حکمرانی کے 2 سال

Imran Khan

Imran Khan

تحریر : پروفیسر مظہر

مارشلاؤں اور نام نہاد جمہوریتوں سے ڈَسی قوم نے تشکیک اور بے یقینی کے ماحول میں کپتان کو تازہ ہوا کا جھونکا جانا۔ اکتوبر 2011ء میں مینارِ پاکستان لاہور کے سائے تلے تحریکِ انصاف کے عظیم الشان” اکٹھ” کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا کہ کپتان سریح الفکر، صحیح النظر اور صاحبِ ادراک ہے۔ اُس کے اندر کچھ کر گزرنے کی اُمنگ جواں ہے جو قوم کی ہچکولے کھاتی نیّا کے پتوار سنبھال کر اُسے ساحل سے روشناس کرانے کی سکت رکھتاہے۔ عمومی خیال یہی تھا کہ بالآخر قوم کو ایک ایسا مسیحا مل گیا جس کے وجودسے ویران موسموں میں خزاں کی کوکھ سے وہ بہار جنم لے گی جس سے صحنِ چمن میں مرغانِ خوش الحان مدھر تانیں اُڑائیں گے اور بادِ نسیم وشمیم کے معطر جھونکوں سے صحنِ چمن مہک اُٹھے گا۔ قومی تخیل کی پرواز یکلخت آسمان کی رفعتوں کو چھونے لگی اور لوگ سہانے سپنوں کے محل تعمیر کرنے لگے۔ وہ جو ابرِنیساں کی آمد کے منتظر تھے، اُنہیں اُس وقت مایوسیوں کے پاتال کا سامنا کرنا پڑا جب کپتان نے وزارتِ عظمیٰ کا تاج سر پہ سجایا۔ تب سہانے سپنوں کے محل ریت کے گھروندوں میں ڈھلنے لگے۔ گزرتے وقت کے ساتھ بادِ سموم نے گلہائے نَو شگفتہ کو مرجھادیا۔ نفرتوں کی گھنگھور گھٹاؤں کا بسیراہوا اوردشنام طرازی فطرتوں کا جزوِ لاینفک بنی جس میں جھوٹ کا تڑکا الگ۔ ایک کروڑ نوکریوں کی جگہ لاکھوں بیروزگار ہوئے اور پچاس لاکھ گھروں کی نوید سنا کر تجاوزات کے بہانے کروڑوں بے گھر کیے گئے۔ مہنگائی کا عفریت کھُلا چھوڑ دیاگیااور شکم سیری کی دستیاب ہر شے دور بیٹھی مفلسوں کا مُنہ چڑانے لگی۔

اِن حالات میں بھی کشکول بدستوں کی ترجیحات ملاحظہ ہوں کہ لاہور کے ”جُڑواں شہر” کا افتتاح کر کے قوم کو ایک دفعہ پھر ”ٹرک کی بَتی” کے پیچھے لگانے کی سعی کی جارہی ہے۔ اِس پر معروف لکھاری حسن نثار کا تبصرہ بہت دلچسپ۔ فرمایا ”جو شہر چلانے سے قاصر ہوں، وہ شہر بنانے پر قادر کیسے؟”۔ حکومتی دو سالہ کارکردگی کو مدِنظر رکھتے ہوئے اِس جُڑواں شہر پر عوامی اعتبار کا یہ عالم کہ

تیرے وعدے پہ جیئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

معاش ومعیشت کی تباہی کو رکھیں ایک طرف کہ اِس کے لیے گھڑا گھڑایا بہانہ نوازلیگ اور پیپلزپارٹی کی کرپشن اور بَداعمالیوں کا، سوال یہ کہ کیااِن دو سالوں میں وزیرِاعظم کے قوم سے کیے گئے لاتعداد وعدوں میں سے کوئی ایک بھی ایفا ہوا؟۔ کیا ریاستِ مدینہ کی خشتِ اول رکھی جا چکی یا اِس پر بھی نوازلیگ، پیپلزپارٹی یا کوئی سیاسی ومذہبی جماعت رکاوٹ۔ سچ یہی کہ ”کپتانی حکومت” کی ابتداء ہی ٹیڑھی جس کا مآل

خِشتِ اوّل چوں نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کَج

(جب معمار پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی لگادے تو دیوار اگر ثریا تک بھی چلی جائے تو ٹیڑھی ہی ہوگی)

سُلگتا سوال یہ بھی کہ کیا کسی بھی اسلامی مملکت کے حکمرانوں کو قوم کے پیسوں سے گوردوارہ، چرچ یا مندر تعمیر کرنے کی اجازت ہے؟۔ پہلے کرتارپور گوردوارہ کی تعمیر اور تزئین وآرائش پر 17 ارب روپے صرف کیے گئے اور اب اسلام آباد میں قوم کی رگوں سے نچوڑے گئے لہو سے مندر کی تعمیر کے منصوبے۔ مکرر سوال یہ کہ کیا دینِ برحق اِس کی اجازت دیتاہے؟۔ فرمانِ ربی ہے ”جو کام نیکی اور خُداترسی کے ہیں، اُن میں سب سے تعاون کرو اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں، اُن میں کسی سے تعاون نہ کرو، اللہ سے ڈرو، اُس کی سزا سخت ہے” (المائدہ2 )۔ اب دیکھتے ہیں کہ وہ کونسا گناہ ہے جس پر ربِ لَم یَزل سب سے زیادہ غضب ناک ہوتاہے اور جس کی کوئی معافی نہیں۔ سورة النساء آیت 48 میں ارشاد ہوتاہے ”اللہ بس شرک ہی معاف نہیں کرتا، اِس کے ماسوا جتنے دوسرے گناہ ہیں، وہ جس کے لیے چاہتاہے، معاف کر دیتاہے۔ اللہ کے ساتھ جس نے کسی اور کو شریک ٹھہرایا، اُس نے بڑا جھوٹ تصنیف کیااور وہ بڑے سخت گناہ کی بات ہے”۔ فرقانِ حمید میں شرک کو ظلمِ عظیم کہا گیا اور اِس کی سزا ابدی جہنم قرار دی گئی۔ سورة الزمرآیت 65 میں یوں ارشاد ہوا ”اگر تونے شرک کیا تو بلاشبہ تیرا عمل ضائع ہو جائے گااور یقیناََ تو نقصان اُٹھانے والوں میں سے ہو جائے گا”۔ قُرآنِ حمید فرقانِ حمید میں شرک سے ممانعت کا 29 مرتبہ ذکر آیاہے جس کی روشنی میں بلاخوفِ تردید کہا جا سکتاہے کہ عظیم ترین گناہ رَبِ لم یزل کی ذات، صفات اور عبادات میں کسی دوسرے کو شریک ٹھہراناہے اور یہ تو ہر کہ ومہ جانتاہے کہ مندروں میں بُت پرستی کی جاتی ہے جو دینِ مبیں کے نزدیک شرکِ عظیم ہے۔ ایسے میں کسی مسلم ریاست کا حکمران عوام کے ٹیکسوں سے مندر کی تعمیر کے لیے کیسے رقم مختص کر سکتاہے؟۔

رَبِ کائینات کے حکم کے عین مطابق آئمہ اربعہ یعنی حضرت امام ابو حنیفہ ، حضرت امام مالک بِن انس، حضرت امام محمد بن ادریس شافعی اور حضرت امام احمد بن حنبل متفق ہیں کہ کسی اسلامی مملکت میں کوئی مسلمان نہ غیرمسلم عبادت گاہ تعمیر کر سکتاہے نہ اِس کی تعمیر میں جسمانی ومالی مدد کر سکتاہے اور نہ ہی عطیہ یا وصیت کر سکتاہے۔ اِس لیے کسی بھی اسلامی ملک کی حکومت کے لیے ایسی عبادت گاہ کی تعمیر حرام ہے۔ یہ بجا کہ پہلے سے تعمیرشدہ عبادت گاہوں کی حفاظت کی ذمہ داری مسلم حکمرانوں پر لیکن کسی بھی مسلم یا غیرمسلم کو ایسی عبادت گاہ کی توسیع تک کی بھی اجازت نہیں۔ رہا یہ سوال کہ ارضِ وطن کے غیرمسلم رہائشیوں کو وہی حقوق حاصل ہی جو ایک عام مسلم شہری کو ہیں تو عرض ہے کہ دین میں غیرمسلموں کے حقوق کی پاسداری کا حکم دیا گیاہے اِس لیے اُنہیں وہ تمام حقوق میسر ہوںگے جو ایک مسلم کو میسر ہیں سوائے عبادت گاہوں کی تعمیرکے۔ کیونکہ دین میں اِس کی ممانیت ہے اِس لیے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمرانوں پر بھی لازم ہے کہ وہ احکاماتِ الٰہی کی پابندی کریں۔

ہمارے محترم وزیرِاعظم جو ریاستِ مدینہ کی تشکیل کے دعویدار ہیں، اُنہیں اُن تمام اصول وضوابط کو مدِنظر رکھنا ہوگا جو فرمانِ الٰہی کے عین مطابق ہوں۔ یہ تو وزیرِاعظم جانتے ہی ہوںگے کہ اسلام میں عہد کی کیا اہمیت ہے۔ سورة بقر 177 میں ارشاد ہوا ” اور نیک لوگ وہ ہیں جو عہد کریں تو اُسے پوراکریں۔ سورة بنی اسرائیل آیت4 میں فرمایا ”اور وعدے کو پورا کرو یقیناََ عہد کے بارے میں بازپُرس ہوگی۔ سید سلیمان ندوی نے سیرت النبی میں لکھا ”اسلام میں عہد کی حقیقت بہت وسیع ہے۔ یہ اخلاق، معاشرت، مذہب اور معاملات کی ان تمام صورتوں پر مشتمل ہے جن کی پابندی انسان پر عقلاََ، شرعاََ، قانوناََ اور اخلاقاََ فرض ہے”۔ گویا عہد ہماری معاشی، معاشرتی، مذہبی اور سیاسی زندگی کے تمام پہلوؤں پر حاوی ہے اور جو اپنے عہد کی حفاظت نہیں کرتا ”اللہ قیامت کے روز اُن سے بات کرے گا نہ اُن کی طرف دیکھے گا اور نہ اُنہیں پاک کرے گا بلکہ اُن کے لیے سخت دردناک سزا ہے” (ال عمران 77)۔ اِس لیے ہماری ایٹمی پاکستان کے وزیرِاعظم محترم عمران خاں سے استدعا ہے کہ وہ قوم سے کیے گئے وعدوں کی پاسداری کریں۔

اُنہوں نے اپنے تازہ ترین انٹرویو میں فرمایا”میں نے دو پارٹی سسٹم کے بعد تحریکِ انصاف بنائی۔ جب کوشش کرتے ہیں تو اونچ نیچ سے خوف نہیں آتا۔ گزشتہ دو سالوں میں سمجھا کہ کس طرح کے چیلنجز تھے”۔ اب جبکہ وزیرِاعظم صاحب نے خود ہی اعتراف کر لیا کہ اُنہیں چیلنجز کو سمجھنے کے لیے دو سال لگ گئے تو قوم بھی اِن دو سالوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اُن سے یہ توقع کرتی ہے کہ اب جبکہ وہ چیلنجز کو جان چکے تو قوم سے کیے گئے عہد کی تکمیل بھی کریں گے۔

Prof Mazhar

Prof Mazhar

تحریر : پروفیسر مظہر