قصہ کچھ اس طرح سے ہے کہ آخری مغل حکمران بہادر شاہ ظفر کے استاد ابراہیم ذوق اور مرزا اسداللہ غالب میں معاصرانہ چشمک اور چپقلش تھی،اسی بنا پر غالب کو شاہی سالانہ مشاعرہ میں مدعو نہیں کیا جاتا تھا،ایک بار ذوق کی سواری استاد غالب کے محلے سے گزر رہی تھی تو غالب نے اسے دیکھتے ہی پھبتی کسی کہ ۔۔۔بنا ہے شاہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا۔۔دوسرا مصرعہ غالب نے جان بوجھ کر ادھورا چھوڑ دیا ،کچھ ہی دنوں بعد شاہی مشاعرہ تھا اب کی بار غالب کو مشاعرہ میں آنے کی دعوت دی گئی اور ان سے وہی کلام سنانے کی تلقین کی گئی جس کا ایک مصرعہ غالب نے ذوق کو دیکھ کر فرمایاتھا،خیال یہ تھا کہ شاہ کے سامنے جب یہ مصرعہ پڑھا جائے گا تو وہ خفا ہوگا۔جب غالب نے بعد از اصرار غزل سنائی تو کچھ اس طرح سے تھی کہ
بنا ہے شاہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے
تمہید کا مقصد معروف صحافی،کالم نگار اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے مشیر عرفان صدیقی کی گرفتاری کا پس منظر اور پیش آمدہ حالت و واقعات سے ہے کہ ایک شخص کی سیاسی،صحافتی اور معاشی زندگی الگ الگ پہلو رکھتی ہے۔بطور صحافی جو قلم کردار کی صداقت کا علمبردار ہوتا ہے جب کسی شاہ کی قصیدہ خوانی کے لئے اٹھے تو اسے آپ حق کی خامہ فرسائی نہیں کہہ سکتے بلکہ بقول امام ابو حنیفہ کہ اگر کسی صاحب علم کو شاہ کے دربار میں دیکھوں تو مجھے اس کے ایمان پر شک گزرتا ہے۔
اگر بغور دیکھا جائے تو امام کے اس بیان میں کہیں بھی قصیدہ خوانی،چرب بیانی یا شاہی طرفداری کابراہ راست تذکرہ نہیں ہے تاہم ان کے ہاں دربار میں جانا گویا شجر ممنوعہ ہے،اگر آپ کے علم میں ہو کہ جب سیدی مولا نے ریاضت و لطافت کے منازل طے کر لئے تو انہوں نے بابا فرید سے اجازت طلب فرماتے ہوئے عرض کیا کہ مجھے وقت رخصت کچھ نصیحت فرمائیے تو بابا فرید نے کہا کہ نہیں بس اتنا عرض ہے کہ دربار اور درباریوں سے دوری اختیار کرنا،وقت بدلا،تاریخ گزری اور ایک دن یہ پیغام بابا جی کو موصول ہوا کہ سیدی مولا کو کسی نے خنجر مار کر ہلاک کر دیا ہے۔
بابا جی نے وجہ پوچھی تو پتہ چلا کہ محلاتی سازشوں کا شکار ہو ئے ہیں،بابا فرید الدین نے ایک آہ بھری اور فرمانے لگے کہ سیدی مولا کو ایک ہی بات سے منع کیا تھا وہ اس پر بھی کاربند نہ رہ سکے۔ہاں اگر عرفان صدیقی کی بطور مشیر وزیراعظم ذمہ داریوں کی بات کی جائے تو پھر سیاست میں سب جائز جو خیال کرتے رہے ہیں آج ان کی بھی باری ہے اور ہو سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں آج والوں کی باری کا انتظار ہو رہا ہو۔چونکہ اس گرفتاری کا تعلق خالصتا سیاسی نوعیت کا ہے تو یقینا اس کے پیچھے ایسے محرکات،واقعات اور ناجائز فوائد کا حصول ضرور ہوگا جس کا پتہ آنے والے چند دنوں میں چل جائے گا،جیسے کہ ذرائع یہ بھی بتا رہے ہیں کہ ایک نجی ٹی وی چینل کے مالک کو بطور مشیر عرفان صدیقی نے اپنے عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں ایک ارب سے زائد کے اشتہارات دئے ہیں جو قانونی،اخلاقی اور سیاسی ہر لحاظ سے کرپشن کے زمرے میں ہی آئے گا۔
اسی لئے میں نے شائبہ کا اظہار کیا ہے کہ ہو سکتا ہے مسئلہ کرایہ داری ایکٹ کی خلاف ورزی کا نہیں وہ تو ایک دو روز میں ضمانت ہو جاتی ہے،کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔وگرنہ ایک استاد ،صحافی جو سابق وزیر اعظم کا ترجمان تھا اور اب اس کی بیٹی کے لئے تقاریر لکھ کر دے رہا ہے کوئی سنگین جرم کا مرتکب نہیں سمجھا جا سکتا ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ اگر خدا تعالی نے ایک انسان کو علم اور قلم کی طاقت سے سرفراز فرمایا ہے تو اپنے اس فن کو شاہوں کی قصیدہ خوانی ،خوشامد،چاپلوسی اور کذب بیانی کے لئے استعمال کرنے کی بجائے کلمہ حق کی علمبرداری،حقائق کی آبیاری،صداقت کی شناوری،شجاعت کی رقمطرازی اور ملکی وفاداری کے لئے استعمال ہونا چاہئے،اگر کوئی بھی صحافی ایساکرتا ہے تو تاریخ اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنی آغوش میں لے کر اسے دائمی زندگی عطا کر دیتی ہے۔خدا ہم سب کو کلمہ حق کہنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین