روہنگیا مظالم کی تحقیقات کرنے والے صحافیوں کو سات سال قید

Journalist

Journalist

میانمار (جیوڈیسک) سزا پانے والے دونوں صحافی ریاست راکھین کے ایک گاؤں اِن ڈن میں پولیس اور فوجی اہلکاروں کے ہاتھوں 10 روہنگیا نوجوانوں اور مردوں کے مبینہ قتل اور دیگر مظالم کی تحقیقات کر رہے تھے۔

میانمار کی ایک عدالت نے گزشتہ سال راکھین میں ہونے والے روہنگیا مسلمانوں کے قتلِ عام کی تحقیقات کرنے والے غیر ملکی خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے دو صحافیوں کو سات سال قید کی سزا سنادی ہے۔

عدالت نے دونوں صحافیوں کو خفیہ سرکاری دستاویزات حاصل کرنے اور اپنے پاس رکھنے کا جرم ثابت ہونے پر نو آبادیاتی دور کے ایک قانون ‘آفیشل سیکریٹس ایکٹ’ کے تحت سزا سنائی ہے۔

دونوں صحافیوں – 32 سالہ وا لون اور 28 سالہ کیو سوئی او – نے عدالت کے روبرو فردِ جرم سے انکار کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا تھا کہ پولیس نے راکھین میں جاری مظالم سے متعلق ان کی تحقیقات روکنے کے لیے انہیں خفیہ سرکاری دستاویزات کے مقدمے میں پھنسایا۔

دونوں صحافیوں نے عدالت کو بتایا تھا کہ دو پولیس افسران نے ہی ینگون شہر کے ایک ریستوران میں مذکورہ دستاویزات ان کے حوالے کی تھیں جس کے کچھ ہی دیر بعد پولیس نے انہیں دستاویزات سمیت گرفتار کرلیا تھا۔

سزا پانے والے صحافی کیو سوئی او کو پولیس عدالت سے لے جا رہی ہے۔
سزا پانے والے صحافی کیو سوئی او کو پولیس عدالت سے لے جا رہی ہے۔
سزا پانے والے دونوں صحافی ریاست راکھین کے ایک گاؤں اِن ڈن میں پولیس اور فوجی اہلکاروں کے ہاتھوں 10 روہنگیا نوجوانوں اور مردوں کے مبینہ قتل اور دیگر مظالم کی تحقیقات کر رہے تھے۔

پیر کو سنائے جانے والے فیصلے میں عدالت کے جج نے قرار دیا کہ دونوں صحافیوں کے پاس سے اور ان کے موبائل فون سے جو دستاویزات برآمد ہوئیں وہ خفیہ اور حساس نوعیت کی تھیں اور ان سے “ریاست کے دشمن اور دہشت گرد تنظیمیں” فائدہ اٹھاسکتی تھیں۔

دونوں صحافیوں کو پولیس نے گزشتہ سال دسمبر میں حراست میں لیا تھااور عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ان کی سزا ان کی گرفتاری کے دن سے شروع ہوگی۔

دونوں صحافیوں کے وکلا کے پاس ان کی سزا پہلے علاقائی عدالت اور پھر سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اختیار ہے۔

میانمار میں سماجی کارکن اور صحافی اپنے دو ساتھیوں کی حراست کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
میانمار میں سماجی کارکن اور صحافی اپنے دو ساتھیوں کی حراست کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
دنیا بھر میں آزادیٔ اظہار کے لیے سرگرم بین الاقوامی تنظیموں، ذرائع ابلاغ کے اداروں، اقوامِ متحدہ، یورپی یونین، امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا سمیت کئی ملکوں نے میانمار کی حکومت سے ان صحافیوں کی رہائی اور ان کے خلاف مقدمہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

میانمار کی حکومت نے تاحال عدالت کے فیصلے پر کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ لیکن میانمار حکومت اس سے قبل یہ کہتی آئی ہے کہ ملک میں عدالتیں آزاد ہیں اور صحافیوں کے خلاف کارروائی قانون کے مطابق کی جارہی ہے جس میں حکومت کا کوئی ہاتھ نہیں۔

صحافیوں کے خلاف عدالت کا فیصلہ ایسے وقت آیا ہے جب نوبیل انعام یافتہ سیاست دان آنگ سان سوچی کی قیادت میں قائم میانمار کی حکومت پر گزشتہ سال راکھین میں پیش آنے والے واقعات کے متعلق عالمی دباؤ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

دونوں گرفتار صحافی عدالت سے واپسی پر صحافیوں کو دیکھ کر ہاتھ ہلا رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)
دونوں گرفتار صحافی عدالت سے واپسی پر صحافیوں کو دیکھ کر ہاتھ ہلا رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)
گزشتہ سال اگست میں شمالی ریاست راکھین میں شروع ہونے والی سکیورٹی فورسز اور بودھ انتہا پسندوں کی کارروائیوں کے نتیجے میں روہنگیا اقلیت سے تعلق رکھنے والے سیکڑوں افراد مارے گئے تھے۔

فسادات اور حملوں سے بچنے کے لیے راکھین سے سات لاکھ سے زائد افراد کو اپنا گھر بار چھوڑ کر بے سر وسامانی کے عالم میں پڑوسی ملک بنگلہ دیش ہجرت کرنا پڑی تھی جو ایک سال گزرنے کے باوجود تاحال وہیں مقیم ہیں۔

راکھین میں پیش آنے والے واقعات کی تحقیقات کرنے والے اقوامِ متحدہ کے ایک کمیشن نے گزشتہ ہفتے ہی اپنی رپورٹ میں گزشتہ سال کے واقعات کو روہنگیا مسلمانوں کی منظم نسل کشی قرار دیتے ہوئے اس کی ذمہ داری براہِ راست میانمار کی فوج کے سربراہ سمیت چھ اعلیٰ ترین افسران پر عائد کی تھی۔