کرپشن کی جڑ

Pakistan Politics

Pakistan Politics

اسلام آباد کی بارشوں نے جہاں درختوں کے پتوں کو دھو دیا ہے وہی پر ہمارے حکمرانوں کے منہ پر لگے ہوئے عوامی خدمت کے میک اپ کو بھی دھو دیا ہے ابھی تو حکومت کے 100 دن پورے ہوئے ہیں اور عوام کو دن میں بھی ستارے نظر آنا شروع ہو گئے ہیں ہر چیز ٹیکسوں کی نظر ہو رہی ہے جبکہ باہر سے آنے والی امداد بھی عوام کے نام پر کی جا رہی ہے۔

اب تو یہ دور آگیا ہے کہ ایک غریب انسان کے گھر کا چولہا جلنا مشکل ہے پہلے دور تھا کہ ایک مجبور انسان پورا دن محنت مزدروری کرکے شام کو اگلے پورے دن کا راشن گھر میں لے جاکربے فکر ہو کر سو جاتا تھا کیونکہ اسے کم از کم یہ تو معلوم تھا کہ اگلے دن گھر کا چولہا جل جائیگا مگر اب حالات یہ ہوگئے ہیں کہ جو مزدور پورے دن کا راشن خریدتا تھا اب وہ صرف ایک وقت کی خریداری پر مجبور ہو چکا ہے بے روزگاری کا یہ عالم ہے کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے نوجوان روزگار کے لیے دربدر پھر رہے ہیں اور جو بیچارے مزدور پیشہ افراد ہیں انکا تو حال بہت ہی برا ہو چکا ہے۔

لاہور جیسے بڑے شہر میں جہاں درباروں اور مزاروں کی کمی نہیں ہے اور یہاںپر دور دراز سے آئے ہوئے مزدور پیشہ افراد کو کھانے کی فکر نہیں ہوتی تھی مگر اب یہاںپر بھی بے گھر اور بے روزگاروں کو روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں انڈسٹری بند ہونے سے مخیر حضرات نے بھی اب درباروں پر آنا چھوڑ دیا ہے جسکی وجہ سے لنگر تقسیم کرنے والے اور لنگر کھانے والے دونوں امیدکی سولی پر لٹکے ہوئے ہیں۔

داتا دربار کے اسی چوک بھاٹی گیٹ میں شہباز شریف نے پٹواریوں اور کلرکوں کے ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ علی بابا اور چالیس چوروں نے ملک کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا ہے اگر مجھے موقعہ ملا تو ان سب کو سڑک پر گھسیٹوں گا مگر انکی یہ بات بھی باقی سب باتوں کی طرح آئی گئی ہوگئی اور الٹا مرکز اور پنجاب میں کرپشن کی نئی داستانیں رقم کی جارہی ہیں غریب کی زندگی کو اسکے جیتے جی جہنم کا نمونہ بنا دیا گیا ہے اسی لیے تو ملک میںآئے روز خودکشیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

Corruption

Corruption

غربت کے ہاتھوں لوگ اپنے بچے مار رہے ہیں جبکہ ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو پیسے کے ہاتھوں مجبور ہو کرجرائم کر رہے ہیں اور ان میں شاہ زیب جیسے معصوم بچے بھی شامل ہیں جو ان درندوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں اور پھر وہی قاتل حکومتی سرپرستی میں وکٹری کا نشان بناتے ہوئے عدالت سے باہر نکلتے ہیںجیسے انہوں نے کشمیر کو آزادی دلادی ہو یہ سب پیسے کی غیر منصفانہ تقسیم کے سبب ہی ہو رہا ہے جس معاشرہ میں امیر کرپشن کے زریعے امیر تر بنتا جائے اور غریب اپنی محنت مزدوری سے دو وقت کی روٹی بھی نہ کھا سکے اور حکمران ایک دوسرے کو گھسیٹنے کی باتیں کر رہے ہوں۔

وہاں پر ایسے کام روز کا معمول بن جاتے ہیں سب سے پہلے تو کرپشن سے حکمران اپنے آپ کو پاک کریں اسکے بعد کسی اور کو گھسیٹنے کی بات کریں جہاں اپنے دامن میں سو چھید ہوں وہاں کسی اور کو کیا نصیحت کی جاسکتی ہے اور نہ ہی ایسی نصیحت کا کوئی کسی پر اثر ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آج ملک کا کوئی ادارہ کوئی افسر ایسا نہیں جو کسی نہ کسی انداز میں کرپشن کی بہتی گنگا میں ہاتھ نہیں دھو رہا اور تو اور ملک کے ترقیاتی کاموں میں آنے والے بجٹ میں سے حصہ اس دیدہ دلیری سے لے لیا جاتا ہے کہ جیسے یہ ان کے داد جی کا مال ہو اور پھر باقی کے رہے سہے پیسوں میں سے متعلقہ محکمہ کے افسران اور پھر ٹھیکیدار وغیرہ بھی اسی مال میں سے اپنا حصہ گدوں کی طرح نوچ نوچ کر کھاتے ہیں اور مجال ہے کہ کوئی ادارہ کوئی فرد انکی اس بندر بانٹ کو روک سکے۔

یہی وجہ ہے کہ حکمرانوں کی اسی لوٹ مار کی پالیسیوں کی وجہ سے عوام میں جو ایمانداری تھی وہ بھی ختم ہوتی جارہی ہے اور اب ہم بطور قوم مجموعی اس ڈگر پر چل نکلے ہیں جو راستہ سیدھا ہماری تباہی کی طرف جاتا ہے ہم اپنے مخالفوں کو کچلنے کے لیے ہر طرح کا سہارا لے رہے ہیں اور اس کے لیے ہمیں بے شک کسی بھی حد تک جانا پڑے بے دریغ چلے جاتے ہیں اور تو اور ہم جیسے لکھنے والے اب اپنی مرضی سے لکھ بھی نہیں سکتے کیونکہ ہر ادارے کی کسی نہ کسی سے وابستگی ہوتی ہے۔

جہاں سے اسے مفادات نظر آرہے ہوتے ہیں اور اکثر ہمارے لکھے ہوئے کو ناقابل اشاعت قرار دے دیا جاتا ہے کیونکہ ہم نے ہمیشہ کرپشن کو جڑ سے ختم کرنے کی بات کی ہے اور جڑ ہمیشہ کسی نہ کسی سیاستدان کے گھر میں ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ آج ہم جیسے معاشی لحاظ سے بہت پیچھے کھڑے ہیں جبکہ قصیدے لکھنے والے ہر دور میں حکمرانوں کے کار خاص بنے رہے اور آج کے پاکستان میں ان سے بڑا نہ کوئی دانشور ہے اور نہ ہی کوئی طاقتور۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر : روہیل اکبر
03466444144