تحریر : آصف نوید پہلی کہانی:۔ یہ شہر کے ایک مصروف بازار کا منظر تھا۔ لوگ اپنی اپنی خریدی میں لگے ہوئے تھے کہ اچانک ڈھول بجنے کی آواز آئی جس نے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ ڈھول بجانے والوں نے اعلان کیا کہ صبح کے وقت ایک کالا چمڑے کا بٹوہ جس میں پانچ سوشکنگ اور کاروباری کاغذات تھے سڑک پر گم ہو گیا ہے۔اگر کسی کو ملے تو میئر کے دفتر یا اسکے مالک پبلک ہال کے محافظ مسٹر جیمز کو واپس کر دے اور بیس شلنگ کا انعام حاصل کرے۔کچھ دیر کے بعد لوگوں نے پولیس چیف کو شہر کے بڑے ہال میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا۔ اس نے پوچھا کہ مسٹر ہیوبرٹ کہاں پر ملے گا؟۔ مسٹر ہیوبرٹ نے خود جواب دیا کہ وہ میز کے کونے پر موجود ہے۔
پولیس چیف نے اسے حراست میں لے لیا اور اسے میئر کے پاس اسکے دفتر میں لے گیاجو کہ بے چینی کے ساتھ مسٹرہیوبرٹ کا انتظار کر رہا تھا۔میئر نے ہیوبرٹ سے کہا کہ تمہیں مسٹر جیمز کا بٹوہ اٹھاتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ اس الزام پر ہیوبرٹ کا چہرہ غصے سے لال ہو گیا اورکہا کہ مجھ پر یہ الزام جھوٹا ہے۔ میئر نے کہا کہ گھوڑے کے نگران نے اسے ایسا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
ہیوبرٹ نے جیب سے رسی کا ایک ٹکڑا نکالااور کہا کہ حقیقت میں اس نے یہ رسی کا ٹکڑا اٹھایا تھا۔ اس نے اپنے خلاف چوری کے الزام اور اپنی شہرت کو نقصان پہنچانے کے خلاف شدید احتجاج کیا لیکن کسی نے بھی اس کی بات پر یقین نہ کیا۔ ہیوبرٹ اور میئر ایک دوسرے کے خلاف ایک گھنٹہ تک سخت الفاظ کا تبادلہ کرتے رہے۔
Corruption
تب ہیوبرٹ نے درخواست کی کہ اس کی تلاشی لی جائے۔ اس کی تلاشی لی گئی لیکن اس کے پاس کچھ نہ ملا تو میئر نے اسے چھوڑ دیا۔ لیکن اسے خبردار کیا کہ وہ حکومتی وکیل سے مزید احکام کے لئے مشورہ کرے گا۔ لوگوں نے بٹوے کی گمشدگی میں ہیوبرٹ سے اسکے کردار کے بارے میں سوالات کیے۔ اس نے انہیں بتایا کہ اس نے سٹرک سے صرف رسی کا ایک ٹکڑا اٹھایا تھا نہ کہ بٹوہ۔ اس نے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لئے اپنی جیب الٹ دی کسی نے بھی اس پر اعتبار /یقین نہ کیا بلکہ لوگوں نے اسکا مذاق اڑانا شروع کر دیا۔ اس بات نے اسے بیمار کر دیا۔ ہیوبرٹ کی حراست اور بری ہونے کے عین دوسرے دن جورج نامی شخص سامنے آیا اس نے جیمز کا بٹوہ اس میں اشیاء سمیت واپس کر دیا۔
اس نے دوسروں کو بتایا کہ اسے یہ بٹوہ گائوں کے بازار کو جانے والی سٹرک سے ملاتھا وہ اس میں موجود کاغذات کو پڑھ نہیں سکتا تھا لہذا اس نے یہ اپنے مالک کو دے دیا تھا۔ جورج کی جیمز کو بٹوہ واپس کرنے کی خبر آگ کی طرح پھیل گئی۔ ہیوبرٹ کو بھی اس بارے میں علم ہوا جس پروہ بہت خوش ہوا۔ صورت حال کی ستم ظریفی یہ تھی کہ اب بھی ہیوبرٹ کی اپنے دفاع کی امید غلط تھی۔ اس نے امید کی کہ اس کی خراب شہرت بحال ہو جائے گی مگر اس کا اندازہ غلط ثابت ہوا۔
ہیوبرٹ اپنے آپ میں بہت شرمندہ تھا کیونکہ اسکا کردار دوسروں کی نگاہوں میں گر گیا تھا وہ کمزور اور دبلا ہو تا چلا گیا۔ لوگوں نے اس کے سڑک سے رسی کے ٹکڑے کے اٹھانے کا بھی مذاق اڑانا شروع کر دیا۔ اس نے یہ سب دل سے لگا لیا۔ مہینے کے آخر میں وہ شدید بیمار ہو گیا اور جلد ہی مر گیا لیکن اپنی بیماری کے دوران مرنے سے پہلے وہ یہ دہراتے ہوئے اپنا دفاع کرتا رہا ، رسی کا ایک ٹکڑا، رسی کا ٹکڑا اپنی عزت کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے جھوٹ نہیں بولا۔ آخر میں ہیوبرٹ کے گائوں میں ایک بڑا سیلاب آیا اس نے سارے گائوں کو تباہ کر دیا تا ہم ہیوبرٹ کی قبر متاثر نہ ہو سکی۔ اس کے کتبے پر لکھا ہوا تھا یہاں وہ شخص لیٹا ہوا ہے جس نے صرف سچ بولا۔ یہاں وہ شخص لیٹا ہے جو اپنی بے گناہی ثابت نہ کر سکا لیکن سیلاب نے ثابت کر دیا۔
دوسری کہانی:۔ سال 2016 جگہ پاکستان۔ پانامہ پیپرز کی جانب سے پاکستان کے تمام شریفوں ، نیازیوں، ترینوں، خانوں،ان کی اولادوں، بیویوں، رشتے داروں کے نام سامنے آتے ہیں۔ اربوں، کھربوں مالیت کے فلیٹ ، جائیدادیں، بے نامی کمپنیاں۔ بجائے شرم سے ڈوب مرنے کے اور قوم کو حساب دینے کے تمام کے تمام لوگوں نے اپنے اپنے درباریوں کے ذریعے اپنی اپنی کرپشن کو صاف و شفاف، قانونی ثابت کرنے کی کوششیں کرنے لگیں۔
Sharif Family
ایسا لگنا لگا کہ ملک میں صرف وہی عزت دار ہیں جن کا نام پانامہ لیکس کے ذریعے منظر عام پر آیا۔بجائے وضاحتیں دینے کے وائٹ کالر کرائم کرنے والے مختلف تاویلیں پیش کرنے لگے کہ میں نے فلاح فلاح ذریعے سے پیسے کمائے اور فلاح فلاح سال میں نے اتنا اتنا ٹیکس دیا۔ دوسرے کو ڈاکو اور اپنے آپ کو فرشتہ ثابت کرنے کی جتن کرتے دیکھائی دینے لگے۔ جن اداروں نے ملک میں کرپشن، بے ضابطگیوں کا کھوج لگانا اور ملوث لوگوں کو سزا دینی تھی انہوں نے سب کچھ سامنے آنے کے باوجود چپ شاہ کا روزہ رکھ لیا ہے۔
پاکستانی قوم کا کیا ہے وہ تو بچاری اتنی معصوم ہے کہ چوروں کو گلے لگاتے ہیں اور شریفوں کو دور بھاگتے ہیں۔ ہم بیس کروڑ لوگوں نے پاکستانی معاشرے میں کرپشن، چوری، سفارش کی بیماری کو قبول کر لیا ہے ہمیں اب قطعاً فرق نہیں پڑتا کہ ہمارے لیڈر چور ہیں، ڈاکو ہیں یا پھر فرشتے کیونکہ ہم خود بھی انہیں کی صف میں کھڑے ہیں ہمارا اپنا دامن بھی داغ دار ہے۔ہم خود بھی ڈاکو اور چور ہیں اور اپنے جیسوں کو ہی پسند کریں گے۔ پانامہ لیکس لیڈرز زندہ باد پاکستان پائندہ باد۔