہ تصور کرہے ہیں،کیا یہ نہیں جانتے جو لوگ اپنی جان بچانے کے لیے اپنا ملک چھوڑ کرد وسرے ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوں کیا وہ دہشت گرد ہیں؟ جنہیں اپنے ہی ملک (میانمار) میں شہریت نہ دی گئی ہو، جن کے گائوں کے گائوں آگ کے حوالے کردئیے گئے ہوں جو بیڑ بکریوں کی طرح کاٹے جارہے ہو جو شیر خوار بچوں اور یہاں تک کہ حاملہ خواتین کے ساتھ ہزاروں کلو میٹر دور بھوکے پیاسے بھاگنے پر مجبور ہو،جو اس وقت روح زمین کی سب سے مظلوم قوم ہو، جوواقعی حالات کے مارے ہوئے ہو کیا ایسے افراد دنیا کی سیکوریٹی کے لیے خطرہ ہیں؟ نہیں ہر گز نہیں بس یہ ان پر ہونے والے مظالم پھر پردہ پوشی کی ناکام کوشش ہے ۔ بس اللہ ہی ان کے حال پر رحم کریں (آمین)