سید یوسف رضا گیلانی کی وزارتِ عظمی کے دنوں میں کیری لوگر بل منظور ہوا تو پاکستانی سیاست میں بھو نچالی کیفیت پیدا ہو گئی۔ اپوزیشن نے اس بل کو امریکہ کے ہاتھوں ملک گروی رکھنے کا نام دیا۔ اپوزیشن کا کہنا تھا کہ یہ بل ملکی سلامتی کے خلاف ہے لہذا اسے مسترد کیا جائے۔ اسی بل کے بطن سے میمو گیٹ بر آمد ہوا جس کی وجہ سے آصف علی زر داری کے خلاف غداری کے مقدمے کا آغاز ہوا۔ پاکستان کی ایجنسیوں، سپریم کورٹ، فوج اور آئی ایس آئی نے بھی کیری لوگر بل پر تحفظات کا اظہار کیا لیکن پی پی پی نے کسی ایک کی نہ سنی اور کیری لوگر بل کے تحت ملنے والی امداد کو قبول کر لیا کیونکہ امداد چھوڑنے والی چیز نہیں ہوتی۔
اس بل کے چند مندرجات کو فوج کے اعتراجات اور تحفظات کی وجہ سے سے تبدیل تو ضرور کیا گیا لیکن اس سے بل کی مجموعی ہئیت پر کوئی خاص اثر نہ پڑا تھا لہذا پرنالہ وہی پر رہا جہاں پر یہ پہلے تھا۔ اس زمانے میں شاہ محمود قریشی وزیرِ خارجہ تھے اور انھوں نے اسمبلی میں اس بل کے حق میں بڑی شاندار، مدلل اور دھواں دار تقریر کی تھی۔
انھوں نے اپنی تقریر میں ثابت کرنے کی کوشش کی کہ یہ امداد پاکستان کے لئے انتہائی ضروری ہے اور پاکستان کو اس امداد کی سخت ضرورت ہے لہذا پاکستان کو اس بل کو منظور کر کے امداد حاصل کر لینی چائیے۔ ان کے استدلال کو تسلیم کر لیا گیا لیکن اپوزیشن کا واویلا پھر بھی کئی ماہ چلتا رہا اور اس نے اسمبلی میں اودھم مچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ یہ الگ بات کہ جب شاہ محمود شریشی پی پی پی کو داغِ مفارقت دے کر پاکستان تحریکِ ا نصاف میں چلے گئے تو کیری لوگر بل کی آڑ میں آصف علی زرداری پر رکیک حملے کرنے والوں میں وہ بھی پیش پیش تھے۔ یہی وہ بل ہے جو کہ فوج اور پی پی پی کی حکومت کے درمیان غلط فہمیوں کا باعث بنا تھا اور جس کی وجہ سے پی پی پی کی حکومت کی برخاستگی کی خبریں بھی پریس کی زینت بنی تھیں جھنیں پریس نے مرچ مسالہ لگا کر پیش کیا تھا۔
Nawaz Sharif Meeting
میاں محمد نواز شریف بھی اسی بل کی منطوری کی وجہ سے بڑے اپ سیٹ تھے اور میمو گیٹ کے تنازعے میں فریق بن کر سپریم کورٹ پہنچ گئے تھے یہ الگ بات کہ بعد میں کسی نے بھی اس پٹیشن کی پیروی نہیں کی تھی جس سے اس پٹیشن کو کسی مناسب وقت کے لئے ملتوی کر دیا گیا تھا۔ یہ پٹیشن اب بھی سپریم کورٹ میں موجود ہے اور کسی مناسب وقت کی منتظر ہے۔ کیری لوگر بل کے تحت ابھی ایک ہی قسط ادا کی گئی تھی کہ ریمنڈ ڈیوس کے ایشو اور پھر نیٹو سپلائی کی بندش پر امریکہ نے کیری لوگر بل کی امداد معطل کر دی۔ حکومت نے بڑی کوششیں کیں لیکن یہ امداد بحال نہ ہو سکی۔اگر چہ ریمند ڈیوس بھی رہا ہو کر امریکہ چلا گیا اور نیٹو سپلائی لائن بھی بحال ہو گئی لیکن امداد کی معطلی بہر حال اپنی جگہ قائم رہی ۔نئے انتخا بات سر پر آگئے اور پی پی پی کی حکومت اپنے پانچ سال پورے کر کے گھر کو سدھاری تو کیری لوگر بل کے تحت امداد کی بحالی کا معاملہ بھی کھٹا ئی میں پڑا رہا۔
مسلم لیگ کی حکومت کے آتے ہی حالات نے نیا رخ اختیار کیا۔امریکہ کو اگلے سال افغانستان سے اپنی فوجوں کے انخلا کا مرحلہ طے کرنا ہے اور اس کیلئے پاکستان کی مدد اور حمائت ضروری ہے جسکی وجہ سے امریکہ کے رویوں میں بھی تبدیلی کے اشارے ملے۔ بگڑے ہوئے تعلقات ایک دفعہ پھر سنوارے جا رہے ہیں۔
پہلے آئی ایم ایف سے چھ بلین ڈالر کا قرضہ اور اب کیری لوگر بل سے ایک بلین ساٹھ کروڑ ڈالر کی امداد اسی فوجی انخلا میں سہولت دینے کے شاخسانے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ میاں محمد نواز شریف کے حالیہ دورہِ امریکہ میں اسی کیری لوگر بل کے تحت روکی گئی امداد بحال ہوئی ہے تو مسلم لیگ (ن) خوشی سے بغلیں بجا رہی ہے اور اسے اپنی سفارت کاری کا کرشمہ قرار دے رہی ہے۔
PML N
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کیری لوگر بل میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت آنے کے بعد کوئی ترمیم نہیں ہوئی یہ وہی بل ہے جس پر مسلم لیگ (ن) پی پی پی حکومت کو غدار قرار دیتی تھی لیکن جب یہ امداد اپنے دورِ حکومت میں ہاتھ لگی ہے تو غداری حب الوطنی میں بدل گئی ہے۔ ہمارے یہی رویے ہیں جو سیاست دانوں کی شہرت کو داغدار کرتے ہیں اور سیاست جیسے مقدس پیشے کو بدنام کرتے ہیں۔ ایک چیز اگر مخا لفین کے دورِ حکومت میں غلط اور و حرام ہوتی ہے تو وہی چیز اپنے دورِ حکومت میں نہ صرف حلال اور جا ئز قرار پاتی ہے بلکہ باعثِ فخر بھی بن جاتی ہے۔ ہماری سیاسی قیادتوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی ترجیحات صرف اتنی ہیں کہ امداد کتنی آ رہی ہے کیونکہ اسی امداد سے تو انھوں نے اپنے محل بنانے ہوتے ہیں۔آپ پاکستان کے قائدین پر نظر ڈالیں حکومت میں آنے کے بعد امارت اس طرح ان کے ساتھ چمٹ جاتی ہے جیسے حسن کا سحر کسی نوجوان دوشیزہ کے ساتھ چمٹ جاتا ہے۔
اقتدار کی راہداریوں سے ایک پھیرا لگانے کے بعد ہمارے قائدین کی دنیا بدل جاتی ہے اور وہ قارون کے خزانوں کے وارث بن جاتے ہیں۔ انھیں اپنی جیبیں بھرتے وقت اس بات کا مطلق خیال نہیں رہتا کہ یہ پاکستانی عوام کا پیسہ ہے اور اس پر صرف ان کاہی حق ہے۔ ہم مغربی دنیا کے جمہوری معاشروں کی مثا لیں دیتے نہیں تھکتے لیکن ان کے صاف ستھرے کردار کو کبھی بھی اپنانے کی کوشش نہیں کرتے۔ان کے ہاں جوابدہی کا اتنا مضبوط نظام قائم ہے کہ انھیں ملکی خزانے سے چھیڑ چھاڑ کرنے کی ہمت نہیں ہوتی ا ور اگر کوئی غلطی سے ایسا کرنے کی جرات کر لے تو پھر اس کا جو حشر ہوتا ہے وہ بیان سے باہر ہے۔
ایک واٹر گیٹ سکینڈل پر امریکہ کے صدر کو گھٹنے ٹیک کر صدارتی محل کو خالی کر کے گھر کی راہ لینی پڑتی ہے۔ میڈیا، سول سوسائٹی اور عدالتیں ملکی مفادات اور ملکی خزانے کی خرد برد کے خلاف یک زبان ہو جاتی ہیں اور اس کے تحفظ کو اپنے ایمان کا حصہ بنا لیتی ہیں۔انھیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ ان کے مدِ مقابل کون ہوتا ہے۔ انھیں صرف اس بات سے غرض ہوتی ہے کہ انھوں نے اپنے ملک کے آئین و قانون کے ساتھ کھڑا ہونا ہے یہی وجہ ہے کہ ان ملکوں کے حکمران قومی خزانے کو شیرِ مادر سمجھ کر ہڑپ نہیں کرتے اور نہ ہی اسے اپنے حو اریوں اور ڈھنڈورچیوں پر بے دریغ لٹا تے ہیں ہم ہر وقت امریکہ کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں لیکن جب کبھی بھی موقعہ آتا ہے اس کے ترلے منتیں بھی کرتے ہیں اور اس کے آگے لیٹ بھی جاتے ہیں۔اس کی وجہ صرف اتنی ہے کہ ہم ایک بھکاری قوم ہیں۔
امریکہ ہمارے کشکول میں چند ڈالر ڈال دیتا ہے تو پھر ہمیں نہ تو قومی غیرت یاد رہتی ہے نہ ملکی وقار عزیز رہتا ہے اور نہ ہی اپنی عزت کا پاس رہتا ہے۔ جو قوم بک جایا کرے اس کی خو دی مر جایا کرتی ہے۔ بکنے کا عمل ہی در اصل اس کی خود ی کی موت کا اعلان ہوتا ہے ۔وہ بکنے کے عمل سے اسی وقت گزر تی ہے جب اس کی خودی کاگلہ گھونٹ دیا جاتا ہے۔ حیران کن بات تو یہ ہے کہ تصورِ خو دی کا خا لق ہی در اصل تصورِ پاکستان کا بھی خالق تھا لیکن اس کے باوجود ہماری خود ی مر چکی ہے۔ جس قوم کی بیٹی امریکہ کی قید میں ہو اور اس ملک کا سربراہ اس موضوع پر بات کرنا بھی گوارا نہ کرے تو اس سے قوم کے اخلاقی وجود کا بخو بی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ امریکی شہری رمینڈڈیوس ایک قاتل تھا اور جیل میں قید تھا لیکن چونکہ وہ امریکی شہری تھا اس لئے امریکہ اسے چند ہفتوں کے اندر ہی پاکستانی جیل سے رہا کروا کے امریکہ لے گیا تھا۔ یہ ہمارے حکمران تھے جھنوں نے اس کی رہائی کے لئے زمین ہموار کی تھی اور اس کیلئے جو مذہبی راہ نکالی گئی تھی وہ بھی حیران کن تھی۔ اس وقت ہر لیڈر کی کوشش تھی کہ اس کی پھرتیوں سے ریمنڈ ڈیوس کو رہائی مل جائے تا کہ امریکہ کی نظروں میں اس کی ایک اہمیت مسلمہ ہو جائے۔
عافیہ صدیقی کا جرم ریمنڈ ڈیوس کے جرم سے کہیں کم تر ہے لیکن جب معیار امریکی ناراضگی اور خوشی بن جائے تو پھر عافیہ صدیقی کا ذکر کون کریگا کیونکہ حکمرانوں کو علم ہے کہ امریکہ عافیہ صدیقی کا ذکر سننا پسند نہیں کرتا۔ حیران کن بات تو یہ ہے کہ جس بات کا پورے ملک میں چرچا تھا وہی بات امریکی صدر سے ملاقات کے ایجنڈے میں ہی شامل نہیں تھی۔ یہ الگ بات کے میاں برادران کے ڈھنڈورچی میاں محمد نواز شریف کی فہم و فراست اور جراتوں کا ایک طوفان اٹھائے ہوئے ہیں اور امریکی دورے کو کامیاب قرار دینے کا ڈھونفگ رچائے ہوئے ہیں۔
وہ بات جس کا سارے ا فسانے میں ذکر نہ تھا۔۔وہ بات ان کو بڑی ناگوار گزری ہے (فیض احمد فیض)
Tariq Butt
تحریر : طارق حسین بٹ(چیرمین پیپلز ادبی فورم یو اے ای)