تحریر : تنویر احمد ایک ایسے وقت میں جبکہ ملک میں انتخابات کا بخار عروج پر ہے اور ہرپارٹی اپنے تئیں انقلابی پارٹی کا کردار ادا کرنے کی دویدار بن کر بظاہر بڑے انقلابی منشور سامنے لارہی ہے، پارٹی لیڈرز بھی بڑے دھواں دھار اعلانات اور وعدے پر وعدے کررہے یں،کوئی تبدیلی کے جھکڑ چلانے کا مدعی ہے تو کوئی نظام بدلنے کا داعی ہے، کوئی ترقی و معیشت کے لیے زمین و آسمان کے قلابے ملا رہا ہے تو کوئی غربت و مہنگائی اور دہشت گردی کو بیک جنبش قلم ختم کرنے کا عزم پیش کررہا ہے، کوئی روٹی ، کپڑا اور مکان دینے کے خدائی دعوے کررہا ہے تو کوئی چشم زدن میں لوڈ شیڈنگ سمیت ملک کے سارے بحران ختم کرنے کے چیلنج دے رہا ہے، کوئی نیا پاکستان بناا چاہتا ہے تو کوئی پرانا پاکستان بحال کرنا چاہتا ہے، کوئی عوام کے لیے دودھ اور شہد کی نہریں بہا دینا چاہتا ہے تو کوئی مزدور کی تنخواہ ایک تولہ سونا اور کوئی اٹھارہ ہزار کرنے کا دانہ ڈال رہاہے، کوئی سونامی لانا چاہتا ہے تو کوئی انقلاب، کوئی جاگیرداروں کے خاتمے کی بڑھکیں مار رہا ہے تو کوئی قومیت پرستی، لسانیت اور صوبائیت کے بت تراش رہا ہے، کوئی ریپڈ بس کی طرح میکالے کارپیٹڈ تعلیمی سسٹم لانا چاہتا ہے تو کوئی یکساں تعلیمی نصاب کے گیت الاپ رہا ہے کہیں تیروں کی بوچھاڑہے تو کہیں شیر کی دھاڑ،کہیں بلا ہوا میں چل رہا ہے تو کہیں ترازو میں سارے ووٹ ڈالنے کی سعی نا تمام، کہیں پتنگ کی دھاتی ڈوروں نے عوام کا جینا محال کیا ہوا ہے تو کہیں کتاب، کتاب زندگی کو بند کرتی نظر آتی ہے۔
غرض انتخابی میدان سیاست کے اس ہائیڈ پارک میں بھانت بھانت کی بولیاں ہیں۔ گویاں عوام کی بولیاں لگ رہی ہیں۔ پھر یہ بولیاں اس قدر پرزور اور پر شور ہیں کہ قریب ہے عوام کا سر ہی تاب نہ لاکر پھٹ جائے۔ یہ سارا منظر ایسا ہے جیسے کسی پر ہجوم ریلوے اسٹیشن اور پولیس اڈے پر کھوے سے کھوا چھل رہا ہو۔ ہر طرف ایک آپا دھاپی پڑی ہوئی ہے۔ نفسا نفسی بلکہ کرسی کرسی کی آہ و بکا اور صدائوں کا ایسا علم ہے کہ ہر ایک کو بس اپنی پڑی نظر آتی ہے نہ کہیں ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی فکر کی بات ہے، نہ کہیں نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کی بات۔ خود غرضی اور مفاد پرسی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ کسی جماعت کا کسی جماعت کے ساتھ کوئی اتحاد نظر نہیں آتا۔ نظریاتی سیاست کے وفات پا جانے کی اور کیا بڑی دلیل ہوگی کہ ایک ہی جماعت ایک حلقے میں اپنی انتہائی مخالف جماعت کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرتے ہوئے اس کے ساتھ متحد و یکجان نظر آتی ہے تو دوسرے حلقے میں اس کی مخالفت میںختم ٹھونک کرکھڑی ہے۔ یہ ہے ملک کی پاسبانی و حکمرانی کا حقدار بننے کی خواہش مند پارٹیوں اور ان کے لیڈروں کا حال۔
ان کی انتخابی مہم میں نہ کہیں اسلام کو داخلے کی اجازت ہے ، نہ ملنے کے لیے شہہ رگ کی حیثیت رکھنے والے خطہ کشمیر کو دشمن کے خونی پنجوں سے چھڑانے کا کوئی ذکر۔ ہمارے ملک کی سیاسی پارٹیوں کا یوں بدلا ہوا قبلہ دیکھ کر خود ہمارا دشمن بھی حیران و ششد رہے اور خوب بغلیں بجا رہا ہے ۔ بھارتی میڈیا میں یہ بہت بری مسرت کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتو ں نے پہلی بار مسئلہ کشمیر کو کھڈے لائن لگا دیا ہے۔
جس چیز پر دشمن اپنی خوشی و سر شاری دکھائے ، وہ یقینا ہمارے لیے انتہائی ٰخطرناک اور نقصان دہ ہی ہو سکتی ہے ۔ تاہم دشمن کو اتنا ضرور یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان کے یہ جمہوری مداری اور لیڈرز تو امریکہ کو خوش کرنے کے لیے اور لیلائے اقتدار سے ہم آغوش ہونے کے لیے قومی ایجنڈا کو ایک طرف رکھ بیٹھے ہوں لیکن دشمن اس زعم میں مبتلا نہ ہو کہ پاکستانی عوام بھی خدانخواستہ ان ڈگڈگی بجانے والوں کے پیچھے چل کھڑے ہوئے ہیں ۔ تماشہ دیکھنے والے وقتی طور پر تماشہ دیکھنے کے لیے تھوڑی دیر کھڑے ضرور ہو جاتے ہیں لیکن مداریوں کو وہ مداری ہی سمجھتے ہیں اور ان کی باتوں میں کم ہی آتے ہیں ۔ پاکستان کے حوالے سے یہ ہ رپورٹ سرکاری سطح پر پہلے ہی منظر عام پر آچکی ہے کہ پاکستان میں 55فیصد لوگ سرے سے کسی بھی جمہوری مداری کو ووٹ ہی نہیں دیتے اور جو دیتے ہیں وہ مجبوراً اس انداز میں دیتے ہیں کہ جو ان مداریوں میں سب سے کم جھوٹا و مکار اور ملکی مفادا کے لیے کم نقصان دہ ہو تو چلو کم از کم مجبوراً وہی آگے آجائے ورنہ پاکستانی عوام کی اکثریت تو ان جمہوری مداریوں میں سے کسی کو بھی دل سے پسند نہیں کرتی۔
کیوں اس لیے کہ ان مداریوں نے تو صرف کرسی کے حصول کے لیے اور اپنے آقا امریکہ کو خوش کرنے کے لیے ملکی مفادات کو دائو پر لگا دینا ہوت اہے ، اس لئے تبدیلی کے بڑے بڑے دعویدار بھی امریکہ کے معاملے میں یا تو خاموشی اختیار کر جاتے ہیں یا کھلم کھلا کہہ دیتے ہیں کہ امریکہ جیسی بڑی طاقت سے ہم ٹکر نہیں لے سکتے ، پھر نا جانے امریکہ کو خوش کر کے انہوں نے کیسی تبدیلی لانی ہے ، چلیں انہیں تو خیر چھوڑ ئیے کیونکہ پاکستان کے تمام نئے اور پرانے سیاستدانوں کو کرسی کے حصول کا ایک ہی راستہ نظر آتا ہے کہ امریکہ کو خوش کیا جائے اور دین اسلام اور کشمیر کا ذکر کم سے کم کیا جائے ، دوسری طرف 29دسمبر کو لیاقت باغ میں ہونے والی یومِ القدس کانفرنس میں امیر جماعت الدعوة حافظ سعید نے سال 2018ء کو کشمیر کا سال قرار دیا جس کی بنا پر ہمارے حکمرانوں نے امریکہ اور بھارت کے دبائو میں آکر حافظ سعید کی جماعت الدعوہ اور فلاح انسانیت فائونڈیشن پر پابندی لگانے کی ٹھان لی ایک ایسے معاشرے میں جہاں ریاست اپنی بنیادی ذمہ داری سے غافل ہو ، حکمران لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہوں اور عوام کو اُن کے بنیادی حقوق سے بھی محروم کر دیا جائے ، وہاں ایک ایسا شخص اُٹھتا ہے جس کی زندگی کا مقصد فلاح انسانیت ہ و، جو ہر آفت ہر مصیبت میں سب سے پہلے متاثرہ افراد کی مدد کو پہنچے اور اُن کے زخموں پر مرہم رکھے ، جو بے گھر کو چھت فراہم کرے، بھوکے کو کھانا کھلائے ، بیمار کو علاج کی سہولیات فراہم کرے ، ہسپتال اور ڈسپنسریاں بنوائے، غریب بچوں کو تعلیم دلوانے کے لیے اسکول قائم کرے، صاف پانی کی فراہمی کے لیے کنویں کھدوائے اور ہینڈ پمپ لگوائے اور دین اسلام کی خدمت کو اپنا نصب العین بنائے ، اُس سے بڑا انسان کون ہو سکتا ہے ۔ مگر اسلام دشمن عالمی دہشتگرد امریکا کے اپنے اصول اور قواعد ہیں۔
اگر جماعت الدعوة کے سربراہ حافظ سعید کا تعلق کسی اور مذہب سے ہوتا تو دنیا بھر کے انعام و اکرام سے اُن کو نوازا جاتا مگر امریکا نے اُن کو دہشتگرد بنا کر پیش کریدا اور اُن کے سر کی قیمت 100کروڑ روپے مقرر کر دی ۔ حافظ سعید کا جرم یہ کہ وہ ایک مسلمان ہیں ۔ اُن کا قصور یہ ہے کہ وہ امریکا، انڈیا اور اسرائیل کی طرف سے مسلمانوں پر ڈھائے جانے مظالم پر خاموش نہیں رہ سکتے ۔ حافظ صاحب کا مسئلہ یہ کہ وہ پاکستان کو کمزور کرنے کی عالمی سازشوں کے خلاف کھلے عام آواز اُٹھاتے ہیں اور اسلام کے نام پر قائم ہونے والے اس ملک کو امریکا کی غلامی سے آزاد کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں ۔ حافظ سعید اور اُن کی تنظیم اس لیے بھی اسلام دشمنوں کو کٹھ کھٹکتی ہے کیوں کہ وہ امت مسلمہ کا درد رکھتے ہیں۔
پاکستان میں جماعت الدعوة اور اس کی ذیلی تنظیم فلاح انسانیت کے حوالے سے جو تفصیلات ہیں، وہ اس سے قطعی طور پر مختلف ہیں جو امریکہ ، بین الاقوامی دنیا یا بھارت ان کے بارے میں پروپیگنڈہ کر رہا ہے ۔ پاکستان بھر میں ان فلاحی تنظیموں کا کام ہر طرف نظر آتا ہے اور اس وجہ سے ان کی شہرت میں بھی گذشتہ کچھ سالوں سے بے پناہ اضافہ ہواا ہے ۔ امریکا اور انڈیا کے تمام تر پروپیگنڈہ کے باوجود مخیر حضرات فلاح انسانیت فائونڈیشن کو پاکستان میں ایک انتہائی موثر اور قابل اعتبار تنظیم سمجھتے ہیں ۔ اس وقت لاح انسانیت فائونڈیشن کے زیر انتظام پورے ملک میں12ہسپتال چل رہے ہیں جس میں گذشتہ سال میں 620810مریضوں کا علاج کیا گیا اس تنظیم کی 240شہروں میں 309ایمبولینسیں کام کر رہی ہیں جس سے پچھلے سال 73ہزار214مریض مستفید ہوئے صرف2017میں 3ہزار 817میڈیکل کیمپ کیے گئے جس میں 5لاکھ 77ہزار 1سو مریضوں کا علاج معالجہ کیا گیا اور مفت ادویات تقسیم کی گئیں ،514آپریشن کیے گئے اسی تنظمی نے 83شہروں میں 8لاکھ سے زائد افرادکو ہیپاٹائٹس ویکسی نیشن کی سہولیات مفت فراہم کیں ۔ 2005ء کے زلزلے میں جماعت الدعوة اور فلاح انسانی فائونڈیشن نے جو خدمات انجام دیں ، انہیں بین الاقوامی طور پر بھی تسلیم کیاگیا ۔ ان کے تحت 5لاکھ سے زائد افراد کو طبی امداد دی گئی ۔ 20خیمہ بستیاں قائم کی گئیں ۔ 6ہزار گھر تعمیر کیے گئے ۔ 59مساجد تعمیر کی گئیں ۔ 243فیلڈ اسکولوں کی بنیاد رکھی گئی۔
یہ ہے وہ جماعت الدعوة اور اس کے بانی حافظ سعید جن پر اسلام دشمنوں نے دہشتگردی کا فتویٰ جاری کر دیا باوجود اس کے کہ امریکا خود تسلیم کرتا ہے کہ اس کے پاس حافظ سعید کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے ، باوجود اس کے کہ وکی لیکس نے ہندوستان کی طرف سے مبمئی حملوں کے متعلق پیش کیے گئے ثبوتوں کو ناکافی کہا اور باوجود اس کے کہ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالتیں حافظ سعید کو شواہد نہ ہونے کی بنا پر با عزت بری کر چکی ہیں ۔ امریکا ہمیشہ کی طرح پاکستان کے ساتھ بھیڑیے اور بکری کا کھیل ،کھیل رہا ہے ۔بحیثیت قوم ہم پر ایک کے بعد ایک عذاب اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ۔ اب ہم مزید اور کسی عذاب کے متحمل نہیں ہو سکتے۔