تحریر: ایم پی خان برما کے مسلمانوں پر انسانیت سوزظلم، درندگی اور بربریت کوئی نئی بات نہیں بلکہ ایک عرصہ سے وقفے وقفے کے ساتھ بدھ مت کے پیروکار ان پر ظلم وستم کے نئے نئے تجربات کر رہے ہیں، یہ سلسلہ چلتا رہا ہے، جنگلوں میں، بیابانوں میں اور صحرائوں میں، دیہی آبادی میں اور سمندر کے کنارے، جہاں لاشوں کو سمندر برد کر کے نام و نشان تک مٹا دیا جاتا ہے۔
زندہ انسانوں کو آگ لگاکرانکے تڑپنے، چیخیں نکلنے اور راکھ کاڈھیربننے کاآنکھیں پھاڑپھاڑکرنظارہ کرنے والے اورموبائل فون سے انکے فوٹیج بنانے والے شوخ چشم کس قدرمحظوظ ہورہے تھے ،پھول جیسے معصوم بچے والدین کی آنکھوںکے سامنے ٹکڑے ٹکڑے کردئے گئے۔معصوم انسانوں کی لاشوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدترسلوک کیاگیالیکن عالمی میڈیااپنی پرسکون نیندمیں خلل برداشت کرنانہیں چاہتاتھا۔امت مسلمہ کے ارباب اختیاراپنے تاج وتخت کے مزوں میں مدہوش تھے اورانہیںفرصت ہی نہ ملی کہ برماکے مسلمانوں کی حالت زارکاجائزہ لیتے۔
انسانی حقوق کی نام نہادتنظیمیںخاموش تماشائی بیٹھی رہیں۔ایسے میں سوشل میڈیانے بھرپورکرداراداکیااورروہنگیامسلمانوں کی آوازکو دنیاکے کونے کونے تک پہنچایا۔اسکے بعدالیکٹرانک اورپرنٹ میڈیانے بھی کروٹ لی اورروہنگیا مسلمانوں کی داستان غم اپنے اپنے اندازمیں بیان کرنے لگا۔اسلامی دنیاکے حکمرانوں میں ترکی کے صدرطیب اردگان کو اللہ نے اس مقام سے سرفرازفرناتھا۔ انہوں نے سب سے پہلے روہنگیامسلمانوں کے لئے آوازاٹھائی اورانکی ہرقسم کی مددکے لئے میدان میںاترے۔انہوں نے اورانکی اہلیہ نے جس طرح والہانہ اندازمیں برماکے متاثرین کو گلے لگایا، انکی حالت زار پر پھوٹ پھوٹ کرروئے، انکے میلے کچیلے بچوں کو اپنے بچوں کی طرح گودمیں اٹھایا، اسے دیکھ کر ہر مسلمان کا سر فخر سے بلند ہوتا ہے۔
جب سوشل میڈیااورالیکٹرانک اورپرنٹ میڈیا پر روہنگیامسلمانوں کی حالت زار کے دلخراش مناظردکھائے گئے اورمختلف ممالک میں لوگوں نے انکے حق میں مظاہرے کئے توامن کے دعویدار اقوام متحدہ نے روہنگیامسلمانوں کو دنیاکے مظلوم ترین قوم قراردیا لیکن میانمارکی حکومت کو دنیاکی ظالم ترین ریاست قراردینے میں پوری دنیاتامل سے کام لیتی ہے۔ستم بالائے ستم یہ کہ اسلامی دنیاکے حکمران روہنگیامسلمانوں پر کئے جانے والے ظلم کے خلاف آوازاٹھانے میں نہ جانے کس مصلحت کے شکارہیں اورانہوں نے کس قسم کی دوراندیشی اورعقل وحکمت کے تناظرمیں زبان کو قفل لگائے ہوئے ہیں۔ایسے حالات میں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پوری دنیاکی نظریں اسلامی جمہوریہ پاکستان پرہیں ،کیونکہ دنیامیں کہیں بھی کسی پر ظلم وستم ہورہاہو، خواہ وہ مسلمان ہویاغیرمسلم ، پاکستان میں میدان میںاترتاہے اورپوری دنیامیں امن قائم کرنے کی ذمہ داری اپنے کندھوں پراٹھاتی ہے۔
Rohingya Moving in Sittwe
ایسے میں برماکے مسلمانوں کی حالت زار پر حکومت پاکستان کی پالیسی بھی سمجھ سے بالاترہے، تاہم گذشتہ دنوں قومی اسمبلی میں میانمارحکوت کے ظلم کے خلاف متفقہ قراردادکی منظوری ،جس کے تحت اقوام متحدہ کے ذریعے میانمارحکومت سے روہنگیامسلمانوں کو برابرکی شہریت دینے اوراقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے پر زوردیاگیاہے۔مزید براں وزیراعظم پاکستان کی طرف سے قرب وجوارمیں واقع ممالک میں پناہ لینے والے روہنگیامسلمانوں کے لئے خوراک کی فراہمی کے سلسلے میں پانچ لاکھ ڈالر کی امدادکااعلان بھی قابل ستائش اقدام ہے۔تاہم ان حالات میں روہنگیامسلمانوں کے لئے بہت بڑے اقدام کی ضرورت ہے۔جوانکوعارضی پناہ دینے ، ادویات اورخوراک کی فراہمی کے ساتھ ساتھ مستقل بنیادوں پر ظالموں سے نجات دے سکے۔
حضورۖ نے فرمایاہے کہ تمام مسلمان ایک جسم کے مانندہیں۔جسم کے کسی ایک حصے میں درد ہوتوپورے جسم کو تکلیف ہوتی ہے۔توپھرہم کیسے مسلمان ہیںکہ ہمارے مسلمان بھائیوں اوربہنوں پر زندگی تنگ کردی گئی ہے۔ان سے جیناکاحق چھیناجارہاہے اورامت مسلمہ کو متاع رنگ وبوسے فراغت نہیں ہے۔کتنی بے حسی ہے کہ اکثرلوگوں کویہ بھی نہیں پتہ یہ روہنگیامسلمان کون ہیں،ان پر ظلم کیوں ہورہاہے اورکون کررہاہے۔بلکہ بعض لوگوں کاطرزعمل توخاصاپریشان کن ہوتاہے جب وہ کہتے ہیں کہ انہیں برماکے مسلمانوں سے کیاسروکارہے اوراس لئے وہ انکے متعلق کچھ جاننابھی نہیں چاہتے۔کیونکہ انکاخیال ہے کہ انکی اپنی زندگی توخوب آرام سے گذرتی ہے۔بقول اکبرآلہ آبادی !
کھا ڈبل روٹی، کلرکی کر خوشی سے پھول جا ۔۔دودن کی زندگی ہے کوفت سے کیا فائدہ۔
اب ضرورت اس امرکی ہے کہ تمام امت مسلمہ ایک دوسرے کے دکھ دردسے باخبرہو۔دنیاکے کسی کونے میں کسی ایک مسلمان کو تکلیف ہو، توپوری دنیاکے مسلمان انکے حالات سے آگاہی حاصل کرے اورانکے ساتھ ہرقسم کے تعاون کے لئے اپناکرداراداکرے۔انکے لئے سب سے بڑی قربانی ظالموں کے ظلم سے انہیں نجات دینے کیلئے جسمانی طورپر انکی مددکرنااورجولوگ ایسانہیں کرسکتے ، توانکی مالی مددکرے۔ متاثرین کی آبادکاری اورانکی ضروریات زندگی کابندوبست کرناہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔انفرادی اوراجتماعی طورپر دنیاکے تمام مظلوموں کے لئے دعائیں مانگی جائیں، خواہ وہ برمامیں ہو، شام اورعراق میں ہو، پاکستان یاافغانستان میں ہوبلکہ دنیاکے کسی بھی کونے میں ، جہاں وہ ظلم اوربربربیت کانشانہ بنے ہو۔۔۔کہ اللہ انہیںہرقسم کی تکلیف اورظلم سے نجات دے۔