روین شاکر کی یہ نظم ماں کی تما م خوبصورت جذبوںکی عکا س ہے کہ ماں بننے کے بعد ہی ماں کی محبت شفقت اور قربانیوں کا صیح اداراک ہو تا ہے
Posted on May 13, 2013 By Noman Webmaster سٹی نیوز
پروین شاکر کی یہ نظم ماں کی تمام خوبصورت جذبوںکی عکا س ہے کہ ماں بننے کے بعد ہی ماں کی محبت شفقت اور قربا نیوں کا صیح اداراک ہوتا ہے اک نئی زندگی کو جنم دینا اسے اپنے ہا تھوں میں پہلی بار اٹھا کر پیار کرنا ماں کے لیے دنیا کا سب سے قیمتی لمحہ ہوتا ہے جس دکھ وتکلیف کو جھیل کر وہ ماں بنتی ہے اللہ تعالی نے بطورانعام جنت اس کے قدموں میںرکھ دی ہما رے پیارے نبی صلی اللہ عیلہ وآلہ وسلم نے باپ کی نسبت تین گنا زیادہ حقوق ماں کو عطا دیے۔
ماں کو قدرت نے نجانے کون سی کیمسٹری سے بنایا ہے کہ وہ زندگی اپنی گزارتی ہے مگر عمر کی تمام سانسیں اپنے بچوں میں پیار منتقل کرتی رہتی ہے اس کا سونا ،جا گنا ،کھانا پینا ،اٹھنا بیٹھنا سب اولاد کے لیے ہوتا ہے وقت گزرنے کا ساتھ اپنی اولا دکے لیے اپنی چاہتیں ، محبتیں قربان کرتی ہے اپنے ہر عمل سے اپنی محبت کا اظہار کرتی ہے۔
یہ تمام جذبے آج کی ماں میں بھی مو جود ہے مگر آج ان ما ئوں کو خراج تحسین پیش کر نے کو جی چا ہتا ہے جنھوں نے اپنے بچوں کی بہترین پرورش ،تعلیم وتربیت پر اپنا تن من دھن وار کر انھیں اس مقا م پر پہنچا یا کہ وہ اپنے ملک وقوم کے لیے با عث فخر ہو گئے ہمیں بی اما ں جیسی ما وئں کی ضرورت ہے۔
جو مولانا محمد علی و شوکت علی جیسے بہا در فرزند قوم کو دیں ،علامہ اقبال کی بی جی جیسی ماں کی چاہت وتربیت چاہیے جو وطن عزیز کو لعل و گہر دے سکیں قائداعظم جیسی ذی وقا ر ، نڈر اپنے فیصلے پر ثابت قدم رہنے والا لیڈر عطا کر سکیں ایسی بصیرت افروز ماوئں کی جتنی ضرورت موجودہ دور میں ہے اتنی کسی ادوار میں نہیں تھی۔
آج کے دور میں ماوئں کی تر جیحات اور سوچ یکسر تبدیل ہو چکی ہے وہ یہ سوچتی ہیں کہ وہ گھر داری اور بچوں کی تربیت میں وقت گنواکر اپنی شخصیت تباہ کر رہی ہیں انھیں وہ تمام باتیں دقیا نوسی لگتی ہیں جب مائیں بچوں کو بڑوں کا احترام ، چھوٹو ںسے شفقت، تاریخ کی عظیم شخصیات کے قصے ، مذہب کی خوبیاں ،جھوٹ سچ اور بے ایمانی سے بچنے کی تر غیب دیا کرتی تھیں ان کے نزدیک یہ جنک فوڈ، موبائل فون ،انٹرنیٹ اور کیبل کا زمانہ ہے آج کادور بہت فاسٹ ہے۔
لیکن وہ یہ بھول گئیں کہ اس فاسٹ دور کی لگامیں آج بھی قانون قدرت کے ہا تھوں میں ہے ماہ سال میں کو ئی فرق نہیں ہوا دن آج بھی چوبیس گھنٹو ں کا ہے سورج آج بھی مشرق سے نکلتا ہے مغرب میں غروب ہو تاہے تو پھر ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ بچوں کی تربیبت ماں کے بجائے کیبل ،انٹرنیٹ کے ذریعے ہو ۔ما ں کی گود بہترین تر بیت گاہ ہے یہ اصول اٹل ہے ہما رے مشاہدے میں یہ با ت اکثر آتی ہے کہ جس گھر میں مائیں اپنے بچوں پر خصوصی توجہ دیتی ہیں۔
ان کے ہوم ورک سے لے کر دوستوں تک کی تمام با توں کی خبر رکھتی ہیں ان کی قدم قدم پر رہنما ئی کرتی ہیں وہ بچے زیادہ خود اعتماد اور کا میا ب ہو تے ہیں لیکن افسوس کہ ایسی مثالی خاندان میں کمی واقع ہوتی جا رہی ہے خرابی کی یہی جڑہے کہ ابلا غ کا عمل ختم ہوتا جا رہا ہے اکثر مائیں اولاد کی سر گرمیوں سے بے خبر بے فکر رہتی ہیں جس کی وجہ سے معاشرے میں برائیاں ، چوری ، اسٹریٹ کرائمز ، چھینا جھپٹی،ماردھاڑ کی بر ائیاں تیزی سے پھیلتی جا رہی ہیں۔
آج ہمارے ملک کو اچھے سیاست داںاور لیڈروں کی نہیں اچھی مائوں کی ضرورت ہے جو اس ملک کی آئندہ آنے والی نسلوں کو بہترین تعلیم تربیت دے سکے نپو لین بونا پارٹ نے کہا تھا کہ ” تم مجھے اچھی ما ئیں دو میں تمھیں بہترین قوم دوں گا ”آج مدرز ڈے پر تما م مائوں کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ انکے آنگن کے پھول قوم کا مستقبل ہیں انہیں خصوصی توجہ وتربیت کی اشد ضرورت ہے جس طرح ماں بننا اللہ تعالیٰ کا ایک انعام ہے اسی طرح اولاد کی پروررش و تر بیبت بھی ماں کے لیے ایک امتحان ہے۔