تحریر : ممتاز ملک اللہ نے مسلمانوں پر ماہ رمضان میں تیس روزے فرض کیئے. جو بنا کسی عذر کے کسی مسلمان پر بھی معاف نہیں ہیں. ہم بچوں کو بچپن سے ہی کچھ کچھ گھنٹوں کے چڑی روزہ سے اس بات کی تربیت دینے لگتے ہیں. اور یوں اکثر سات آٹھ سال کی عمر تک بچے بھی خوشی اور رغبت سے روزے کی عبادت میں شریک ہو جاتے ہیں.
روذے رکھنے کا جو مزہ رمضان کے مہینے میں ہے وہ لذت باقی سال کے مہینوں میں بمشکل ہی حاصل ہو پاتی ہے.اس کی وجہ وہ اجتماعی ماحول اور فضا ہوتی ہے جو ماہ رمضان ہی میں قائم ہو پاتی ہے. اسی لیئے اسلام میں اجتماعیت اور مل جل کر کام کرنے کو پسند کیا جاتا ہے. روزہ نہ رکھ سکنے میں بھی اللہ پاک نے مسلمانوں کو خاص مواقع پر چھوٹ دے رکھی ہے . جس میں انسان کی ہمت اور صحت کو خصوصی طور پر توجہ دی گئی ہے.
*جیسا کہ کسی خاص بیماری میں معالج نے آپ کو بھوکا پیاسا رہنے سے روک رکھا ہے . *حاملہ خواتین اور بچوں کو دودہ پلانے والی مائیں . *بزرگ افراد *شوگر اور دمے کے مریض * اسکول کالج جانے والے *دن بھی چل پھر کر.کام کرنے والے * وزن اٹھانے کا کام کرنے والے لوگ *دھوپ میں کام کرنے والے لوگ
اگر وہ اتنی ہمت اپنے اندر سمجھتے ہیں کہ وہ شدید گرمی اور لمبے دن کا روزہ اپنی صحت کو نقصان پہنچائے بنا رکھ سکتے ہیں تو ضرور رکھیں.
لیکن اگر اتنی لمبی بھوک پیاس ان کے لیئے ناقابل برداشت ہو جاتی ہے تو انہیں بعد کے مہینوں میں اس کی قضا کرنا ہی بہتر ہے . اور کسی کو رمضان میں کچھ کھاتے پیتے دیکھ لیں تو اس پر طنز و تشنع کے تیر چلانے کے بجائے یہ سمجھ لیں کہ اس کے اندر اتنے سخت روزے رکھنے کی ہمت نہیں ہے . سو بدگمانی کر کے اپنے روزے کو مکروہ ہونے اور ضائع ہونے سے بچایئے.
روزہ اگر ان وجوہات میں سے کسی وجہ سے نہیں رکھا جا سکا تو اس کے قضا *بعد میں گنتی پوری کر کے روزہ رکھنا یا *کسی بھی روزہ دار کو دو وقت کا سادہ پیٹ بھر کھانا ہے. اللہ کا دین بہت سادہ ہے. اس کے قوانین بھی بے حد سادہ ہیں. اسے پیچیدہ بنانے والوں سے بچ کر رہیں. یہ مبارک مہینہ ہمارے تزکیہ نفس کے لیئے آتا ہے تاکہ ہم سال بھر میں اپنے اندر پیدا ہو چکی ظاہری و باطنی برائیوں کی اصلاح کر سکیں . اور خود کو واپس اچھائی کےٹریک پرلا سکیں.
سو اس ماہ مبارک کا احترام یہ ہی ہے کہ خالص اللہ کی رضا کے لیئے دن بھر کی بھوک پیاس کو برداشت کریں . اس کی عبادات سے لطف اٹھائیں . اور اس کے انسانوں کے دکھ درد سے خود کو روشناس کرائیں . لوگوں کے دکھ درد میں حتی الامکان ان کے کام آنے کی کوشش کریں . اور اگر اس طرح کریں کہ ایک ہاتھ سے دیں تو دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہو تو یقین جایئے کیا ہی بات ہے.
اسی سے ہم اپنے روزے کی حفاظت بھی کر سکتے ہیں اور انسانیت کا احترام بھی. اب ہم پر منحصر ہے کہ ہم اپنی نیکی کو ایک تصویر میں قید کر دیں یا اسے پوشیدہ رکھ کر دو جہانوں کا اطمینان اور مسرت سمیٹ لیں.جزاک اللہ خیر