رنگون (جیوڈیسک) میانمار میں وزیراعظم کی جانب سے ووٹنگ کا عارضی حق واپس لئے جانے کے بعد روہنگیا مسلمان ملک میں منعقدہ ریفرنڈم میں ووٹ نہیں دے سکیں گے۔ وزیراعظم تھین سین کی جانب سے یہ فیصلہ ملک میں سینکڑوں بودھوں کے مظاہروں کے بعد سامنے آیا ہے۔
ووٹنگ کا حق واپس لئے جانے کا اعلان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا جب دارالحکومت رنگون میں بڑے پیمانے پر بودھ آبادی کی جانب سے مظاہرے کئے گئے۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ وہ غیر شہریوں کو شہریوں میں ضم کرنے کی اس کوشش کے حق میں نہیں ہیں۔ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے ایک بودھ بھکشو شن تھومانا کا کہنا تھا کہ وائٹ کارڈز رکھنے والے شہری نہیں اور دیگر ممالک میں بھی جو شہری ہی نہیں اسے ووٹ دینے کا حق نہیں ہوتا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ تو سیاستدانوں کی جانب سے ووٹ لینے کی ایک چال ہے۔ تاہم رخائن سے برما کی پارلیمان کے رکن شوئے موانگ کا کہنا ہے کہ ووٹنگ کے حق کا معاملہ 2012ء کے نسلی فسادات کے بعد ہی سامنے آیا ہے۔ واضع رہے کہ میانمار میں دس لاکھ سے زیادہ روہنگیا مسلمان آباد ہیں لیکن حکومت انھیں برما کا شہری تسلیم نہیں کرتی۔
ان مسلمانوں کو پُرتشدد کارروائیوں کا سامنا بھی رہا ہے۔ رخائن کے علاقے میں 2012ء میں بودھ مسلم فسادات میں 200 سے زیادہ افراد مارے گئے تھے۔ 2010ء میں ملک کی فوجی حکمران نے وائٹ کارڈز متعارف کروائے تھے جن کی وجہ سے روہنگیا اور دیگر اقلیتوں کو عام انتخابات میں ووٹ دینے کا حق مل گیا تھا۔ وزیراعظم تھین سین نے ابتداء میں تو پارلیمان سے ان دستاویزات کی اجازت دینے کو کہا تھا تاہم اب داخلی دبائو کی وجہ سے وہ اپنا فیصلہ تبدیل کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔