تحریر : ڈاکٹر بی اے خرم پاکستان فلمی صنعت پر گہرے نقوش چھوڑنے والے ناقابل فراموش اداکار وحید مراد 2 اکتوبر، 1938 کو سیالکوٹ میں فلم تقسیم کار نثار مراد اور انکی اہلیہ شیریں مرادکے گھر پیدا ہوئے اکیلی اولاد تھے۔و حید مراد نے کراچی گرامر اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی، کراچی سے میٹرک کیا، ایس ایم آرٹس سے گریجویشن کیا، اور اس کے بعد کراچی یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز کیا۔وحید مراد کراچی کے میمن صنعتکار ابراھیم میکر کی بیٹی سلمہ کو پسند کرتے تھے۔ ان کی شادی جمعرات 17 ستمبر، 1964ء کو منعقد ہوئی۔. انکی دو بیٹیاں عالیہ مراد اور سعدیہ مراد اور ایک بیٹے عادل مراد ہیں . سعدیہ مراد بچپن میں انتقال کرگئی تھی عادل مراد بھی فلم لائن میں آئے لیکن کامیاب نہ ہو سکے ۔وحید مراد ایک نامور پاکستانی فلم اداکار، پروڈیوسر اور سکرپٹ مصنف تھے۔ وحیدمراد جنوبی ایشیا کے سب سے زیادہ مشہور اور بااثر اداکاروں میں سے ایک سمجھے جاتے ہیںبرصغیر میں دلیپ کمار کے بعد وہ واحددوسرے اداکار تھے جو نوجوان نسل میں بہت مقبول ہوئے اور ان کے ہیئر اسٹائل کو نوجوان نسل نے کاپی کیا گیتوں میں ان کا چلبلا پن، مدھر آنکھیں اور رومانوی اداکاری کی بدولت وہ آج بھی چاہنے والوں کے دلوں میںزندہ جاوید ہیںدلکش لہجہ، گیتوں پر خوبصورت پرفارمنس اور دلوں کو چھو لینے والی اداکاری وحید مراد کا ہی خاصہ تھی۔
وحید مراد نے 1962ء میں بطور اداکار فنی سفر کا آغاز کیااور 21 سالہ کیریئر میں ایک سو چوبیس فلموں میں کام کیا جن میں آٹھ پنجابی اور ایک پشتو فلم بھی شامل ہے ان کی بے شمار فلمیں سپر ہٹ گئیںان کی وفات کے ستائیس سال بعدنومبر2010ء میں پاکستانی صدر آصف علی زرداری نے وحید مراد کو ‘ستارہ امتیاز’ سے نوازا۔وحید مراد ہیرو بھی تھے تو پروڈیوسر بھی اورساتھ میں اسکرپٹ بھی لکھتے تھے۔
وحید مرادنے اپنے والد کے قائم شدہ ”فلم آرٹس ”کے تحت بطور پروڈیو سر فلم” انسان بدلتا ہے ”سے اپنے کیریئرکا آغاز کیا۔بطور پروڈیوسر ان کی دوسری فلم” جب سے دیکھا ہے تمہیں” تھی جس میں ہیرو درپن اور ہیرئین زیبا تھیں درپن نے بطور اداکار ان کے ساتھ اچھا برتائو نہیں کیا سیٹ پہ دیر سے آنا ،ڈیٹس دے کر کام پہ نہ آنا زیبا نے انہیں بطور ہیرو آنے کا مشورہ دیا بعدازاں یہی مشورہ ان کے بچپن کے دوست پرویز ملک نے دیا حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے وحید مراد نے ایس ایم یوسف کی فلم ” اولاد” میں سپورٹنگ رول کیا ”اولاد” ناقدین کی طرف سے بہت زیادہ پسند کی گئی، اور سال کی سب سے بہترین فلم کے زمرے میں نگار ایوارڈ ملا .”ہیرا اور پتھر”وحید مراد کی پہلی فلم تھی جس میں انہوں نے بطور ہیرو کام کیا اس کی ہیروئین زیبا تھی اور اس فلم کے لیئے انہیں ‘نگار ایوارڈ’ بھی ملا۔انیس سو چھیاسٹھ میں وحید مراد نے پہلی دفعہ اپنی پروڈکشن کے بینر تلے بنی فلم ‘ارمان’ میں کام کیا۔ اس فلم نے باکس آفس کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ ”کو کو رینا”،”اکیلے نہ جانا”،” بیتاب ہو ادھر تم” اور ”زندگی اپنی تھی اب تک” جیسے گانے نوجوانوں بالخصوص لڑکیوں میں بے حد مقبول ہوئے یہ پاکستان کی پہلی پلاٹینم جوبلی فلم تھی اس فلم کی کامیابی نے وحید مراد کو اداکار سے سپر سٹار بنا دیااور ان کے کامیابی کے دروازے کھلتے گئے۔
فلمی صنعت کا 60 اور 70 کی دہائی کا یادگار دور چاکلیٹی ہیرو وحید مراد کے نام ہے اگر یوں کہا جائے کہ ان کی شخصیت فلم نگر کے لئے سحر انگیز تھی تو بے جا نہ ہوگا وحید مراد، پرویز ملک، مسرور انور، سہیل رانا، احمد رشدی اور زیبا کے کامیاب ملاپ نے” ہیرا اور پتھر”،” ارمان”، ”احسان”، ”دوراھا” اور ”جہاں تم وہاں ہم” جیسی بہترین اور کامیاب فلم بنائیںپھر اس ٹیم کو نظر بد کھا گئی اور یہ ٹیم اختلافات کا شکار ہوکربکھر گئی1969ء میںوحید نے فلم” اشارہ” بنائی، بیک وقت اس فلم کے ہیرو،یدایت کار،فلمساز،گلوکار اور مصنف بھی تھے یہ فلم نام رہی تھی یہی وہ فلم ہے جس میں وحید مراد نے پہلا اور آخری گیت گایاوحید مراد نے اپنے 25 سالہ کیریئر میں زیبا، شمیم آرا، رانی، نغمہ، عالیہ، سنگیتا، کویتا، آسیہ، شبنم، دیبا، بابرہ شریف، رخسانہ، نجمہ ،روزینہ ،بہار اور نیلو جیسی اداکاراؤں کے ساتھ فلموں میں جوڑی بنائی. انہوں نے کل 124 فلموں میں کام کیا جن میں 38 بلیک اینڈ وائٹ اور 86 رنگین فلموں ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے 6 فلموں میں بطور مہمان اداکار کام کیا، جن میں انکے کیریئر کی پہلی فلم ساتھی، جو 1959 میں ریلیز ہوئی تھی، بھی شامل ہے۔ انہوں نے 115 اردو فلموں، 8 پنجابی فلموں اور 1 پشتو فلم میں کام کیا، اور بطور بہترین پروڈیوسر اور بطور بہترین اداکار کے طور پر 32 فلم ایوارڈز حاصل کئے 2010 میںاس وقت کے صدر پاکستان آصف علی زرداری نے صدارتی ایوارڈ ”ستارہ امتیاز”’سے بھی نوازا گیا۔ یہ ایوارڈ انکی بیوہ سلمہ مراد نے حاصل کیا۔
وحید مراد کو نگار ایوارڈ،رومن ایوارڈ،گریجویٹ ایوارڈ،نور جہاں ایوارڈ،مصور ایوارڈ، لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ،سندھ عوامی ایوارڈ،پی آئی اے آرٹس اکیڈمی ایوارڈ،الفنکار ایوارڈ،شباب میموریل ایوارڈ، چترالی ایوارڈ،خلیل قیصر ایوارڈ،آغاز ایوارڈ، چمنستان انٹرنیشنل ایوارڈ، قومی ایوارڈ،ریاض شاہد ایوارڈ، نیشنل اکیڈمی ایوارڈ، ستارہ امتیاز لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازہ گیاہیرا اور پتھر،ارمان، دیور بھابی، دوراہا، انسانیت ، ماں باپ، نصیب اپنا اپنا ،انجمن ، جب جب پھول کھلے، پھول میرے گلشن کا ، نیند ہماری خواب تمہارے ،مستانہ ماہی، بہارو پھول برسائو، عشق میرا ناں، شمع، جب جب پھول، شبانہ، سہیلی، پرکھ اور خدا اور محبت جیسی لازوال فلموں میں معروف اداکاری کی،ہیرو اور زلزلہ ان کی وفات کے بعد ریلیز کی گئیں . زلزلہ تاہم باکس آفس پر ”زلزلہ”نہ لا سکی مگر” ہیرو” ان کی کامیاب فلموں میں سے ایک تھی.”ہیرو” میں وہ ”ہیرو” نظر آئے وحید مراد نے ”ہیرو” بنائی بھی ان لوگوں کے لئے تھی جو یہ سمجھتے تھے وحید اب ”ہیرو” نہیں رہے لیکن اس فلم میں انہوں نے ثابت کر دکھایا کہ وہ واقعی ”ہیرو” تھےوحید مراد پر 250 سے زیادہ اردو اور پنجابی گانے فلمائے گئے، ان میں وحید مراد کا اپنا گایا ہوا گانا ”جیسے تسے بیت گیا دن” فلم اشارہ کے لئے بھی شامل ہے۔
احمد رشدی، مہدی حسن، مسعود رانا، اے نیئر، مجیب عالم، اسد امانت علی خان، غلام عباس، رجب علی، اخلاق احمد، محبوب پرویز، منیر حسین، بشیر احمد، شوکت علی، امانت علی خان، غلام علی، رفیق چوہدری اور سلیم رضا نے مختلف فلموں میں وحید مراد کے لئے گایا تھا۔ احمد رشدی وہ واحد پلے بیک سنگر تھے جن کی آواز وحید مراد پہ خوب جچتی تھی ان دونوں کی جوڑی قابل رشک تھی اور دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم بن گئے احمد رشدی کے گائے ہوئے 140نغمے وحید مراد پہ فلمائے گئے اور ان میں سے اکثر مقبول عام ہوئے وحید مراد پہ پکچرائز ہونے والا پہلا گیت ”مجھے تم سے محبت ہے ”جو فلم ”ہیرا اور پتھر” کے لئے تھا وہ بھی رشدی ہی کا تھا حسن اتفاق دیکھئے رشدی کا آخری گیت ” بن کے مصرع غزل کا چلی آئو ناں ”وحید مراد پہ فلمایا گیا جوفلم”ہیرو” کے لئے تھا اس فلم میں ان کا ڈبل رول تھا اور عادل مراد نے بطور چائلڈ سٹار پہلی بار اسی فلم میں رول کیا تھا اس فلم کے پروڈیوسر بھی خود تھے مہدی حسن نے وحید مرادکے لئے مختلف فلموں میں 68 انفرادی گانے اور دوگانے گائے۔جو عوام میںبے حد مقبول ہوئے،مسعود رانا نے مختلف فلموں میں وحید کے لئے 25 گانے گا ئے ۔اے نئیر نے وحید کے لئے کل 15 انفرادی و دوگانے گئے۔
وحید مراد کے انتقال کے بعد ریلیز ہونے والی اردو فلم ”زلزلہ”کے لئے اے نیئرکاگانا” میں ہوں پیار کا دیوانہ” وحید مراد پہ فلمایا گیامجیب عالم اور اسد امانت علی نے وحید کے لئے 4چار چار گیت گائے اخلاق احمدکے 3،غلام عباس کے 2،محبوب پرویزکے2،منیر حسین کے2، رجب علی کا ایک گیت ” مستانہ ماہی ”کے لئے ”ایناں پھل کلیاں دی محفل وِچ ”وحید مراد پہ پکچرائز ہوئے ”مستانہ ماہی” ان کی پہلی پنجابی فلم تھی جس میں ان کا ڈبل رول تھا عالیہ اور نغمہ ان کی ہیروئین تھی اس فلم کے فلم ساز بھی خود تھے یہ ایک سپر ہٹ فلم تھی ”سیونی میرا ماہی میرے بھاگ جگاون آیاگیا ” میڈم نور جہاں کا ایک شاہکار گیت تھا جو آج بھی روز اول کی طرح مقبول عام ہے ان کی پروڈکشن میں بننے والی اردو فلم ”اشارہ” میں ایک گانا ”جیسے تیسے بیت گیا”وحید مراد نے اداکارہ دیبا کے ساتھ گایا تھا۔
ستر کی دہائی کا اختتام وحید مراد کے کیریئر کو بھی اختتام کی جانب لے گیا۔ پہلے زیبا، نشو، شبنم اور دوسری بڑی ہیروئنز نے کام کرنے سے انکار کیا۔ پھر وحید مرادکو ندیم اور محمد علی کے ساتھ بطور معاون ہیرو کام کرنے پر مجبورکر دیا گیا۔ہر طرف سے مایوسی کے بعد وحید مراد نے پشتو فلموں میں بھی قسمت آزمائی کی، یہ چانس انہیں ان کے ڈرائیوراور پشتو فلموں کے ہیرو بدر منیر نے دیاتھا وحید مراد 23 نومبر 1983 کو اپنے بیڈ روم میں مردہ پائے گئے۔وحید گلبرگ قبرستان، علی زیب روڈ، لاہور میں اپنے والد کی قبر کے قریب دفن کئے گئے۔وحید مراد کی موت کے کئی برسوں بعدآج بھی ان کے پرستارموجود ہیں ان کے نام کے فین کلب بنا رکھے ہیںیہ بھی حقیقت ہے کہ ان کے مداحوں کی جتنی بڑی تعداد آج بھی پاکستان میں موجود ہے وہ کسی اور ہیرو کو نصیب نہیں ہوسکی۔ ان کی فلموں کو آج بھی بار بار فلم فیسٹیول، سینما گھروں اور ٹی وی پر دکھایا جاتا ہے۔