تحریر : ڈاکٹر محمد ریاض چوھدری دیر آید درست آید کے مصداق ہمارے عالم ادارے کا خوابیدہ ضمیر جاگ اٹھا اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اونٹو نیو گو تریس کی زبان بھی آخر کار حرکت میں آئی اور انہوں نے کہا کہ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر ظلم و ستم دنیا میں مہاجرین کا تیز ترین مسئلہ بن چکا ہے جو انسانوں اور انسانی حقوق کے لئے ایک ڈراؤنہ خواب ہے ۔ انہوں نے تصدیق کی کہ میانمار سے جان بچا کر بھاگنے والے روہنگائی مسلمان بالخصوص خواتین اور بچوں سے متعلق نہائیت لرزہ خیز واقعات سامنے آئے ہیں ۔ روہنگیا مسلمانوں پر اسلحے سے فائرنگ ، بارودی سرنگوں سے انکی ہلاکت اور خواتین کے ساٹھ زیادتی انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے جو ناقابل قبول ہے انہوں نے مطالبہ کیا کہ میانمار کی حکومت مسلمانوں کے خلاف آپریشن روکے اور ان کے خلاف مخاصمانہ پالیسی ترک کرے نیز فلاحی اداروں اور امدادی سامان کو متاثرہ علاقوں تک رسائی کی اجازت دے ۔ یہ تو بعد کی بات ہے کہ اس پر کتنا عمل ہوتا ہے روہنگیا مسلمانوں پر ویسے تو ایک عرصہ سے ظلم و ستم گی چکی میں پس رہے ہیں لیکن حس کی داستان کچھ یوں ہے کہ میانمار کی ریاست رخائن میں5ستمبر2017سے شروع ہونےوالے فوجی آپریشن کے دوران ہزاروں مسلمان بے گھر اور سینکڑوں قتل کئے جا چکے ہیں۔
الیکٹرانک اور سوشل میڈیاپر روہنگیا بچوں اور خواتین کےساتھ ہونےوالے لرزہ خیزمظالم کی تصاویر اور ویڈیوز کے منظرِ عام پر آنے کے بعدعالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے میانمار حکومت اور فوج پر سخت تنقید کی ہے اور میانمار کی امن نوبل انعام یافتہ وزیراعظم آن سان سوچی پر ان مظالم کو بند کرنے پر دباو ڈالا ہے۔ میانمار کی فوج اور بدھ قوم پرست روہنگیا مسلمانوں کےساتھ انسانیت سوزاوربہیمانہ سلوک کررہے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ وہاں نہ تو کسی انسانی حقوق کی تنظیم کو اور نہ ہی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو جانے کی اجازت دیجارہی ہے۔ میانمار حکومت ان پسماندہ، کمزور اور پسے ہوئے لوگوں کی حفاظت کرنے میں قطعی ناکام ہو چکی ہے۔ اسکی مجرمانہ خاموشی اور منافقانہ پالیسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ19ستمبر2017کو آن سان سوچی نے اپنی قوم سے خطاب کیا اور روہنگیا کےساتھ ہونےوالی زیادتیوں کا ذکرکئے بغیر صرف یہ کہنے پر اکتفا کیاکہ میانمار میں بسنے والی تمام اقلیتوں کا خیال رکھا جاتا ہے اور آئندہ بھی رکھا جائےگا۔حقیقت یہ ہے کہ سترکی دہائی سے شروع ہونےوالی میانمار حکومت کی امتیازی پالیسیوں کے باعث لاکھوں روہنگیا مسلمان اپنا گھر بار چھوڑ کر جہاں قوم پرست بدھ متوں کی اکثریت ہے، بنگلہ دیش ، انڈونیشیا ، ملائیشیا اورتھائی لینڈ ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔2016 اور2017کے دوران روہنگیا مسلمانوں کے قتل، تشدد،تاوان، خواتین کی آبروریزی حتّٰی کہ معصوم بچوں پر تشدداور بے رحمانہ قتل کے متعدد واقعات رونماہوئے جسکی وجہ سے روہنگیا مسلمانوں کی ایک بڑی تعدادمغربی میانمار میں پناہ گزین ہو گئی ۔
میانمار کے ہمسایہ ممالک کی سرد مہری اور ٹھوس اقدامات کے فقدان کے باعث پناہ گزینوں کے مسائل میں کئی گنا اضافہ ہو گا۔روہنگیا مسلمان کون ہیں اور ان کےخلاف ایسی کارروائیاں کیوں کی جارہی ہیں؟ روہنگیا نسل کے مسلمان صوفی تعلیمات سے متاثرہ سنّی مذہب کے پیروکارہیں اور ایک اندازے کےمطابق10لاکھ روہنگیا مسلمانوں کی اکثریت میانمار کے رخائن صوبے میں آباد ہے جو اپنی نسل، زبان، ثقافت اور مذہب کے اعتبار سے میانمار کے بدھ متوں سے مختلف ہیں جنکی وہاں اکثریت ہے۔ ہزاروں روہنگیا مسلمان پندرھویں صدی میں جب یہاں آراگان بادشاہت قائم تھی اور یہ علاقہ بھارت کا حصہ تھا اور برما کہلاتا تھا، ےہاں آکر آباد ہوئے۔ انیسویں صدی ا ور پھربیسویں صدی کے اوائل میں بھی سینکڑوں مسلمان خاندان اس علاقے میں آبادہوئے اور یہ علاقہ اس وقت تاجِ برطانیہ کے زیرِ نگین تھا۔ 1948 میں برما نے الگ ملک کی حیثیت سے آزادی حاصل کرلی ۔ یکے بعد دیگرے کئی حکومتیں آئیں جنہوں نے 1989میں ملک کا نام تبدیل کر کے میانمار رکھ دیا، روہنگیا مسلمانوںکو شہریت دےنے سے انکار کردیا اور انہیں بنگلہ دیش سے آئے ہوئے غیر قانونی مہاجرین کی حیثیت سے شمار کیا۔ نہ تو میانمار کی مرکزی حکومت اورنہ ہی رخائن ریاست کے بدھ قوم پرست “روہنگیا” کی اصطلاح کو ماننے پر تیار ہیں جو یہاںکے مسلمان 1950سے اپنی شناخت کےلئے استعمال کرتے آئے ہیں۔
روہنگیا ان مسلمانوں کے مطابق”روہنگ”کا لفظ روہنگیا زبان میں ” آراگان” کا مترادف ہے اور “گا”یا “گیا”کا مطلب ہے “سے”۔ گویا روہنگیا کا مطلب ہے “آراگان سے تعلق رکھنے والے” خود کو روہنگیا قرار دےکر روہنگیا مسلمان اس سرزمین کےساتھ اپنا رشتہ اور تعلق جوڑتے ہیں جو کبھی آراگان بادشاہت کا حصہ تھی۔پہلے1948اورپھر1962میں ان روہنگیامسلمانوں کو مکمل شہریت سے قانونی طورپر محروم کر دیاگیا۔تاہم انہیں ” عارضی رہائشی کے طور پر رجسٹر کرلیا گیا۔ 1990کی دہائی میں روہنگیا اور غیر روہنگیا مسلمانوں نےوائٹ کارڈز حاصل کرلئے جو مکمل شہریت تونہیں دیتے تھے البتّہ اس سے انہیں کچھ حقوق کا تحفظ حاصل ہو جاتا تھا۔ 2014میں جب اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں 30سال بعد مردم شماری کی گئی توابتداءمیں تو روہنگیا مسلمان اقلیت کو بطور روہنگیا اپنی شناخت کی اجازت دی گئی لیکن بدھ قوم پرستوں نےدھمکی دی کہ اگر ایسا کیا گیا تو وہ اس مردم شماری کا بائیکاٹ کر دینگے۔
نتیجہ یہ نکلا کہ میانمار کی حکومت نے روہنگیامسلمانوں کو کہا کہ انہیں صرف اس صورت رجسٹر کیا جائےگا جب وہ اپنے آپ کو روہنگیا کی بجائے بنگالی نسل کے طور پر رجسٹر کروائینگے۔2008میں روہنگیا مسلمانوں کو وائٹ کارڈز کی بنیاد پر ووٹ کا حق دیا گےا لیکن فروری 2015میں بدھ قوم پرستوں کے شدیداحتجاج کے باعث دباو¿ مں آکر وائٹ کارڈزکے حامل روہنگیا مسلمانوں کو ووٹ دینے کے حق سے محروم کردیا گیا اور انکے وائٹ کارڈز بھی منسوخ کر دئیے گئے۔ 2015کے انتخابات میں جسے تمام عالمی اداروں نےصاف شفاف قرار دیا کسی ایک مسلمان امیدوارنے بھی حصہ نہیں لیا۔ میانمار میں شدید مسلمان مخالف جذبات کی وجہ سے حکومت کےلئے مسلمانوں کو سہولت دینے یا انکے حقوق کا تحفظ کرنےوالا کوئی اقدام کرنا سیاسی طور پر ناممکن ہو چکا ہے۔
میانمار حکومت نے مختلف پابندیاں لگاکرمسلمانوں کےساتھ امتیازی سلوک روا رکھا ہوا ہے ۔ شادی، خاندانی منصوبہ بندی، روزگار، تعلیم، مذہب اورآزادانہ آمدورفت پر شرائط اور پابندیاںعائد ہیں ۔ روہنگیا مسلمان جوڑوں کو صرف دو بچوں کی اجازت ہے۔ اسی طرح روہنگیا مسلمانوں کو شادی سے پہلے حکومت سے اجازت لینا لازمی ہے جس کےلئے انہیں اکثر و بیشتر حکام کو رشوت دینا پڑتی ہے اور دلہن کی تصویر بغیر سر ڈھانپے اور دولہے کی تصویر بغیر داڑھی دینا پڑتی ہے۔ اسی طرح کسی نئے گھر میں منتقل ہونے یا اپنے علاقے سے باہر سفر کرنے سے پہلے روہنگیا مسلمانوں کو حکومت سے اجازت لینا پڑتی ہے۔ رخائن ، میانمار کی سب سے پسماندہ اور غریب ریاست ہے جہاں غربت کی شرح 78 فیصد ہے جبکہ غربت کی قومی شرح37.5فیصد ہے۔رخائن میں غربت کی انتہا، روزگار کے مواقعوں کی کمی ، انفراسٹرکچر کے فقدان اور مذہبی اختلافات نے بد ھ مت کے پیروکاروں اور روہنگیا مسلمانوں کے مابین ایک خلیج حائل کر دی ہے۔2012 میں مبینہ طور پری ایک مسلمان مرد کے ایک بدھ عورت کی آبروریزی اور قتل کے واقعے کے بعد مسلمانوں کےخلاف شدید تشدد کا آغاز ہوا جس میں 280کے قریب مسلمان قتل کردئیےگئے، مسلمان بستیوں کو جلا کر خاکستر کر دیا گےا اور ہزاروں روہنگیا مسلمان اپنی جان بچانے کےلئے پنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔2017میں بھی عسکریت پسند گروہ کے سرحدی چوکیوں اورسکیوریٹی اہلکاروں پر حملوںکے بعدمسلمانوں کی بستیوں کو آگ لگادی گئی اور سینکڑوں معصوم لوگوں کو سنگدلانہ طریقوں سے تشدد کر کے قتل کر دیا گیا۔
تشدد کی ان کارروائیوں میں بدھ قوم پرست پیش پیش رہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے بدھ قوم پرستوں کے اس تشدد کو انسانیت دشمن جرائم اور مسلمانوں کی نسل کشی سے تعبیر کیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی 2015کی رپورٹ کے مطابق روہنگیا پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد یاتو بدحال کیمپوں میں پناہ گزیں ہے یا انسانی اسمگلنگ کرنےوالوں کے ہتھے چڑھ چکی ہے جو انہیں میانمار سے باہر نکالنے کےلئے بھاری معاوضہ طلب کرتے ہیں۔یہ حقیقت کہ ہزاروں روہنگیاپناہ گزیں میانمار میں رہنے کی بجائے ایسی خطرناک کشتی میں سمندری سفر کو ترجیح دے رہے ہیں جسکے ذریعے بحفاظت منزل تک پہنچنے کے امکانات کم ہی ہیں ، یہ باور کرانے کےلئے کافی ہے کہ ان کےساتھ کیسا سلوک کیا جارہا ہے اور وہ کس بدحالی کا شکار ہیں ۔
میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کی ا یک بدقسمتی یہ بھی رہی ہے کہ انکا کوئی ہمسایہ انہیں قبول کرنے یا انکی مدد کرنے کےلئے تیار نہیں ہیں ۔اس مسئلے میں کئی کا طرزعمل قابل مذمت ہے جن میں بھارت سرفہرست ہے اور جو مسلمانوں کےساتھ اپنی ازلی د شمنی نبھانے پرتیار بیٹھا ہے ۔2015میں بھارت نے عسکریت پسندوں پر سرجیکل اسٹرئیکس کے بہانے روہنگیا بستیوںیں کارروائیاں کیں جن میں ان کا جانی و مالی نقصان ہوا۔ ایسی اطلاعات بھی مل رہی ہں کہ بھارتی انتہا پسند اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بدھ قوم پرستوں کو مسلمانوں کےخلاف اُکسا رہے ہیں جو پہلے ہی اپنی معاشی بدحالی اور ابترصورتِ حال میں مسلمانوںکے جانی دشمن بنے ہوئے ہیں ۔ اور بدھ قوم پرستوں کی کئی پرتشدد کارروائیاں 2002کے گجرات کے مسلم کش فسادات کی گہری چھاپ رکھتی ہیں ۔
میانمار حکومت لاکھوں افراد کے گھر بار چھوڑنے اور ہزاروں افراد پر تشدد اور انکے قتل کے بعد بھی ا ی ے ٹھوس اقدامات کرنے میں ناکام ہو چکی ہے جو روہنگیامسلمانوں کو امن و امان سے زندہ رہنے میں ممد و معاون ثابت ہو۔
عالمی برادری بھی اب تک زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں کر پائی اور روہنگیا مسلمانوں کی داد رسی کےلئے کوئی اہم پیش رفت نہیں کی جاسکی ۔ اقوامِ متحدہ ، انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور بالخصوص اسلامی ممالک کی تنظیم کی یہ بنیادی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ا یک طرف تو روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانےوالے مظالم کو فوری طور پر بند کروائیں اور ہنگامی بنیادوں پر انکی آبادکاری اور بحالی ممکن بنائیں اور دوسری طرف ان بیرونی قوتوں کی سرگرمیوں کو بھی روکیں جو جلتی پر تیل ڈال کر مزید خونر یزی کر رہے ہیں۔
سب سے اہم یہ کہ روہنگےا مسلمانوں کے مسائل کو ہمیشہ کےلئے حل کرنے کی طرف بھی توجہ د یں اور مل بیٹھ کر کوئی ا یسا حل تلاش کر یں جو انکے ساتھ ہونےوالی زیادتیوں اور ظلم و ستم کے سلسلے کو ہمشہ کے لئے ختم کردے۔