تحریر : اسماء ہادی ہمارے ملک میں غربت دن بدن بڑھتی چلی جا رہی ہے، ایک طرف ایک غریب باپ غربت بھوک افلاس کی وجہ سے اپنے بجوں کو قتل کرنے پر مجبور ہے تو دوسری طرف ایک بے بس ماں اپنی ممتا کو مار کر اپنی اولاد کو بیچنے پر مجبور ہے چھوٹے معصوم بچے اپنے چھوٹے معصوم بہن بھائیو ں کی بھوک کو ختم کرنے کے لے اپنے بچپن کو ختم کر کے بس اسٹاپس پر گاڑیوں کے شیشے صاف کرتے ہوئے بھیک مانگتے ہوئے پھول بیچتے ہوئے نظر آتے ہے آخر ایسا کیوں ہے ہمارے ملک کے ہی بچے کیوں اتنی قربانیاں دیتے نظر آتے ہیں یہ کس کی وجہ سے ہے ہمارے حکمرانوں کی وجہ سے ہے جو ایک دوسرے سے اپنی جیت کی جنگ لڑتے ہوئے نظر آتے ہیں اور جو جیت جاتا ہے تو اپنی تجوریاں بھرنے لگ جاتا ہے اور جو ہار جاتا ہے وہ جیت والے کی ٹانگ کھینچنے لگ جاتا ہے ان میں سے کوئی بھی یہ نہیں سوچتا کہ ہمارا فرض کیا ہے ہماری رعایا ہمارا فرض ہے یا تجوریاں بھرنا ہمارا فرض ہے وہ یہ جانناہی نہیں چاہتے کہ ہماری عوام کس طرح سے زندگی گزار رہی ہے۔
ہمارے صحابہ کرام کے دور حکومت میں ایک کتا بھی بھوکا نہیں سوتا تھا اور ادھر لاکھوں لوگ معصوم بچے اپنی جان سے چلے جاتے ہیں صرف بھوک کی وجہ سے ہمارے پیارے صحابہ ابوبکر صیدیق کے دور میں بیت المال کی زمے داری حضرت ابو عبیدہ کی تھی اور اسی بیت المال سے ابوبکر صیدیق کے گھر کے لے راشن مقرر کرنا تھا لیکن سوال یہ تھا کے کتنا ہونا چاہیے حضرت ابو بکر صدیق نے فرمایا کہ جتنا مدینہ کے ایک مزدور کا حق ہے اتنا مقرر کر دے حضرت ابو عبیدہ نے فرمایا آپ کا گزارا اتنے میں ہو گا تو جواب میں آپ نے فرمایا جب مزدور گزارہ کر سکتا ہے توہم کیوں نہیں کر سکتے۔
چنانچہ خلافت اسلامی کا وظیفہ ایک مزدور کے مساوی مقرر کیا گیا لیکن بعد میں آپ نے خود اس میں مزید کمی کر دی تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کی زوجہ نے روز کے راشن میں سے چٹکی چٹکی بچا کر آپ کے لے میٹھا بنایا تھا کیوں کے آپ کو میٹھا بہت پسند تھا لیکن روز کا راشن اتنا کم ہوتا تھا کہ اس میں سے مشکل سے گزارا ہوتا تھا حضرت ابوبکر کے سامنے جب کھانا پیش کیا گیا تو آپ نے دریافت کیا کہ یہ کدھر سے آیا ہے تو آپ کی زوجہ نے سارا ماجرا انہیں بتایا تب آپ نے فرمایا کہ ہمارا گزارا ایک چٹکی کم آٹے میں ہوسکتا ہے اس لے انہوں نے وہ فالتوآٹا بیت المال میں جمع کروانے کا حکم دیا اورادھر دیکھیں تو میز سو طرح کے کھانوں سے بھری ہوتی ہے۔
پیٹ کی بھوک بھر جاتی ہے لیکن آنکھوں کی بھوک نہیں بھرتی بڑے بڑے کوٹھیاں بنگلے رہائش کے لئے بناتے ہیں نوکر چاکر بڑی بڑی گاڑیاں ہونے کے باوجود بھی ان کی دولت کی ہوس ختم نہیں ہوتی ہمارے صحابی حضرت ابو عبیدہ بن جراح شام کے گورنر تھے حضرت عمر کے دور میں حضرت عبیدہ کے دور میں شام ایک ترقی یافتہ شہر تھا لیکن حضرت عبیدہ کا گھر گھجور سے بنا ایک جھونپڑا تھا۔
Lust of Money
ایک مرتبہ ایک دفعہ حضرت عمر شام گئے توآپ نے ابو عبیدہ سے ان کا گھر دیکھنے کی ضد کی تو آپ انہیں اپنے ساتھ لے کر گئے سارے شہر کی رنگینوں کو چھوڑکر شہر سے باہر وہ آپ کو ایک جونپڑے کے پاس لے گئے اور فرمایا یہ میرا گھر ہے آپ نے فرمایا آپکا سازوسامان کدھر ہے تو آپ نے فرمایا جائے نماز کے اوپر نماز پڑھ کر میں اس پر ہی سو جاتا ہوں اور اک پیالہ نکال کر بتایا جس میں روٹی کے ٹکڑے بھگوئے تھے آپ نے فرمایا اس میں ہی کھانا کھا تا ہوں اور اسی میںہی پانی پی لیتا ہوں یہ سب سن کر حضرت عمر کی آنکھوں میں آنسوں آگئے ہمارے صحابہ اپنی ذات سے ذیادہ اپنی رعایا کو ترجیح دیتے تھے اور ہمارے حکمران اپنی ذات سے آگے سوچتے ہی نہیں ہیں وہ یہ سوچنا ضروری نہیں سمجھتے کہ انہوں نے اپنا حق ادا کیا ہے یا نہیں ہم تو سوائے دعا کے اور کچھ نہیں کر سکتے کے اللہ ہمارے حالات پر رحم کرے،آمین