تحریر : ممتاز حیدر چوالیس سال قبل 16دسمبر 1971کو وطن عزیز پاکستان کو دو لخت کر دیا گیا تھا،ہر سال یہ دن آتا ہے اور محب وطن پاکستانی عوام کے زخموں کو تازہ کر دیتا ہے ، پاکستان کے دو بازوئوں، مشرقی و مغربی پاکستان، اور بھارت کے درمیان ہونے والی جنگ کے نتیجے میں مشرقی پاکستان آزاد ہو کر بنگلہ دیش کی صورت میں دنیا کے نقشے پر ابھراتھا۔جنگ کا آغاز 26 مارچ 1971ء کو ہوا جس کے نتیجے میں مقامی گوریلا گروہ اور تربیت یافتہ فوجیوں (جنہیں مجموعی طور پر مکتی باہنی کہا جاتا ہے) نے عسکری کاروائیاں شروع کیں اور افواج اور وفاق پاکستان کے وفادار عناصر کا قتل عام کیا۔ مارچ سے لے کر سقوط ڈھاکہ تک تمام عرصے میں بھارت بھرپور انداز میں مکتی باہنی اور دیگر گروہوں کو عسکری، مالی اور سفارتی مدد فراہم کرتا رہا اور بالآخر دسمبر میں مشرقی پاکستان کی حدود میں گھس کر اس نے 16 دسمبر 1971ء کو ڈھاکہ میں افواج پاکستان کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا۔ یہ جنگ عظیم دوئم کے بعد جنگی قیدیوں کی تعداد کے لحاظ سے ہتھیار ڈالنے کا سب سے بڑا موقع تھا۔
بنگلہ دیش کی آزادی کے نتیجے میں پاکستان رقبے اور آبادی دونوں کے لحاظ سے بلاد اسلامیہ کی سب سے بڑی ریاست کے اعزاز سے محروم ہو گیاتھا۔ 16دسمبر 1971ء کو سقوط ڈھاکہ کے بعد اندرا گاندھی نے اگلے دن اپنی پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر یہ بات کہی تھی کہ ہم نے نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں بہا دیا ہے۔ اس کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اب پاکستان کا جواز باقی نہیں رہا اس وقت سے لیکر بھارت آج تک پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کر رہا ہے۔ بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک پروان چڑھائی جا رہی ہے۔ ہم نے پاکستان کو 1857ء کی جنگ آزادی کے زخموں کے نوے سال بعد حاصل کیا جس کیلئے بے شمار قربانیاں دی گئیں۔ یہ قربانیاں انڈیا کے سامنے جھکنے کیلئے نہیں تھیں۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں سب سے بڑا کردار بھارت کا تھاآج بھی پاکستان سے محبت رکھنے والوں کو بھارتی اشاروں پر پھانسیوں کی سزائیں سنائی جارہی ہیں۔ پاکستان سے محبت رکھنے والے بنگلہ دیشی لیڈرجنہیں پھانسی کی سزائیں سنائی جاچکی ہیں اور وہ کال کوٹھڑیوںمیں بند ہیں’ نے قومیت اور وطنیت کیلئے قربانیاں پیش نہیں کی تھیں بلکہ ان کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ لاالہ الااللہ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے بھارتی فوج کے سامنے ڈٹ گئے اور واضح طور پر کہا تھا کہ ہمیں بھارتی فوج کا پاکستانی سرزمین پر وجود برداشت نہیں ہے۔
افسوس اس امر کا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے پاکستان کے ان محسنوں کی قدر نہیں کی۔بین الاقوامی ساز ش کے تحت ظلم اور جارحیت کا ارتکاب کرتے ہوئے مشرقی پاکستان کو الگ کیا گیا۔ پاکستانی قوم اس تقسیم کو تسلیم نہیں کرتی۔ جس طرح لاالہ الااللہ کے کسی حصہ کو الگ نہیں کیا جاسکتا اسی طرح اس کلمہ کی بنیاد پر معرض وجود میں آنے والے ملک کو بھی الگ الگ حصوں میں قبول نہیں کیاجاسکتا۔ تقسیم ہند کے موقع پر حیدرآباد دکن ، جونا گڑھ اور دیگر مسلم اکثریتی ریاستوں نے بھی لاالہ الااللہ کی خاطر پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کیا تھا مگر انگریز اور ہندو کے گٹھ جوڑ کے نتیجہ میں یہ علاقے پاکستان کے ساتھ شامل نہ ہو سکے۔ آج کشمیر ی مسلمان بھی اسی کلمہ کیلئے پاکستان سے ملنا چاہتے ہیں لیکن بھارت سرکار کی جانب سے ان پر بے پناہ مظالم ڈھائے جارہے ہیں۔ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ کا نعرہ سب سے پہلے بنگالی مسلمانوں نے لگایا تھا۔ اس کے بعد پنجاب، سرحد، بلوچستان اور سندھ نے ان کی آواز پر لبیک کہا اور کلمہ طیبہ کی بنیاد پر سب کچھ قربان کرنے کا عہد کیا گیا۔ 1940ء سے شروع ہونے والی اسی مقدس تحریک کے نتیجہ میں اللہ نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک الگ خطہ عطاکیاتھا۔
Pakistan
پاکستان کے دولخت ہونے میں اس وقت کے سیاستدانوں اور حکمرانوں کی بڑی غلطیاں ہیں جنہوںنے قرآن کو اس ملک کا آئین اور اسلام کو ملک کا دین نہیں بنایا اور پھر غاصب بھار ت کی سازشیں کامیاب ہوئیں۔آج بھی جو سیاستدان امریکہ کی خوشنودی کیلئے انڈیا سے دوستی کیلئے بھرپور کوششیں کر رہے ہیں وہ اپنی تاریخ سے ہی واقف نہیں ہیں اور یہ باتیں ان کے ذہنوں سے نکل چکی ہیں کہ پاکستان کس مقصد کیلئے اور کس قدر قربانیاں پیش کرنے کے بعد حاصل کیا گیا تھا۔ انتہائی افسوسناک امر ہے کہ آج ہمارے سیاستدان سب کچھ بھول کر محض امریکہ کی خوشنودی کیلئے لاکھوں مسلمانوں کے قاتل ہندو بنئے سے دوستیاں پروان چڑھانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ یہی وہ خطرناک کھیل ہے جو 16 دسمبر 1971ء کو مشرقی پاکستان میں کھیلا گیا تھا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس وقت بھارت نے فوج کشی کر کے پاکستان کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا تھا اور اب وطن عزیز پاکستان چونکہ ایٹمی قوت رکھتا ہے اس لئے سازشوں کا انداز تبدیل ہو گیا ہے۔ تقسیم ہند سے قبل جب مہاتما گاندھی کی جانب سے ہندو مسلم بھائی بھائی کا نعرہ لگایا جاتا تھا اور بانی پاکستان محمد علی جناح اور علامہ اقبال نے مسلمانوں میں یہ شعور بیدار کیا تھا کہ ہندو الگ مسلمان الگ ہیں۔ وہ تین کروڑ خداؤں کا پجاری اور مسلمان ایک اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کرنے والے ہیں یہ بھائی بھائی نہیں ہو سکتے۔ اس وقت بھی بعض لوگ گاندھی کی حمایت میں ایسی ہی باتیں کیا کرتے تھے۔ آج جو لوگ یہ باتیں کرتے تھے کہ پاکستان اور بھارت کا موسم ایک، رنگ، نسل اور زبان ایک ہے۔
وہ جذباتی لوگ تھے، جنہوں نے پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کا نعرہ لگایا تھا اس لئے پرانی باتیں چھوڑ کر ہمیں آگے کی جانب بڑھنا چاہیے اور نفرت کی لکیریں ختم کرنی چاہئیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسی سوچ رکھنے والے لوگ ہی پڑھنے لکھنے کے سوا پاکستان کا مطلب کیا؟ کے نعرے لگا رہے ہیں تاکہ نوجوان نسل کے ذہنوں سے نظریہ پاکستان اور کلمہ طیبہ کی بنیادوں پر مبنی تصور اور سوچ کو کھرچ کھرچ کر نکالنے کی کوششیں کی جائیں۔تاریخ گواہ ہے کہ مشرقی و مغربی پاکستان کے محب وطن نوجوانوں نے ہندوستان کی بنائی گئی مکتی باہنی کا مقابلہ کیاتھا اور آج بھی پاکستان کے محب الوطن نوجوان اس مملکت خداداد پاکستان کی خاطر ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار ہیں۔ پاکستان کے موجودہ حالات بھی مفاد پرست حکمرانوں کی بدولت خراب ہورہے ہیں اور آج ہمیں ہر صوبے میں لسانیت اور زبان کی بنیاد پر نفرتیں جنم لیتی ہوئی نظرآ رہی ہیں جس کی وجہ سے عوام کے درمیان دوریاں پیدا ہورہی ہیں، بلوچستان کے عوام کے ساتھ حکمرانوں کا رویہ اس قدر برا ہے کہ وہاں احساس محرومی بہت بڑھ گیا ہے اور آزادی کے نعرے بلند ہونے لگے ہیں۔
Nawaz Sharif
حکمران اپنا قبلہ درست کریں اور عوام میں پیدا ہونے والا احساس محرومی اور نفرتیں ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔اس ملک میں ایک بڑی آبادی نوجوانوں پرمشتمل ہے جو محب وطن بھی ہیں اورپاکستان کی تعمیر وترقی میں اپنا کردار ادا کرناچاہتے ہیں۔ مگر آج پاکستان میں امریکا و دیگربیرونی ممالک کی مداخلت،پرچی سسٹم،طبقاتی تقسیم،فساد اور انتشار،سیاستدانوں کی چالبازیاں،ملکی سالمیت کو لاحق خطرات، ڈرون حملوں کی صورت میں پاکستان کی خود مختاری پر شب خون، بیروزگاری، مہنگائی ، کرپشن، سفارشی کلچر اور تعلیم کے یکساں مواقع نہ ہونے پر پاکستان کا نوجوان مایوس اور فکرمندہے اورناقص حکمت عملی کی وجہ سے آج اس نوجوان طبقہ میں مایوسی بڑھ رہی ہے۔حکمرانوں کو اس بات سے ڈرنا چاہیئے کہ کہیں اور مشرقی پاکستان جیسا سانحہ نہ ہو۔