تحریر : سائرس خلیل میانمار جس کو برما کہ نام سے بھی جانا جاتا ہے۔برما 13000 سالہ تاریخ رکھنے والا علاقہ ہے۔مگر جدید برما 1948 میں معرض وجود میں آیا۔ جو کہ 1962-1980 تک ایک سوشلسٹ اسٹیٹ کے طور پر کام کرتا رہا۔ یو ایس ایس آر کی تحلیل کہ بعد سرمایہ داریت کی طرف بڑھا۔
جسکی آبادی تقریبا پانچ کروڑ کہ قریب ہے۔ جس میں سے 87٪ بدھ، 6٪ عیسائی ، 4٪ مسلم 1٪ ہندو اور 2٪ باقی مذاہب والے لوگ آباد ہیں۔ چونکہ اکثریت کا تعلق بدھ مذہب سے ہے اور مذہب بدھ کہ پاس کوئی ریاستی نظام موجود نہیں اس لیئے یہ ریاست آئینی طور پر سکیولر ہے۔ برما کی ایک ریاست رکھائن جس کو اراکان بھی کہا جاتا ہے۔ جس میں ہندو ، سکھ، اور مسلم آباد ہیں۔ ریاست اراکان میں مذہب کہ لحاظ سے مسلم آبادی باقی اہل اراکان کی نسبت زیادہ ہے۔
اراکان میں آباد ہندو اور مسلم کی اکثریت بنگال النسل ہے۔ جو کہ انگریز دور میں بنگال سے ہجرت کرکہ اراکان میں جا بسے تھے۔ جس کو بنیاد بنا کر اراکان کی آبادی کو بنگلہ دیش اور بھارت پناہ بھی دے چکے ہیں۔ جو کہ تقریبا دو سو سال سے زائد کا عرصہ سے اراکان میں رہتے ہیں۔ برما کی حکومت نے بنگال النسل آبادی کو 1982 میں غیر ریاستی افراد قرار دے دیا ۔ جس کی وجہ سے ریاست میں ان کی شہریت ختم ہوکر رہ گئی۔ اور شہریت ختم ہونے والوں کو روہنگینا کا نام دیا گیا۔ جن کا نام ان کے ایک قبیلہ روہنگیا کہ نام پر پڑا۔ برما میں 1982 سے لے کر 2010 تک مقامی سوشلسٹوں کو کچلنے کہ لیئے اکثر سرمایہ دارانہ طرز کی امریت قائم رہی۔
جسکی وجہ سے روہنگیا کی آبادی کا مسئلہ سامنے نہ آسکا۔ 1980 کہ بعد دنیا کی تمام تحریکوں کو جیسے دبایا جارہا تھا ویسے ہی روہنگنیا کی تحریک کو دبایا گیا مگر جیسے ہی سامراجی پالیسی کمزور پڑی تو سرمایہ دارانہ امریت کی جگہ سرمایہدارانہ جمہوریت نے پکڑ مضبوط کر لی۔ جیسا کہ مصر، سوڈان، پاکستان وغیرہ میں دیکھا جاسکتا ہے۔ برما میں 2010 کے بعد جمہوریت کو تسلسل ملا جس کی وجہ سے عوامی امنگیں سامنے آئیں۔ ان امنگوں میں روہنگیا کی شہریت کا مسئلہ 2011 میں سامنے آیا۔
اسی دوران عوامی شہریت کا مسئلہ بہت خوفناک طریقہ سے سامنے آیا۔ جسکے دوران روہنگیا کی طرف سے ایک بدھ ٹیمپل پر بم دھماکہ کیا گیا جسکی ذمہ داری وہاں کی ایک عسکری تنظیم ملیشیا نے بعد میں قبول کی۔ اور ریاستی جبر کہ نتیجے میں روہنگیا کہ 400 سے زائد افراد کو قتل کر دیا گیا۔ اب جنگ روہنگیا اور ریاست برما کہ درمیان سامنے کھل کر آئی۔ اور وجہ مذہب نہیں بلکہ ان کا سیاسی مسئلہ بنا۔ جس میں ہندو، مسلم آبادی شامل ہے۔ اگر مسئلہ مذہبی ہوتا تو روہنگیا کہ علاوہ باقی مسلم آبادی کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا جاتا جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔
اب اس تحریک کو عالمی سرمایہدارانہ سامراج نے اپنے مقاصد کے لیئے کھیلنا شروع کر دیا۔ برما چونکہ چین دوست ملک ہے جسکو چینی کالونی بھی کہا جاسکتا ہے۔ جس کی وجہ سے چین دوست کوئی بھی ملک روہنگیا کی تحریک کو سپورٹ نہیں کررہے۔ جن میں روس، پاکستان، وغیرہ سہرفہرست ہیں۔ جبکہ بنگلہ دیش آج بھی بھارت کی نوآبادیات میں شمار کیا جاسکتا ہے، جبکہ بھارت خود امریکہ کی کالونی کہ طور پر جانا جاتا ہے۔ اب اس ساری گیم کو امریکہ اپنے فائدے کے طور پر چین کے خلاف کھیل رہا ہے۔ روہنگیا کہ لوگ جیسے ہی بنگلہ دیش کی طرف ہجرت کرتے ہیں تو امریکہ کے اشارے پر بنگلہ دیش ان کو پناہ دینے سے انکار کر دیتا ہے اب ہجرت کیے لوگ جب بنگلہ دیش سے مایوس ہوکر واپس لوٹتے ہیں تو برمی فوج سے ان کا واستہ پڑتا ہے جوکہ ایک جنگ کہ طور پر سامنے آتا ہے۔ اب امریکہ اس جنگ کو مذہبی جنگ بنا کر سامنے لانے کی کوشش کرتا ہے تاکہ عوامی رائے کو ہموار کرکہ روہنگیا کہ وسائل پر قبضہ کیا جائے۔ جیسے کہ امریکہ پہلے بھی عراق اور افغانستان میں حرکتیں کر چکا ہے۔
امریکہ کے دفتر خارجہ کا آخری بیان برما کی حکومت کی نااہلی پر تھا مطلب کہ برما نااہل ہو چکا ہے اب خود آکر اس سارے مسئلے کو حل کروائے گا۔ اور نتیجہ ؟؟ ایک نیاء عراق یا افغانستان۔۔۔ حیرت تو اس بات کی ہیکہ ہمارا ترقی پسند بھی عالمی سامراجی اداروں کو مسئلہ حل کروانے کے لیئے ذمہ دار ٹھہرا رہا ہے۔ جبکہ یہ ترقی پسند ان اداروں کی جانب داری آج تک اسرائیل، فلسطین میں نہیں دیکھ پائے؟ یا یہ ترقی پسند کشمیر کے مسئلہ پر عالمی و انسانی اداروں کی خاموشی نہیں محسوس کر پائے؟ افغانستان کی تیسری نسل برباد ہورہی ہے مگر یہ عالمی ادارے کیا کر پائے؟ شام ، امریکہ کے مسئلہ پر عالمی اداروں کا روایہ کیا رہا؟
خیر یہ تمام مسائل عالمی اداروں کے بس کی بات نہیں۔ پوری دنیا کے امن کے لیئے جب تک عالمی جمہوری سائنسی ادارے قائم نہیں کیے جاتے تب تک یہ مسائل مزید طول تو پکڑ سکتے ہیں مگر سکڑ نہیں سکتے۔ روہنگیا کا مسئلہ مذہبی مسئلہ نہیں بلکہ انکی شناخت اور مستقبل کا مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ خالصتا سیاسی مسئلہ ہے جسکو برما کی حکومت روہنگیا کو شہریت دے کر حل کر سکتی ہے ورنہ الگ ریاست ناگزیر ہے۔ ایک بات قابل غور ہیکہ برما میں جب تک سوشلزم قائم رہا تب تک اراکان میں کوئی مسئلہ سامنے نہیں آیا مگر ٹھیک سوشلزم کہ خاتمہ کہ دو سال بعد یہ مسئلہ سامنے آتا ہے۔ جسکا حل صرف سوشلزم کی صورت موجود تھا۔
ریاست جموں کشمیر کا مسئلہ بھی قومی مسئلہ ہے۔ ریاست کی حیثیت 1947 کے بعد متنازعہ ہو کر رہ گئی ہے اور اہل ریاست ہندوستان اور پاکستان کے سیکنڈ سیٹیزن بن کر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جن کے تمام وسائل پر ہندوستان اور پاکستان قابض ہیں۔ اور تمام مسائل کی جڑ غیر ریاستی تسلط ہے۔
دنیا کہ مظلموں کے ساتھ مل کر صحیح بنیادوں پر درست سمت کا تجزیہ کرکہ آگئے بڑھنا ہوگا۔
اپنے اپنے قومی مسائل اور شناخت کے مسائل کو حل کر کہ مادی تاریخ کو آگئے بڑھانا ہم سب کا تاریخی فریضہ ہے جسکو اپنے اپنے حصے کا دیا جلا کر ہی پورا کیا جا سکتا ہے۔