دنیا کو خوف اور ڈر میں مبتلا کرنے والہ ” کورونا وائرس ” ہے ۔کورونا وائرس میں جب ہم مسلمان مبتلا ہوئے تو ہم نے کہا ”خدا کی آزمائش ” اور جب یہود و نصریٰ اور کفار مرتے ہیں تو ہم کہتے ہیں اللہ کا عذاب ۔اسی طرح کچھ کہتے ہیں یہ بائیولوجیکل امریکہ نے اپنی لیب میں بنایا ہے کچھ دانشور اس کو چین کی لیب کا تحفہ قرار دیتے ہیں جو اس نے امریکہ کے لئے تیار کیا ہے۔ ابھی تک ریسرچ جاری ہے کہ یہ مصنوعی ہے یا قدرتی، ہمیں اس بحث سے لینا اور کیا دینا ہے؟۔یہ بات 90% درست ہے کہ اس کا معقول علاج یا ویکسین جب بھی دریافت ہوئی تو وہ غیر مسلم ملک ہی کرے گا! ایسا کیوں ہے؟
اس لئے کہ ہم نے تعلیم ” جس کو قوم کی آکسیجن oxygen کہا جاتا ہے اس سے منہ موڑ لیا ہے۔ حالانکہ تعلیم کی اہمیت ” دین اسلام ” میں روزِ روشن کی طرح عیاں ہے جیسا کہ ٭ایک حدیث کے راوی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہیں،وہ بیان کرتے ہیں:(ایک دن رسول اللہ ۖ اپنے حجرے سے باہر تشریف لائے اور مسجد (نبوی) میں داخل ہوے،وہاں دوحلقے بیٹھے ہوے تھے،ایک حلقہ قرآن کی تلاوت کررہا تھا اوراللہ سے دعاء کررہا تھا،دوسرا تعلیم وتعلم کا کام سرانجام دے رہا تھا۔ آپ ۖنے فرمایا: دونوں بھلائی پر ہیں۔ یہ حلقہ قرآن پڑھ رہا ہے اور اللہ سے دعاء کررہاہے۔ اللہ چاہے تو اس کی دعاء قبول فرمائے، یا نہ فرمائے۔دوسرا حلقہ تعلیم وتعلم میں مشغول ہے (یہ زیادہ بہتر ہے) اور میں تو( خاتم النبیین ۖ ) معلم بناکر بھیجا گیا ہوں۔ پھرآپ ۖ یہیں بیٹھ گئے۔)۔اس سے ہم نے کیا سبق سیکھا ہے؟
اہل علم کاصرف یہی مقام ومرتبہ نہیں ہے کہ اسے دنیا کی تمام چیزوں پر فضیلت دی گئی ہے اور اس کام میں وہ جب تک مصروف ہیں، اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق اس کے لیے دعاء کرتی رہتی ہے،بلکہ اس کا مقام ومرتبہ یہ بھی ہے کہ اللہ کے رسول نے انہیں انبیاء کا وارث اور جانشین قرار دیا ہے: دین فطرت یعنی اسلام نے ہمیں بتایا ہے کہ (جو کوئی حصول علم کی غرض سے راستہ طے کرے تو خدا اس کے سبب اسے جنت کی ایک راہ چلاتا ہے۔ فرشتے طالب علم کی خوشی کے لیے اپنے پر بچھادیتے ہیں اور یقینا عالم کے لیے آسمان اور زمین کی تمام چیزیں مغفرت طلب کرتی ہیں،یہاں تک کہ وہ مچھلیاں بھی جو پانی میں ہیں۔ عابد پر عالم کو ایسی فضیلت حاصل ہے جیسی چاند کو تمام تاروں پر۔بلاشبہ علماء ہی پیغمبروں کے وارث ہیں۔پیغمبروں نے ترکہ میں نہ دینار چھوڑا ہے اور نہ درہم۔ انہوں نے تو صرف علم کو اپنے ترکہ میں چھوڑا۔ پس جس کسی نے علم حاصل کیا اس نے ہی حصہ کامل پایا۔)
بات کوروناوائرس کی ہو رہی تھی کہ اس کا علاج یا ویکسین جب بھی ایجاد ہوگئی وہ مسلمان ملک کی بجائے غیر مسلم ملک کی کرے گا حالانہ تعلیم مسلمانوں کا ورثہ ہے مگر افسوس ہم نے تعلیم کی اہمیت کو وہ مقام نہیں دیا جس کا حق تھا۔
آج حکومت پاکستان نے ” کوروناوائرس ” سے بچاؤ کے لئے تعلیمی ادارے مکمل بند کئے ہوئے ہیں اور کوروناوائرس سے مکمل چھٹکارہ یا خاتمہ کے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔لیکن چند گزارشات ہیں کہ ہم کوروناوائرس کی موجودگی میں احتیاطی تدابیروں کے ساتھ تعلیمی اداروں کو کھولنا شروع کر دیں مجھے امید ہے ایسا کرنے سے کوروناوائرس سے نقصان نہیں ہوگا مثلاً٭جو پرائمری سکولز ہے وہاں صرف پنجم کلاس کو ایس او پیز کے ساتھ پڑھائی کی اجازت دی جائے ۔ دیکھنا دس پندہ دن کے وقفہ سے جب کوئی بھی کوروناوائرس میں مبتلانہیں ہوگا تو آپ نے پنجم جماعت کے ساتھ کلاس چہارم کو بھی اجازت دے دینی ہے۔ میڈل سکولز کو کلاس آتٹھویں بلا کر پڑھانے کی اجازت دی جائے اور ہائی سکولز میں بورڈز کی کلاسوں کو ایس او پیز کے تحت پڑھائی شروع کروا دینی چاہیے۔ اور وہ غیر سرکاری تعلیمی ادارے جن کے پاس کشادہ بلڈنگ اور کوروناوائرس ایس او پیز کی یقین دہانی ہو جائے انہیں بھی ایک ایک سینئر کلاس کی پڑھائی کی اجازت دے دینی چاہیے۔
خدا نہ کرے اگر ایسا کرنے سے کوروناوائرس زیادہ پھیلتا نظر آئے ( ایسا ہوگا نہیں ان شاء اللہ ) تو پھر سکولز دوبارہ بند کئے جا سکتے ہیں۔
پالیسی ساز سمجھ رہے ہیں کہ سکولز بند کر کے ہم ” بچوں اور معلموں ” کو کوروناوائرس سے بچا رہے ہیں حالانہ دینی مدارس کے بچوں کی پڑھائی زیادہ نہیں تو 50 جاری ہے۔ اور جہاں تک سکولز کے بچوں کی بات ہے وہ بھی 50 ٹیوشن سنٹرز میں ہوتے ہیں شریف اور بے بس والدین بچوں کی شرارتوں اور فرمائشوں کی بدولت ٹیوشن سنٹرز میں بھیج دیتے ہیں۔ اور جو 50 مدارس اور ٹیوشن سنٹرز نہیں جاتے ان میں جو امیر گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں وہ بازاروں میں آوارہ گردی جبکہ غریبوں اور سفید پوشوں کے بچے محنت مزدوری دکانوں ورکشاپوں مکینکوں کے پاس کام کر کے اپنا اور اپنے والدین کے پیٹ کا دوزخ بھرتے ہیں!
٭ اگر حکمران سمجھتے ہیں کہ تعلیمی ادارے حفظانِ صحت یا ایس او پیز پر عمل نہیں کریں گئے تو انتظامیہ متعلقہ ڈپٹی کمشنر AC ایجوکیشن آفیسرز کو متحرک کیا جائے اور چھاپوں کا لائحہ عمل مرتب کیا جائے ۔ چھاپوں کے عمل سے عوام طالب علم معلم اور والدین بھی مطمن ہو جائیں گئے۔ اور سکولز بھی لاپروائی کے مرتب نہیں ہونگے اور جو عادتاً ایس او پیز پر عمل نہیں کریں گئے قانونی کاروائی (جس میں سکول کو سیلڈ کرنا ، ایف آئی آر اور بھاری جرمانہ شامل ہو) بلا تفریق کی جائے ٭ اس نیک اور صدقہ جاریہ والے کام کو ہر صورت 15 اگست سے شروع کر دینا چایئے