فرمان الٰہی کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ ”تم نے کچھ خرچ کیا اور جو نذر بھی مانی ہواللہ اس کا علم رکھتا ہے اورظالموں کا کوئی مدگارنہیں (البقرہ ٢٧٠)اس حقیقت سے کوئی مسلمان انکار نہیں کرسکتا کہ اللہ تعالیٰ اس کائنات کے ذرے ذرے سے باخبر تھا ہے اور ہمیشہ رہے گا۔کون کہاں سے اور کس طرح کماتا ہے ،کون حلال و حرام کی تمیز کرتا ہے اور کون نہیں کرتا اللہ تعالیٰ سب کے کاموں سے واقف ہے۔ قرآن کریم میں ایک جگہ ارشاد ہواہے ”جولوگ اللہ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں اور خرچ کرکے پھر احسان نہیں جتاتے اورنہ دکھ دیتے ہیںان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور ان پرنہ کوئی خوف واقع ہوگا اور نہ غمگین ہوں گے”مفہوم(البقرہ ٢٦٢)معلوم ہوا اللہ تعالیٰ کی راہ میں کچھ خرچ کرنے کے بعد اجر کی اُمید اپنے رب تعالیٰ سے ہی رکھنی چاہئے نہ کہ کسی غریب یا محروم پر احسان جتلانا چاہئے۔
ویسے تو اس کائنات میں ہر چیز اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے اس لئے وہ ہی واحد قادر ہے کہ جسے چاہے جو چاہے عطاکردے ۔اپنے بندوں کو ان کی ضروریات سے زیادہ عطافرمانے کے بعد اُن کے لئے دنیاکی بھلائی کے ساتھ ساتھ آخرت کے اَجر کاانتظام اللہ تعالیٰ یوں کرتا ہے کہ بندہ عطاہونے والے مال و دولت اور رزق میں سے اللہ تعالیٰ کی غریب اور محروم مخلوق پر اس نیت سے خرچ کرے کہ صرف اللہ تعالیٰ کی رضا مطلوب رہے ۔اللہ کے سخی بندوں کی اس دنیا میں کبھی بھی کمی نہیں ہوئی ،جہاں ضرورت ہو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بھیج کر غریبوں، محروموں اورمحتاجوں کی مدد کرتا ہے۔ آج کل پاکستان میں ملک ریاض حسین سخاوت میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ ملک میں امیر تو اور بھی بہت ہیں لیکن کبھی کسی نے ملک ریاض کی طرح آگے بڑھ کر غریبوں کو گلے لگانے کی کوشش نہیں کی۔ کراچی کی بختاور کے باپ کی سمندری قزاکوںسے رہائی کا معاملہ ہویازلزلے کے بعد بے یارومددگار انسانیت ہویا بحریہ دسترخوان پر غریبوں کو کھانا میسر آئے یا پھر قحط زدہ تھر پارکر ملک ریاض کی خدمات چمکتے ستاروں کی مانند روشن نظر آتی ہیں۔
تنقید کرنے والے ہر دور میں موجود رہتے ہیں بنیادی طور پر راقم بھی تنقیدی ذہن رکھتا ہے لیکن ملک ریاض کی تھر میں امداد پہنچنے اور اُن کا یہ اعلان کہ وہ تھر کے صحرا میں پینے کے پانی کے کنوئیں کھدوائیں گے سننے کے بعد اپنے سینئر جناب ضیاشاہد صاحب کی طرح راقم بھی ملک ریاض کی انسانی خدمات کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکا، ضیاشاہد صاحب نے تو ملک ریاض کو آئندہ پاکستان کے صدر کے طور پر پسند کرلیا ہے۔ اُن کا یہ خیال بالکل درست ہے کہ ایوان صدر میں کسی کھلے دل کے انسان کو بیٹھنا چاہئے لیکن مجھے یہ بات پریشان کررہی ہے کہ کہیں ایوان صدر میں پہنچ کر سابق صدر آصف زرداری کی طرح کسی بختاور کے باپ کو قزاکوں سے چھڑوانے کے لئے کروڑوں روپے کی ضرورت پیش آگئی تواُس وقت کے صدر صاحب (ملک ریاض) دوسرا ملک ریاض کہا ںسے تلاش کریں گے ؟اور اگر کوئی ملک ریاض آگے نہ آیا تو اُس بختاور کے دل پر کیا گزرے گی جو ملک ریاض جیسے سخی صدر کی خدمت میں اپنے باپ کی زندگی کی بھیک مانگنے جائے گی؟ کہیں ایوان صدر کی مضبوط دیواریں ملک ریاض جیسے نرم دل انسان کو پتھر دل نہ کردیں۔
Malik Riaz
ضیاء شاہد صاحب نے بالکل درست کہا کہ اُن کی طرح لاکھوں پاکستانی ملک ریاض یا اُن جیسے کھلے دل کے انسان کو اپنا صدر دیکھنا چاہتے ہیں، راقم بھی اُن لاکھوں افراد میں شامل ہے اس لئے اس خواہش کے ساتھ پلنے والے خدشات بھی پیش کررہا ہوں ،اگر مستقبل میں ملک ریاض کو پاکستان کے عوام اپنا صدر منتخب کرلیتے ہیںاور وہ ایوان صدر میں پہنچ کر ماضی کے صدور کی طرح اس قدر مصروف ہوگئے کہ پھر عوام کی طرف پلٹ کر دیکھنے کے لئے بھی وقت نہ ملا تو پھر عوام کم از کم ایک ملک ریاض کھو دیں گے جو اُن کے دکھ درد میں شامل ہونے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ اس خواہش کا اظہار ضیاء شاہد صاحب کے بعد میں بھی کررہا ہوں کہ ملک ریاض کو پاکستان کا آئندہ صدر منتخب کرلینا چاہے لیکن ابھی ملک ریاض سے یہ پوچھنا باقی ہے کہ کیا وہ بھی صدر بننے کے خواہش مند ہیں؟ یا پھر صرف انسانی خدمت کا جذبہ لئے زندگی کا سفر جاری رکھنے کے خواہش مند ہیں۔ جناب ضیاء شاہد صاحب نے اپنے کالم میں ایک اور شخصیت کا ذکر بڑے اچھے الفاظ میں کیا ہے وہ شخصیت ہے ملک معراج خالد۔ملک معراج خالد سے میری ملاقات اُن دنوں ہوئی جب وہ پاکستان کے نگران وزیراعظم تھے۔ ضیاء شاہد صاحب ملک معراج خالد صاحب کے بہت قریبی دوستوں میں سے ہیں اس لئے وہ معراج صاحب کو راقم سے زیادہ جانتے ہیں۔
لیکن اتنا ضرور کہوں گا کے ملک معراج خالد جیسے لوگ بہت کم پیدا ہوتے ہیں ،ملک معراج خالد صاحب کے ساتھ گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے کی ملاقات میں ملنے والی محبت مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے۔ اُن کی محبت اورخلوص کا یہ عالم تھا کہ وہ عمر کے لحاظ سے مجھ سے کافی بڑے تھے لیکن مجھے اُن کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے وہ مجھ سے چھوٹے ہوں میں اُن سے کئی سال بڑاہوں، عاجزی اُن کی شخصیت میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ملک معراج خالد کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ ضیاء شاہد صاحب نے لکھا کہ اُن کی ملک ریاض کے ساتھ پہلی ملاقات ملک معراج خالد صاحب نے کروائی اور وہ آج بھی ملک ریاض کو ملک معراج کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ راقم کے پاس ملک معراج خالد کی آنکھ تو نہیں لیکن اگر ضیاء شاہد صاحب کو ملک معراج خالد کی نظرسے ملک ریاض میں پاکستان کا آئندہ صدر نظر آتا ہے تو میں بھی تمام خدشات کو ایک طرف رکھتے ہوئے اُن کے خیال سے متفق ہوں ۔حکمران ہوں توملک ریاض جیسے۔
جہاں بہت سے سخت دل اور کنجوس آزمائے جاچکے ہیں وہیں ایک نرم اور فراغ دل اور عوام کے دکھ درد محسوس کرنے والے کو بھی موقع دینا چاہئے۔ ملک ریاض پاکستان کے حکمران بنیں نہ بنیں جس طرح وہ غریب اور محروم کی مدد کررہے ہیں ایک دن پاکستانی عوام کے دلوں پر حکمرانی ضرور کریں گے۔ کیونکہ وہ اپنی ذاتی کمائی سے دوسروں کی مدد کرتے ہیں اس لئے کسی کو بھی اُن کے اس عمل پر تنقید نہیں کرنی چاہئے۔ باقی رہا اَجر کا معاملہ تو وہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے۔لیکن راقم کا ملک ریاض صاحب کو مشورہ ہے کہ وہ دوسروں کی مدد کرتے وقت صرف اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی نیت کیا کریں تاکہ دنیاوی زندگی کے ساتھ ساتھ آخرت کا اَجر بھی مل جائے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے”اور تم جو کچھ بھی مال خرچ کرتے ہواپنے لئے ہی کرتے ہو(البقرہ ٢٧٢)یعنی اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ مال و دولت میں سے اُس کی راہ میں خرچ کرنے سے مالک حقیقی راضی ہوجاتا ہے اور اپنے بندے کو دین و دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرماتا ہے۔ دوسری جگہ ارشاد ہوا ”(مفہوم) جس نے مال جمع کیا اور اسے گن گن کر رکھا وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال ہمیشہ اسی کے پاس رہے گا، ہرگز نہیں وہ شخص تو چکناچور کردینے والی جگہ پھینک دیاجائیگا۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اُس چکناچور کردینے والی جگہ سے محفوظ رکھے۔آمین
Imtiaz Ali Shakir
تحریر :امتیاز علی شاکر 03154174470 imtiazali470@gmail.com,