تحریر : پروفیسر رفعت مظہر آجکل نواز لیگ کے خلاف کئی محاذ کھلے ہوئے ہیں اور مزید کچھ کھولے جارہے ہیں ۔پیپلزپارٹی اورتحریکِ انصاف ”اندرکھاتے” گَٹھ جوڑکرکے سڑکوںپر آنے کوتیار ہیں ۔نیویارک میںبیٹھے آصف زرداری نے اِس کی طرف واضح اشارہ بھی کردیا ۔پیپلزپارٹی نے اپنے پانچ سالہ دَورِ اقتدار میں کھُلی کرپشن کے اگلے پچھلے سارے ریکارڈ توڑدیئے ۔اُس کامطالبہ واضح کہ ”نہ چھیڑملنگا نوں”۔ کپتان صاحب اورڈاکٹرطاہر القادری کے مشترکہ دھرنے کے دَوران پیپلزپارٹی نے نوازلیگ کی کھُل کرحمایت کی اورڈَٹ کراُس کے ساتھ کھڑی ہوگئی ۔بہانہ ”جمہوریت بچاؤ” کالیکن تگ ودَو اپنادامن بچانے کی ۔اُن دنوںکپتان صاحب کھُلم کھُلاالزام لگاتے تھے کہ یہ ”مُک مکا” کی سیاست ہے ۔آجکل اِس مُک مکاکی سیاست کاالزام نوازلیگ کے اکابرین تحریکِ انصاف اورپیپلزپارٹی پرلگا رہے ہیں۔
دھرنوںکے ایام میںاگرجمہوریت پسند سپہ سالار جنرل راحیل شریف جمہوریت کی بقا کے لیے ڈَٹ نہ جاتے تونوازلیگ کی کب کی چھُٹی ہوچکی ہوتی ،پھرنہ توپارلیمنٹ کامشترکہ اجلاس فوج کوآنے سے روک سکتا اورنہ ہی سیاسی جماعتوں کا”اَکٹھ ” ۔ صورتِ حال آج بھی وہی اور”شریفین” اب بھی ایک صفحے پرلیکن آخر کب تک ؟۔ اگر حکمرانوںکا چلن ایساہی رہاتو پھرشاید سپہ سالاربھی اُنہیں بچانہ سکیں۔نوازلیگ کے خلاف دوسرامحاذ دینی جماعتوںنے کھول رکھاہے ۔پنجاب حکومت نے حقوقِ نسواںبِل کیا پاس کیا گویا دبستاں کھُل گیا ۔15 مارچ کوامیرِجماعت اسلامی محترم سراج الحق کی صدارت میں پچیس دینی جماعتوںکا منصورہ میں اجلاس ہوا جس میںحکومت کو27 مارچ تک حقوقِ نسواںقانون ختم کرنے کی ڈیڈلائن دے دی گئی۔
دینی جماعتوںنے مشترکہ اعلامیے میںکہا ”27 مارچ تک پنجاب حکومت متنازع بِل واپس لے ،2 اپریل کوعلماء و مشائخ کانفرنس اسلام آباد میںمنعقد کی جائے گی اورآئندہ کالائحہ عمل طے کیاجائے گا ”۔ اِس اجلاس میں علماء نے بہت گرماگرم گفتگو کی اورکہا کہ اگر حکمرانوںنے خلافِ شریعت طرزِ عمل ترک نہ کیا ،تحفظِ ناموسِ رسالت ، سعودی معیشت کے خاتمے اورخاندانی نظام کی بربادی کے مغربی ایجنڈے سے لاتعلقی کااعلان نہ کیاتو 1977ء کی تحریکِ نظامِ مصطفےٰ ۖ سے بھی بڑی تحریک اُٹھے گی جس کامقابلہ کرنا کسی کے بس میں نہیںہوگا۔
Siraj ul Haq
امیرِجماعت اسلامی نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عالمِ اسلام آج جس آزمائش سے دوچارہے اِس کے اصل ذمہ دارمغرب کے کاسہ لیس اورعالمی استعمار کے زَرخرید غلام حکمران ہیں ۔حقوقِ نسواںبِل کے نام پردشمن نے ہمارے خاندانی نظام پرحملہ کردیا ہے اوراسے توڑنے کے لیے ہماری حکومت کو ہدف دیاگیا ہے ۔کلمے کے نام پرحاصل کیے گئے ملک میں شراب اورہم جنس پرستی کی باتیں شروع ہوگئی ہیں ۔حکمران عالمی دباؤ پربھارت سے بغلگیر ہورہے ہیں اوراسرائیل کوتسلیم کرنے کی باتیں ہورہی ہیں۔مولانافضل الرحمٰن نے کہاکہ ایک ملاقات کے دَوران وزیرِ اعظم میاں نوازشریف نے حقوقِ نسواںبِل پروزیرِ اعلیٰ پنجاب کی سرزنش کی ،وزیرِ اعظم نے کہاکہ اِس بِل کے بارے میں پارٹی کوبھی لاعلم رکھاگیا۔
اُنہوںنے شہبازشریف کواِس مسٔلے کوفوری ختم کرنے کی ہدایت کی ۔مولانا فضل الرحمٰن نے مذید کہاکہ پاکستان میں خاندانی نظام کوتباہ کرنا بین الااقوامی ایجنڈاہے جس پرساری حکومتیں ایک صفحے پر ہیں ۔قوم کوگُڑ میں زہر ملاکر دیاجا رہاہے ۔بِل پیش کرنے سے پہلے حکومت نے میڈیاکو اِس کی تشہیر سے روکا اورکسی کومطالعہ کرنے کاموقع بھی نہیںدیا گیا۔ یہ بِل NGO’s اورسیکولر طبقے کوخوش کرنے کے لیے پاس کیا گیا ۔مولاناسمیع الحق نے انکشاف کیا کہ ایک ملاقات میںمیاںنوازشریف نے کلمہ پڑھ کرملک میںشریعت کے نفاذکا وعدہ کیاتھا مگرآج تک وہ وعدہ وفانہیں ہوسکا۔
آج وزیرِاعظم ہاؤس میںبیٹھ کر شرمین چنائے کی اسلام اورپاکستان کوبدنام کرنے والی فلمیں دیکھی جارہی ہیں ۔مولانانے یہ انکشاف بھی کیاکہ شہبازتاثیر کی رہائی کے بدلے تاثیرخاندان نے ممتازقادری کومعاف کردیا تھا لیکن حکومت نے اِس معاہدے کے فوری بعد انتہائی عجلت میںممتاز قادری کوپھانسی پرلٹکا دیا ۔حافظ محمدسعید نے کہا کہ دشمن چاہتاہے کہ پاکستان اسلامی نہ رہے ،لبرل بن جائے۔ اگرہمارے جید علمائے کرام کی یہ تمام باتیں درست ہیں (ہم اِنہیں درست ہی تسلیم کرتے ہیں) توپھر یہ قوم کے لیے بھی لمحۂ فکریہ ہے ۔اسلام کے نام پرحاصل کیے گئے۔
Punjab Assembly
اِس ملک میں قوم نہ توکبھی غیراسلامی اورغیر شرعی بِل پاس ہونے دے گی اورنہ ہی دینِ مبیںسے ہٹ کرکسی دوسرے ”اِزم” پرسمجھوتہ کرے گی ۔میاںنواز شریف صاحب نے ”لبرل پاکستان” کانعرہ لگاکر اپنے پاؤ ںپر خودہی کلہاڑی ماری ہے اورہم جیسے لوگ جواُنہیں دائیںبازو کانمائندہ سمجھتے تھے ،یہ سوچنے پرمجبور ہوگئے ہیں کہ کیااتنے عرصے تک نوازشریف کی حمایت کرکے ہم بھاڑہی جھونکتے رہے ؟۔ رہی حقوقِ نسواں بِل کی بات تواِس کے بارے میںہم نے پہلے بھی عرض کیاتھا اورآج بھی یہی کہتے ہیںکہ خواتین کوسب سے پہلے تحفظ دینِ مبیں نے ہی دیا اورعورت کی عزت ووقار کے اقدامات بھی ہمارے ہی دین نے کیے۔
چودہ سوسال پہلے کی تاریخ اُٹھا کردیکھ لیجیے جب صحرائے عرب میںدین کانور پھیلاتو عورت کوایک منفرد اورقابلِ تکریم مقام ملا۔ ہم نے اپنے کالم میں واضح طورپر لکھاتھا کہ ہم ایسے بِل پرہزار لعنت بھیجتے ہیںجو ہمیںدینِ مبیںسے دورکرے ۔ہم آج بھی یہی کہتے ہیںکہ اگراِس بِل میںخلافِ شریعت کوئی بات ہے تواُسے فوری طورپر ختم کردینا چاہیے لیکن ۔۔۔۔۔ لیکن اگریہ ساراشور ،سارا غصّہ اورسارا احتجاج محض ”مَرد” کی حاکمیت نُما چنگیزیت برقرار رکھنے کے لیے ہے توپھر ہم دست بستہ عرض کریںگے کہ ہمارے علمائے کرام بھی اپنی اداؤںپہ ذراغور کرلیں۔
ہاں محترم رانا ثناء اللہ سے درخواست ہے کہ وہ ” تِیلی” لگاناچھوڑ دیں۔ہم جانتے ہیںکہ اُنہیںجلتی پرتیل چھڑکنے میں مہارتِ تامہ حاصل ہے لیکن کبھی کبھی وہ اپنی جماعت کادھیان بھی کرلیا کریں جس نے اُنہیں اِس مقام تک پہنچایاہے ۔عین اُس موقعے پرجب دینی جماعتوںکا غصّہ اوراحتجاج اپنے عروج پرہے ،راناثناء اللہ نے یہ بیان داغ دیا کہ تحفظِ خواتین ایکٹ کانوٹیفکیشن روکا نہیںگیا اب یہ ایکٹ ایک قانون کی صورت میںموجود ہے اوراِس پرعمل درآمد بھی شروع کردیا گیاہے ۔یہ بِل جن علاقوں میںنافذ ہوگا وہاں پروٹیکشن سنٹر قائم کیے جائیںگے اورپہلا پروٹیکشن سنٹرملتان میںبنایا جائے گا۔راناصاحب سے استدعاہے کہ وہ پہلے اپنی پروٹیکشن کاسوچ لیںپھر پروٹیکشن سنٹڑبھی بنتے رہیںگے۔