روہنگیا مسلمانوں پر دو بچوں کی پابندی امتیازی

Rohingya

Rohingya

ینگون (جیوڈیسک) میانمر کی جمہوریت نواز اپوزیشن لیڈر آنگ سان سوچی نے مسلم اکثریتی ریاست راکھین میں آباد مسلمانوں پر دو سے زیادہ بچے پیدا کرنے پر عاید پابندی کو امتیازی قرار دے دیا ہے اور اس اقدام کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

غیر ملکی خبر رسا ں ادارے کے مطابق روہنگیا مسلمانوں پر دو بچوں کی پابندی کا قانون سابقہ فوجی حکومت نے نافذ کیا تھا اور ریاست راکھین کے مقامی حکام نے حال ہی میں اس کی توثیق کی ہے۔ سوچی نے دارالحکومت ینگون میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ”یہ کوئی اچھی بات نہیں کہ اس طرح کا امتیازی قانون نافذ ہو اور یہ انسانی حقوق سے بھی کوئی مطابقت نہیں رکھتا۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ اس بات کی تصدیق نہیں کر سکتی ہیں کہ اس قانون پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے یا نہیں۔ راکھین کے حکام نے اتوار کو فرانسیسی خبر رساں ادارے کو بتایا تھا کہ ریاست کے دو مسلم اکثریتی شہروں میں اس قانون کے نفاذ کی توثیق کر دی گئی ہے۔ راکھین حکومت کے ترجمان وی مائینگ نے کہا کہ اس قانون کو صرف ایک ہی شادی اور دو بچوں کی پابندی کے لیے وضع کیا گیا ہے۔

اس کے تحت مسلمان ایک وقت میں صرف ایک ہی شادی کر سکیں گے اور صرف دو بچے پیدا کرسکیں گے حالانکہ وہ اپنے دین کی رو سے بیک وقت ضرورت کے مطابق چار تک شادیاں کرسکتے ہیں۔ اس ترجمان کا کہنا تھا کہ اس پالیسی پر اس سے پہلے اس خدشے کے پیش نظر عمل درآمد موخر کر دیا گیا تھا کہ اس سے ریاست میں آباد کمیونٹیوں کے درمیان تنازعات کا خطرہ تھا۔

آنگ سان سوچی نے بدھ متوں کے ہاتھوں روہنگیا مسلمانوں کے حالیہ مہینوں کے دوران قتل عام کے وقت تو کوئی لب کشائی نہیں کی تھی جس کی وجہ سے انھیں انسانی حقوق کے کارکنان اور خاص طور پر مسلم تنظیموں نے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور یہ پہلا موقع ہے کہ انھوں نے مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کی ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ سال راکھین میں مسلمانوں اور بدھ متوں کے درمیان فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات اور مسلح بدھسٹوں کے حملوں کے بعد ایک لاکھ چالیس ہزار سے زیادہ مسلمان بے گھر ہوگئے تھے۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے میانمر کے حکام پر مسلمانوں کی نسل کشی کی اس مہم میں فریق بننے کا الزام عائد کیا تھا۔بدھ بلوائیوں نے مسلمانوں کے پورے پورے دیہات نذر آتش کر دیے تھے اور ان کے حملوں میں ایک محتاط اندازے کے مطابق دو سو سے زیادہ افراد مارے گئے تھے جبکہ مسلمان یہ تعداد ہزاروں میں بتاتے ہیں۔ ہیومین رائٹس واچ نے بھی مسلمانوں پر دو بچوں کی پابندی کی پالیسی کو غیر انسانی اور انسانی حقوق کے بالکل منافی قرار دیا ہے۔