تحریر : عبدالجبار خان دریشک دیہاتوں میں جب گندم کی بیجائی کی جاتی ہے تو گندم کے بیج اگنے تک کسان اس کی رکھوالی کرتے ہیں کیونکہ پرندے جن میں خاص طور پر کوے ان بیجوں کو اگنے سے پہلے کھا جاتے ہیں۔ جب یہ کوے کسی کھیت کو کھانے جاتے ہیں تو پہلے سارے کوے ایک ساتھ یہ وارت نہیں کرتے پہلے ایک کوا صورت حال کو بھانپ کر کھیت میں داخل ہوتا جب وہ اس میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹتا ہے اس کے باقی ساتھی اس کی کامیاب واپسی کو دیکھا کر جرت مند بن جاتے ہیں اور وہ اس کھیت پر سارے کے سارے ٹوٹ پڑتے ہیںپھر وہ سب اپنی مرضی سے آتے ہیں بیج کھاتے ہیں اور چلے جاتے ہیں اور یہ سلسلہ تب تک جاری رہتا ہے جب بیج سے پودے نہیں بن جاتے اور وہی بیج پودے بنتے ہیں جو قسمت سے اس کوے کا نوالہ بننے سے بچ جاتے ہیں۔
کسان ان سے بچنے کے لیے اکثر پہرے داری کے ساتھ ایک اور بڑا کام کرتے ہیں وہ کسی ایک کوے کا بندوق سے نشانہ لگا کراسے ہلاک کر دیتا ہے اور اس مرے ہوئے کوے کو کھیت کے عین درمیان میں کسی لمبی لکڑی کے ساتھ باندھ کر الٹا لٹکا دیا جاتا ہے جب کوئی بھی کوا یا ان کا جھنڈ اس فصل کا رخ کرتا ہے تو دور سے انہیں اپنا ایک ساتھی الٹا لٹکا نظر آتا ہے تب وہ دور سے کاں کاں کرتے ہیں اور اس فصل کے قریب نہیں جاتے وہ پھر کسی اور طرف اپنا رخ کرتے ہیں جس کھیت کا مالک غافل ہوتا ہے وہ اس کھیت ہیںکو اجڑانے چلے جاتے ہیں۔
قصور میں ہونے والے واقعہ بھی کھیت کے مالک(یعنی حکمرانوں ) بھی غافل ثابت ہوئے معاشرے میں امن کی فضاءقائم رکھنا حکو متچلانے والوں کی ذمہ داری میں شامل ہے۔ مصوم زینب کے ساتھ ہونے والے واقعہ نے پوری قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ پاکستان میں اپنی نو عیت کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے ایسے درندگی کے سانحے ہر روز ہوتے ہیں مصوم بچوں کو درندے نوچ کھاتے ہیں ۔ا س چمن کی جس نے حفاظت کرنی ہے وہ عافل ہو چکا وہ مالی اب مالی نہیں رہا وہ کچھ اور بن چکا ہے مالی تو پھولوں سے پیار کرتا ہے ان کی حفاظت کرتا ہے جب ایک درندہ ایک پھول کو مسل کر کوڑے میں پھنک جاتا ہے اور اس کو کوئی کچھ نہیں کہتا تو اور درندوں کا حوصلہ بلند ہوجاتا ہے اور وہ اپنے شکار کو نکل پڑتے ہیں یہ درندے صرف پھولوں کو مسلنے والے نہیں ہیںبلکہ ان کو کاٹ کربیچنے والے بھی ہیں ان اور فروخت کرنے والے اغواءزہر ملا دودھ فروخت کرنے والے پیسوں کے لالچ میں دو نمبر چیز یں بیچنے والے بھی ہیں۔
ملک میں اب تو دن بدن بچوں کے لیے ہر طرف صورت حال پریشان کن ہوتی جارہی ہے بچے نہ گھر میں محفوظ ہیں نہ ہی سکول مدرسے و کھیل کے میدان اور نہ ہسپتال میں درندگی کاوائرئس ہر طرف پھیل چکا ہے ہم تو اتنے نااہل اور ناکام ہو چکے ہیں کہ ہمارے بچوں کو ہسپتالوں میں چوہے کاٹ کھاتے ہیں اب اس بڑی گلستان کی بربادی اور کیا ہوگئی کہ درندوں کے ساتھ کیڑے مکوڑوں کا بھی ہمارے بچوں کا شکار کرنے لگے ہیں ہم نہ تو اپنے بچوں کی حفاظت کر سکتے ہیں نہ ہی انہیں بہتر تعلیم اور بہتر علاج دے سکتے ہیں بس ایک کام کر سکتے ہیں کسی درندے کے ہاتھوں شکار ہونے والے بچے کے ساتھ رات کے اندھیرے میں تعزیت کر کے فوٹو سیشن کروا سکتے ہیں ہاں بھائی عوام کے بچے مریں گے تو تعزیت افسوس مذمت کی کوریج ملے گی عوام دو دن احتجاج کر کے تھک کر سکون سے خامو ش ہو جائے گی اور اشرافیہ پھر اسی اقتدار کے رسے کو اپنی اپنی جانب کھنچنا شروع کر دے گی جو اس طر ح کے واقعات میں تھوڑی دیر کا وقفہ کر لیتی ہے اس رسہ کشی کا زور دونوںجانب برابر رہتا ہے پھر کوئی قوت دائیں چلی جاتی ہے تو دائیں کامیاب ہوجاتے ہیں جب وہی قوت بائیں جانب جاتی ہے تو بائیں کامیاب ہوجاتے ہیں بس ستر سال سے رسہ کشی جاری ہے اور کوئی قوت اپنا وزن کبھی دائیں تو کبھی بائیں ڈالتی رہتی ہے اور پلڑا ایسے اوپر نیچے ہوتا رہتا ہے۔اور ان زور آوار پلڑوں میں مصوم کی صرف تعزیت کا وزن بھی ان کے ز ور میں شامل ہو جاتا ہے۔
خدارہ اب اس اقتدار کے رسے کا چھوڑیں اپنے گلستان کے پھولوں کو بچائیں انہیں درندوں سے بچائیں بیماریوں بچائیں فروخت اور اغواءزہریلے پانی ‘ دودھ ‘ ناقص خوراک ‘ جہالت ‘ غربت ‘موسموں کی شدت ‘ بھوک افلاس سے بچائیں۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے گلستان کے پھول ایسے مہکتے رہیں تو ان گلستان کے پھولوں کو مسلنے والے کو عین کھیت میں کوے کی طرح لمبی سی لکڑی کے باندھ کر الٹا لٹکائیں تاکہ یہ درندہ دور سے باقی درندوں کو نظر آ سکے کہ اس کھیت کا مالک کھیت اجاڑنے والے کو الٹا لٹکا دیتا ہے۔