تحریر : واحد علی نقشبند برما کی کل آبادی میں سے سات لاکھ مسلمانوں کی آبادی ہے ۔ ۔ برما میں مسلمانوں کا قتل عام کا آغاز اس وقت ہوا جب مسلمانوں کے ایک گروہ کو بس میں سے اتار کر برما کی فوج اور بدھ مت لوگوں نے ان معصوم مسلمانوں کو قتل کر دیا اور اس پر مسلمانوں نے احتجاج کرنا چاہا جس پر برما کی فوج نے مسلمانوں کے قتل عام کا حکم دے دیا اور ہزاروں مسلمانوں کو اب تک قتل کیا جا چکا ہے ۔ برطانیہ نے 1854 میں برما پر قبضہ کیا اور 1948 میں برما انگریزوں کے تسلط سے آزاد ہوا۔برما میں آباد مسلمانوں کی اکثریت روہنگیا نسل سے تعلق رکھتی ہے۔1978 میں برما حکومت نے روہنگیا مسلمانوں کو اپنا شہری ماننے سے انکار کر دیا۔حکومت کا موقف تھا کہ روہنگیا آبادی کو انگریز نے 1854 کے بعد لاکر آباد کیا ہے۔۔انہیں برما سے نکالنے کے لیے انکے خلاف آپریشن شروع ہوا۔مسلمان عورتوں کی آبروریزی کی گئی، مکان اور مسجدیں جلائی گئیں مال و دولت چھین لیا گیا۔لیکن روہنگیا ہزاروں مرنے کے باوجود اپنا تشخص برقرار رکھنے میں کامیاب ثابت قدم رہے۔1991میں آپریشن کلین پھر شروع ہوا پھر 1978 والی تاریخ دہرائی گئی۔ پھر چند سال بعدافعانستا ن میں ایک پورے پہاڑ کو تراش کر مہاتما بدھ کا مجسمہ بنایا گیا تھاکوامیر المونین کے حکم پر مجاھدین نے بارود سے سب کے سب اڑا دئیے ۔ پورے دنیا کے بدھ سٹ کمیونٹی میں غم اور غصہ پھیل گیا۔ انہوں نے اپنے بدھا کے مجسمےکی تباہی کا بدلہ اپنے ہاں رہنے والے بے چارے مسلمانوں سے لینا شروع کیا۔چند سال پہلے برما کی ایک مجاھد تنظیم پر ایک برمی عورت نے ریپ کا الزام لگایا گیا تھا۔ جس کے بعد مسلمانوں کے خلاف کاروائیوں میں مزید تیزی آئی ہے۔
انہوں نے اپنے لڑاکا گروہ بنائے ہیں۔ مسلمانوں کو جہاں پاتے قتل کرتے ۔ آشین ورتھو نے اپنے پیروکاروں میں مسلمانوں کے خلاف اسقدر زہر بھر دیا کہ بدھ مت 2012میں مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے۔یہ چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کی لاشیں نیزوں اور برچھیوں پر ٹانگتے، عورتوں کو سرعام برہنہ کر کے آبروریزی کرتے ہوئے مار دیتے۔ مسلمانوں کی نسل کشی کے لیے میانمار حکومت ,آرمی اور بدھسٹ غنڈے ہاتھوں میں تلواریں اٹھائے مسلمانوں پر پل پڑتے ہیں۔گزشتہ 2 دنوں میں 8 ہزار مسلمانوں کو زبح کیا جا چکا ہے۔ مسلمانوں کی پانچ سو سے زائد مسلمان بستیوں کو جلا دیا گیا ،لیکن اس سب معاملے پر انسانی حقوق کی تنظیموں خاموشی معنی خیز ہے۔
ایمنسٹی کی جانب سے اقوام متحدہ کو لکھے گئے مکتوب میں کہا گیا ہے کہ میں2100دیہات مسلمانوں سمیت جلادیے گئے، 10ہزار افراد بھاگتے ہوئے مارے گئے ، 1500سے زائد خواتین عصمت دری کے بعد فوج میں تقسیم کردی گئیں،زندہ انسانوں کے اعضا کاٹ کر چیل کووے چھوڑے جارہے ہیں، ایک لاکھ 30ہزار افراد شدید زخمی،ایک لاکھ جنگلوں میں محصور ہیں ، بچ جانے والے مسلمان بنگلہ دیش کی طرف بھاگتے ہیں ,جنھیں انڈین اثرو رسوخ والی حسینہ واجد بے یارومددگار واپس سمندر میں دھکیل دیتی ہے بنگلہ دیشی حکومت کی سنگدلی کے باعث کشتیوں میں سوار20ہزار افرادسمندر میں بھٹکنے پر مجبور ہیں ۔60 فیصد مسلمان آبادی جانوروں کی طرح جنگلوں میں روپوش ہیں۔ ، ہر دور میں مسلمانوں کو اس سربریت کا نشانہ بنایا گیا ہے حالانکہ اسلام امن، بھائی چارہ اور اسلام کبھی کسی غیر مسلم کے حقوق بھی ضبط نہیں کرتا لیکن اس دین اسلام کو ہر دور میں مشکلات کا سامنا رہا ہے ۔ اہل ایمان لوگوں کے لیے سوچنے کا مقام ہے ۔ اور بہ زات خود امریکہ جو پوری دنیا میں اپنے آپ کو امن پسند ملک کہتا ہے کہاں ہے ؟ اس سارے واقعے کو کیوں نہیں منظر عام پر لایا جا رہا۔نہ عالمی ضمیر جاگتا ہے اور نہ ہی مسلمان ممالک کا خون کھولتا ہے۔
سعودی اقتدار کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اورایران مسلمانوں کی تباہی و بربادی میں پیش پیش ہے مگر روہنگیا مسلمانوں کیلئے کچھ کرنا اسکے مفاد کے خلاف ہے۔ آج پورے عالم اسلام میں نہ تو کوئی محمد بن قاسم نظر آ رہا ہے اور نہ ہی صلاح الدین ایوبی۔ لیکن کیا ہم لوگوں نے کبھی سوچا ہے کہ آج کل کا مغرب زدہ میڈیا مسلمانوں کی خوشی کے موقعوں پر ہی کیوں ایسی خبریں نشر کرتا ہے۔؟آپکو یاد ہوگا، عراق کے صدر صدام حسین کو پھانسی بھی عید الضحیٰ والے دِن دی گئی تھی، دو سال پہلے عیدالفطر کے موقع پر شامی بچوں کی لاشوں کے انبار لگا دئیے گے تھے اور اب برما کے مسلمانوں کی یوں اذیت ناک موت کی خبریں دی جا رہی ہیں۔!یہ سب صرف اِس لیے ہے کہ مسلمانوں کو کبھی خوش نہ رہنے دیا جائے، آپ نے کبھی نہیں سنا ہوگا کہ کرسمس، ہولی یا دیوالی کے موقع پر دنیا کے کسی ملک پر ایسی مصیبت آن پڑی ہو، کہ عیسائی یا ہندو تلملا اٹھیں یہ ساری سازش ایک خاص منصوبے کے تحت صرف مسلمانوں کے خلاف رچی جا رہی ہے ——-