کیوں کرتے ہو ایسا

IT Companies

IT Companies

تحریر : مسز جمشید خاکوانی

سندھ کے ایک سابق ڈی جی پارکس کے گھر سے خزانہ برامد ہوا جس میں ہیرے جواہرات ،سونے کے زیورات ،لگژری گاڑیاں ،گھڑیاں سونے کے کف لنکس محل نما گھر ،تین تین مرحلے پر بنے واش روم جن میں سونے کے کموڈ نصب تھے واضح رہے یہ ایک سابق مشر کا خزانہ ہے اور جو حکومت میں سالوں ڈٹے رہے ہیں ان کے خزانوں کا کیا حال ہوگا یہ سمجھنے کے لیے زیادہ عقل مند ہونا شرط نہیں بس احساس کا زندہ ہونا ضروری ہے بد قسمتی سے احساس ہی مر چکا ہے ورنہ ایک ماں کی گود میں سسک سسک کر مرتے بچے کو دیکھ کر بے حس سے بے حس آدمی بھی ہل کر رہ گیا ہوگا یہ وہ صوبہ ہے جہاں آج بھی غلاموں نے بھٹو کو زندہ رکھا ہوا ہے نام نہاد شہیدوں کے چمچماتے مقبروں کے والی وارث ویسے تو چالیس سال سے لیکن گذشتہ بارہ سالوں سے مسلسل حکمرانی کے مزے لوٹ رہے ہیں اٹھاروئں ترمیم کے بعد جس طرح ملکی وسائل کو لوٹا گیا اس کی مثال نہیں ملتی دولت صرف حکمران طبقے کی تجوریوں تک محدود ہو گئی ہے اور سندھ کے عوام آئے دن اپنے بچوں کی لاشیں دفنا رہے ہیں جو کبھی بھوک سے مرتے ہیں تو کبھی ویکسین نہ ملنے سے دم توڑ جاتے ہیں لیکن حرام ہے جو ان زرداروں کو ذرا بھی شرم آئی ہو الٹا انتقام انتقام چلاتے رہتے ہیں ارے بھئی اس قدر مال برامد ہونے کے بعد بھی کوئی گنجائش رہ جاتی ہے؟

اب یہ ہیروئن کی پڑی تو تھی نہیں جو پولیس والے نے چپکے سے جیب میں رکھ دی ہو سوا لاکھ تنخواہ پانے والا آسودگی سے روٹی تو کھا سکتا ہے اتنا خزانہ نہیں بنا سکتا جس میں سے بقول لیاقت قائم خانی کے وہ اور سیاست دانوں کو بھی حصہ دیتا رہا ہے یہی دولت اس ملک صوبے اور غریب عوام پر لگاتے تو ملک خوشحال ہوتا دنیا ہم پر ہنستی تو ناں کہ اتنے مال کے باوجود لوگ بھوک سے اور بغیر علاج کے مر رہے ہیں وہ کیا سفارت کاری کریں جو پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو پتھر کے ہو جاتے ہیں کس کس تباہی کو ڈیفینڈ کریں قوم مذہب سے ہے ،مذہب جو نہیں تم بھی نہیں ،ربط باہم جو نہیں ،محفل انجم بھی نہیں ،کیا کمال شاعری ہے علامہ اقبال کی ،ان لٹیروں ،خزانہ خوروں کو تو ان الفاظ سے دور کا واسطہ بھی نہ ہوگا کیونکہ مذہب بھی اب سیاسی ہو چکا ہے تحفظ ناموس رسالت رسیدوں پر لکھ کر چندہ لیا جا رہا ہے جن کو اسلا آباد فتح کرنا ہے تاکہ چھپے ہوئے خزانوں کا تحفظ کیا جا سکے اللہ کے بندو کیوں کرتے ہو ایسا ؟دنیا کہاں سے کہاں پنچ چکی ہے۔

دنیا میں اس وقت چار بڑی عالمی آئی ٹی کمپنیاں ہیں ،گوگل ،ایپل ،فیس بک اور ایمیزون،یہ چاروں کمپنیاں دنیا بھر میں چھائی ہوئی ہیں یہ بگ فور کے نام سے جانی جاتی ہیں اور ان کمپنیوں کا کل معاشی حجم دنیا کے ایک سو بائیس ممالک کے سالانہ جی ڈی پی سے بھی زیادہ ہے ہم میں سے اکثر گوگل ،ایپل ،فیس بک سے واقف ہیں ہم روزانہ گوگل کی ویب سائٹس اس کی ای میل اور مختلف ایپلی کیشنز استعمال کرتے ہیں۔

بس ہماری معلومات یہاں تک محدود ہیں گوگل پر سرچ کر لیا ،فیس بک پربحث مباحثہ کر لیا یا دھڑا دھڑ ایک ایک کو لعنتیں دے لیں آئی فون کا استعمال بھی سٹیٹس سمبل کے طور پر ہوتا ہے لیکن ہم ایمیزون کو نہیں جانتے محترم عمار چودھری نے اس کے بارے میں بڑی تفصیل سے لکھا ہے کہ لوگ ایمیزون سے واقف ہیں وہ بھی اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے کیونکہ ایمیزون پاکستان میں آپریٹ ہی نہیں کرتا جبکہ بھارتی شہر حیدر آباد میں ایمیزون کی امریکہ سے باہر تین ہفتے قبل سب سے بڑی عمارت کا افتتاح ہوا ہے جو ساڑھے نو ایکڑ یا اٹھارہ لاکھ مربع فٹ پر کھڑی ہے تین سو فٹ بلند یہ عمارت پندرہ ہزار ملازمین کی گنجائش رکھتی ہے اس میں کل انچاس لفٹس ہیں جو ایک سیکنڈ فی منزل کی رفتار سے۔

بیک وقت 972لوگوں کو لے جانے کی گنجائش رکھتی ہیں 39ماہ میں تعمیر ہونے والی اس عمارت میں روزانہ دو ہزار سے زائد مزدوروں نے حصہ لیا ایمیزون کے علاوہ گوگل ،ایپل اور فیس بک اور دنیا کی دیگر بڑی کمپنیوں کے علاقائی مرکزی دفاتر بھی حیدر آباد ہی میں قائم ہیں اس عمارت کے بعد گوگل بھی امریکہ سے باہر اپنا دفتر حیدر آباد میں بنانے والا ہے جس سے بھارت کے آئی ٹی کے شعبے میں زبردست ہلچل مچ جائے گی ہزاروں بلکہ لاکھوں نوکریاں پیدا ہونگی اور بھارت کا زر مبادلہ اربوں ڈالر بڑھ جائے گا (جس کے بعد بھارت پھر چندرما کے پیچھے چل پڑے گا )بنیادی طور پر ایمیزون 1996ایک آن لائن بک سٹور کے طور پر ایک امریکی شہری جیف بیزوس نے لانچ کیا جس کی شروعات اس نے اپنے گھر کے گیراج میں رکھے تین کمپیوٹرز سے کیں جیف کے والد نے جیف کو ابتدائی سرمایہ کاری کے لیے تین لاکھ ڈالر دیتے ہوئے جیف کی ماں سے پوچھا کہ انٹر نیٹ کیا ہوتا ہے جیف کی ماں نے کہا ہم یہ پیسہ انٹر نیٹ پر نہیں اپنے بیٹے کے اعتماد پر لگا رہے ہیں۔

جیف کے والدین کمپنی میں چھ فیصد کے مالک تھے 2000میں کمپنی کے عروج کے باعث ارب پتی بن گئے ابتدا میں جیف گھٹنوں کے بل بیٹھ کر کتابوں کے پیکٹ بناتا اور خود کوریئرکمپنی کے دفاتر تک پہنچاتا (ایسے ہی لوگ ترقی کرتے ہیں اس کو ورثے میں سیاسی پارٹی ملی ہوتی تو وہ کہتا بارش زیادہ ہوتی ہے تو پانی زیادہ آتا ہے اور بارش اور زیادہ ہوتی ہے تو پانی اور زیادہ آتا ہے )ایمیزون کے لیے ٹرننگ پوائنٹ 2007میں اس وقت آیا جب جب ایمیزون نے کنڈل سافٹ ویر لانچ کیا اس سافٹ ویئر کے ذریعے کتابیں ڈائون لوڈ کر کے موبائل ،کمپیوٹر اور ٹیب میں بھی پڑھی جا سکتی تھیں کنڈل کے لانچ ہوتے ہی چھ گھنٹے میں اس کا سارا ریکارڈ فروخت ہو گیا اس کہانی میں سب سے دلچسپ بات یہی تھی جس کی وجہ سے میں نے اس کو لکھا 2007مئی میں میرا بیٹا غلام اسحاق انسٹیٹیوٹ میں پڑھ رہا تھا کتابیں پڑھنے کا اسے بہت شوق ہے ساری گاڑی کتابوں سے بھری ہوتی گھر میں بھی ہر جگہ کتابیں ہی کتابیں شوق تو یہ بہت اچھا ہے مگر ٹیب پر آنے سے بہت بڑا مسلہ حل ہو گیا اب کتابوں کے انبار کہیں نظر نہیں آتے۔

کنڈل ریڈر کے زریعے ایمیزون نے امریکہ کے پچانوے فیصد ای ریڈرزشیئر پر قبضہ کر لیا یہ کمپنی اتنی تیزی سے اٹھی کہ 1996میں تین لوگوں سے شروع ہونے والی کمپنی میں پانچ لاکھ چھیاسٹھ ہزار ملازمین ہیں اور جیف بیزوس 112بلین ڈالر کے ساتھ دنیا کے سب سے امیر آدمی بن چکے ہیں ایمیزون کے اس وقت پوری دنیا میں سولہ کروڑ کسٹمر ہیں جیف کی کمپنی واحد کمپنی ہے جو زیرو مارکیٹنگ بجٹ کے ساتھ اس مقام تک پہنچی ہے جیف نے خریداری کو اتنا آسان بنا دیا کہ لوگ دیگر آن لائن سٹورز چھوڑ کر ایمیزون پر آ گئے یہاں انہیں آرڈر کرنے میں کم وقت لگتا اور آرڈر بروقت ملتا گذشتہ دنوں جیف بیزوسکی آمدنی کی تفصیل شائع ہوئی اس کی آمدنی میں ستر کروڑ روپے فی گھنٹہ کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے یہ یومیہ سولہ ارب اور ماہانہ پانچ کھرب بنتے ہیں اس حساب سے جیف بیزوس سالانہ ساٹھ کھرب کما رہا ہے۔

محترم عمار چودھری کے مطابق ہماری باسٹھ فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جو آئی ٹی کا بہترین استعمال جانتے ہیں تو کیوں ہم آج تک آئی ٹی پالیسی نہیں بنا سکے اب تو یہاں دہشت گردی بھی ختم ہو چکی ہے ٹیلنٹ کی بھی کمی نہیں حکومت کو اس طرف بھر پور توجہ دینی چاہیے

Mrs Khakwani

Mrs Khakwani

تحریر : مسز جمشید خاکوانی