نیپیدو (جیوڈیسک) میانمر میں صدیوں سے آباد روہنگیا مسلمانوں پر اپنے ہی ملک کی سرزمین تنگ ہو گئی۔ فوج کی مسلمانوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔ ریاست رخائن میں مسلمانوں کے اکثریتی علاقے میں دو ہزار چھ سو گھروں کو جلا دیا ہے۔
حکومت کے مطابق یہ کارروائی روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کیے جانے والے پرتشدد واقعات کے چند بڑے واقعات میں سے ایک ہے۔
خبریں ہیں کہ میانمار کے حکام کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کو لاؤڈ سپیکروں کے ذریعے متنبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ سکیورٹی فورسز کو ان کے علاقوں میں داخل ہونے پر چیلنج نہ کریں۔
دوسری جانب انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ مصنوعی سیارے سے لی گئی تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ آگ میانمار کی فوج نے لگائی ہے۔ گزشتہ ہفتے میانمر کی فوج نے چار سو روہنگیا مسلمانوں کو قتل کر دیا تھا، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
ادھر اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کی امداد کے ادارے یو این ایچ سی آر کے مطابق اب تک ساٹھ ہزار سے زائد روہنگیا مسلمان اپنی جانیں بچا کر بنگلا دیش جا چکے ہیں۔ مہاجرین کی اتنی بڑی تعداد کی وجہ سے امدادی کارکنوں کو دقت پیش آ رہی ہے۔ ترکی کے صدر طیب اردوان نے مسلمانوں پر ظلم کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ انہوں نے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کو نسل کشی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس جرم پر آنکھیں بند کرنے والے بھی شریک جرم ہیں۔ جبکہ برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن نے میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی سے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف تشدد کو ختم کرنے کی اپیل کی ہے۔