تحریر : طارق حسین بٹ جمال عبدالناصر اور جنرل نجیب کے باہمی اتحاد نے فرعونوں کی سرزمین کے آخری شاہی حکمران شاہ فاروق کا تختہ الٹا تو ایسے لگتاتھا کہ اس فوجی انقلاب کی کوکھ سے ایسا عوامی انقلاب بر آمد ہو گا جو مصری عوام کا مقدر بدل ڈالے گا لیکن بسا آرزو کہ خا ک شدی والا معاملہ سامنے آیا کیونکہ عوام کی آزادی اور خو شخالی کی بجائے جمال عبدالناصر نے عرب ازم کا نعرہ بلند کر کے اسلام سے اپنی دوریوں کا عندیہ دے دیا تا کہ مغرب ان کی نئی سوچ سے خوش ہو جائے اور ان کا اقتدار محفوظ ہو جائے۔
تاریخ نے ثابت کیا کہ شاہِ فاروق کی اقتدار سے بے دخلی عوامی راج کی خاطر نہیں تھی بلکہ یہ مکمل طور پر اقتدار کا کھیل تھا جس کا عوامی فلاح وبہبود سے دور کلا بھی کوئی تعلق واسطہ نہیں تھا بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اس نئے انقلاب سے جبر کا وہ دیو بر آمد ہوا جس نے مصریوں کا جینا دو بھر کر دیا اور انھیں کئی عشرے آمریت کے سائے میں زندہ رہنے پر مجبور ہو نا پڑا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جمال عبدالناصر ایک نئے نجات دہندہ کی صورت میں نمودار ہوئے تھے اور عوام نے ان کے ساتھ بے شمار توقعات وابستہ کر رکھی تھیں لیکن ان کے اندر آمرانہ خصائل نے ان کی شخصیت کو داغدار کر کے رکھ دیالہذا ان کا سار زور اپنے مخالفین کو نیست و نابود کرنے میں صرف ہوا جس میں سرِ فہرست اخوان المسلمون تھی ۔کبھی جمال عبدالناصر،کبھی انور سادات اور کبھی حسنی مبارک مصری عوام کو جبر کی آہنی زنجیروں میں جکڑتے رہے۔ان کے منعقد کردہ انتخابات کے نتائج ہمیشہ ٩٩ فیصد ہی آتے رہے کیونکہ ان کے مدِ مقابل کسی کو کھڑے ہونے کی اجازت نہیں تھی ا ور جس کسی نے بھی ایسا کرنے کی کوشش کی اسے بے رحمی سے کچل دیا گیا۔چھوٹی موٹی کئی سیاسی جماعتیں تھیں لیکن حکمرانوں کو اصل خطرہ اخوان المسلمون سے تھا کیونکہ یہی جماعت ان کی سیاسی کشتی ڈبونے کی اہلیت رکھتی تھی لہذا حکومت کا سارا زور اخوان کو کچلنے پر تھا۔
Hosni Mubarak
قطب شہید کا قتل اسی دور کی سفاکیت کا مظہر تھا ۔کسے خبر تھی کہ آمریت کے گھڑھ میں جمہوریت ایسی آب و تاب سے ابھرے گی کہ پوری دنیا شسدر رہ جائیگی۔١٩٥٢ سے شروع ہونے واالا فوجی انقلاب نومبر ٢٠١١ میں اختتام پذیر ہوا کیونکہ اب عوام آمریت کے اس گھنائونے کھیل سے تنگ آ چکے تھے اور تبدیلی چاہتے تھے ۔ یہی وہ وقت تھا جب معتوب خوان المسلمون نے عوامی کی بے پناہ عوامی احتجاج سے عرب بہار کے دامن سے ایک نئی صبح کی نوید دے کر ساری سیاسی بساط ہی پلٹ ڈالی اور آمریت کے سارے بت ایک ایک کر کے گرتے گئے۔حسنی مبارک کا تیس سالہ اقتدار ریت کی دیوار کی طرح زمین بوس ہوا اورملک کے بے تاج بادشاہ حسنی مبارک کو احتساب کی خا طر آہنی پنجرے میں عدالت میں پیش ہونا پڑا جو کہ ایک انہونی بات بھی تھی اور مقامِ عبرت بھی تھا۔،۔
جمہوریت کا بنیادی اصول ہے کہ جیتنے والے کو حکومت کا مکمل اختیار حاصل ہوتا ہے لیکن مصر میں ا سے نظر انداز کر دیا گیا۔امریکہ اور اس کے حواریوں کو محمد مرسی کی حکومت قابلِ قبول نہیںتھی اور یہی وجہ تھی کہ امریکی اشیرواد سے ٣ جولائی ٢٠١٣ اکو محمد مرسی کی آئینی اور قانونی حکومت کو بر خاست کیا گیا اور فتح محمد السیسی نئے فوجی حکمران کی شکل میں مصر کے افقِ سیاست پر ابھرے ۔یہی وہ مقام تھا جب نہتے شہریوں کو جمہوریت کے ساتھ محبت کی سزا دی گئی ۔اور مصر میں ظلم و جبر اور سفاکیت کی انتہا کر دی گئی ۔ہزا روں کارکنوں کو جیلوں میں اذ یتیں دی گئیں ۔انھیں کئی کئی سال کی سزا سنائی گئی اور اخوا ن المسلمون کے کارکنوں پر زندگی اجیرن بنا دی گئی ۔انھیں جھکانے اور توڑنے کیلئے ہر حربہ استعمال کیا گیا ،انھیںسزائیں دے د کر ڈرایا دھمکایاگیا تا کہ وہ اسلامی فکر سے دستبردار ہو جائیں لیکن انھوں نے جبر کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیا۔مصری فوج ہمیشہ اسلامی جماعتوں کے خلاف رہی ہے کیونکہ وہ ملک میں مغرب کا کھلا ڈھلا کلچر رائج کرنا چاہتی ہے جس کی اخوان المسلون کھل کر مخالفت کر تی ہے اور قوم ان کی فکر کے ساتھ کھڑی ہے جس کا واضح اظہار ان انتخابی نتائج سے ملتا ہے جس کی وجہ سے شفاف انتخابات میں اخوان المسلمون ملک کی سب سے بڑی جما عت بن کر ابھری تھی۔
اس کی جیت مغربی دنیا کیلئے قابلِ قبول نہیں تھی لہذا عسکری حلقوں کو اسلامی جماعت کی پیشقدمی کو روکنے کیلئے میدان میںنکلنا پڑا ۔جنرل فتح السیسی نے فوجی شب خون کے ذریعے محمد مرسی کی آئینی حکومت کو برخاست کیا اور اقتدار اپنی مٹھی میں لے کر ظلم وجبر کی نئی داستان لکھنے کی راہ اپنائی۔وہ جماعت جو چند مہینے پہلے تک ملک کی سب سے بڑی جماعت تھی اسی جماعت پر پابندی عائد کر دی گئی اور اسے دھشت گرد تنظیم قرار دے دیا گیا۔چٹ بھی میری پٹ بھی میری شائد انہی مو قعو ں کیلئے بولا جاتا ہے۔
Muslim Brotherhood
اقتدار بھی چھینا اور مجرم بھی وہی قرارپائے جو آئینی طور پر منتخب ہوئے تھے ۔ وہ جھنوں نے آئین کی خلاف ورزی کی اب وہی منصف ٹھہرے ہیں اور وہ جو آئینی حکمران تھے وہ مجرم ٹھہرے ہیں لیکن ایسا کرنے کے باوجود بھی اخوان المسلمون کا سحر توڑنا آسان نہیں ہے کیونکہ ان کی جدوجہد اصولوں پر قائم ہے اور جب کوئی تحریک اصولوں پر کھڑی ہو جاتی ہے تو پھر وہ مٹا نہیں کرتی۔مصری طلبا و طالبات کی جدو و جہد اپنی نوعیت کی ایسی جدو جہد ہے جس میں وہ جبر کے سامنے ڈٹ گئے ہیں اور ان کے عزم میں کوئی کمی نہیں آ رہی ۔ان کا نیا نعرہ ( صلاة الفجر ہدایة ا لنصر ) تحریک کو نئی زندگی بخش رہا ہے جس سے تحریک کی کامیابی کے امکانات قوی ہو رہے ہیں۔مصری فوج نے پورا ملک خاک و خون میں نہلا دیا ہے۔جنرل فتح السیسی نے سفاکیت کا ہر حربہ استعمال کر کے دیکھ لیا ہے لیکن تحریک ناکامی کی بجائے کامیابی کی جانب بڑ ھتی جا رہی ہے۔ ہزاروں شہادتوں کے باوجود میدان میں ڈٹے رہنا اس بات کی گواہی دینے کیلئے کافی ہے کہ تحریک کامیابی سے ہمکنار ہو کر رہے گی اور فوجی حکمران کو عوامی آواز کے سامنے سر نگوں ہونا پڑیگا ۔حال ہی میں محمد مرسی کو موت کی سزا سنانا اس بات کو ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ امریکہ اخوان کی مکمل بیخ کنی چاہتا ہے کیونکہ اخوان اسرائیل کے خلاف جارحانہ پالیسی رکھتی ہے۔،۔
میرے سامنے دو ایسے بیانات ہیں جس نے مجھے بھی ششسدر کر کے رکھ دیا ہے۔فصاحت و بلاغت اور جذبوں کا ایک طوفان ہے جو ان دو تحریروں کے اندر مقید ہے ۔اخوان کے مرکزی راہنما ڈاکٹر محمد البلتاجی کے الفاظ ملا خظہ کیجئے ۔یہ بیان انھوں نے عدا لت کے روبرو دیا تھا۔(ایف ایس ای کے امتحان میں قومی سطح پر میری چھٹی پوزیشن تھی ۔ایم بی بی ایس کے ا متحان میں ہر سال میں ملک بھر میں اول آتا رہا۔پھر میرا شمار اپنے شعبے میں ملک کے قابل ترین ڈاکٹروں میں ہونے لگا ۔جامعہ ازہر کے میڈیکل کالج میں تدریس کے فرائض بھی سر انجام دئے ۔میں نے اپنی نگرانی میں ایک کلینک قائم کیا جو ملک کے بہترین طبی مراکز میں شمار ہوتا تھا۔پھر دو ماہ کے عرصے میں مجھ پر ملک کے ٢٥ اضلا ع میں٢٥ خطرناک مقدمات قائم کر دئے گئے۔مقدمات دیکھ کر لگتا ہے کہ میں ملک کا معروف اور قابل ڈ اکٹر نہیں بلکہ کسی خطرناک مافیا کا سرغنہ ہوں ۔ایجنسیوں نے میرا کلینک جلا کر راکھ کر دیا۔
کالج میں زیرِ تعلیم میر ی بیٹی اسماء کو قتل کر دیا۔میرے بیٹے کو جیل بھیج دیا۔میری اہلیہ کی گرفتاری کیلئے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔لیکن جج صاحب آپ کا خیال ہے کہ میں عدالت کے کٹہرے میں قیدیوں کا لباس پہنے اپنے دفاع میں کوئی دلیل دوں گا ؟ربِ ذولجلال کی قسم میرے لئے میری پھانسی کے پھندے پر جھول جانا یا ان تما م الزامات سے بری الزمہ ہو جانا یکساں حیثیت رکھتا ہے۔جج صا حب میں یہاں آج اس لئے کھڑا ہوں کہ امتِ محمد ۖ کی آئیندہ نسلیں تک جان لیں کہ کہ کون حق پر تھا اور اہل حق کے ساتھ کھڑا تھا، اورکون باطل پر تھا اور اہلِ باطل کی صف میں کھڑا تھا۔)۔عین الشمس یونیورسٹی کے طالبعلم محمد ایمن کا بیان بھی ملاخظہ کیجئے جو اس کی زندگی کا آخری پیغام ثا بت ہوا۔
اپنے نفس کو مخاطب کرتے ہوئے وہ لکھتا ہے۔(اللہ کی قسم میں تمھیں جنت میں لے جا کر رہوں گا ۔کیا رسول اللہ ۖ کے ساتھیوں کا خیال ہے کہ وہ اکیلے اکیلے جنت میں چلے جائیں گئے ؟ ہر گز نہیں۔ہم ان کے شانہ بہ شانہ جنت کے دروازوں سے داخل ہوں گئے تاکہ انھیں معلوم ہو جائے کہ انھوں نے اپنے پیچھے حقیقی مردانِ کار چھوڑے ہیں)کیا دنیا کا کوئی حکمران ایسے جانبازوں کو شکست دے سکتا ہے؟تاریخ کا فیصلہ ہے کہ نہیں کیونکہ خون کی لکیر سے حق لکھنے والے ہی آخرکار فاتح بنتے ہیں۔،۔