اسلام آباد : قائد اللہ اکبر تحریک ڈاکٹر میاں احسان باری نے سبھی برسر اقتدار حکمرانوں کو انتباہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مستقبل قریب کے حالات سے ڈرو جب سنگلاخ چٹانوں اور ویران ریگستانوں میں سانپوں اور اژدھوں کی حکمرانی ہو گی اور بھوکے پیاسے سانپ،بچھو اور اژدھے ہمارے ہی صحرائوں سے نکل کرشہروںکا رخ کر جائیں گے۔
میٹھا پانی بالکل دستیاب نہ ہو نے کی وجہ سے آدمی آدمی کے ہی خون کا پیاسا ہو گااور حشرات الا ارض و جنگلی جانوراور بھوکے پیاسے نڈھال کسان پانی کی تلاش میں سرگرداں ہوں گے اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا راج ہو گا!ڈاکوئوں ، لٹیروں کے گروہ اور جتھے مختلف علاقوں پر قابض ہو کراپنی حکمرانی کے سکے چلانے لگیں گے دریائے بیاس تو ہندو بنئیے کو بیچ ڈالا گیا تھا۔
دریائے ستلج کی گزرگاہ تک صحرائے گوبی کی طرح چولستانی ریگستانوںمیں تبدیل ہو چکی ہے ہم پاکستانی ملت نے اپنے آپ کو فرقوں، لسانی گروہوں اور برادریوں میںتو تقسیم کرڈالا ہے مگر بھارت کے ساتھ پانی کی تقسیم میں ناکام ہو چکے ہیں انھوں نے کہا کہ آبی دہشت گرد بھارت چھوٹے بڑے تین درجن سے زائد ڈیم بنا کرہمیں بھوکا پیاسا مارنے کے لیے خوفناک پلان بنا چکا ہے۔
ادھر ہم”ہنوز دلی دور است “کے مصداق اور پنگھوڑے میں پڑے آخری مغل عیاش رنگیلے بادشاہ کی طرح”دے سیراں چوٹا”کا راگ الاپ رہے ہیں فوجی ڈکٹیٹر ہوں یا جمہوری کرپٹ آمر حکمران سبھی اپنا اپنا کردار ادا کرچکے ہیں غریب عوام کے خون پرقائم پاکستانی بینکوں اور خزانوں سے کھربوں روپے لوٹ کربیرون ممالک جمع کیے گئے ہیں اور ان کی اولادیں تک و ہاں صنعتوں کے ایمپائر و پلازے کھڑے کرچکی ہیں اور عوا م کی طرف سے آخری دھکا دینے کی انتظار میں ہیں و گرنہ ان کا تو اس “دیار غیر” میں دل نہیں لگتا۔
وہ بیرون ملکوں کی رنگین راتوں اور شراب و کباب کی محفلوں کے رسیاہیں ڈاکٹر باری نے مزید بتایا کہ سیاسی جھٹکا ہوتے ہی سبھی حکمران ٹولوں کی رات کے اندھیروں میں بھاگ جانے کی تیاریاں مکمل ہیں بلاول وزردای ہائوسز میں ایسے ہیلی پیڈ بن گئے ہیں جن میں دو تین ہیلی کاپٹر وں میں ہمہ وقت ڈرائیور انھیں پلک جھپکنے میں اڑانے کے لیے مو جود ہیں عمرانی بنی گالائی محلات میں بھی ایسی تیاریوں کے پلان بن رہے ہیں۔
آخر میں ڈاکٹر باری نے کہا کہ حکمرانو ڈرو اس وقت سے کہ ایرانی بادشاہ رضا شاہ پہلوی کو دو گز زمین کا ٹکڑا اسکے یورپی آقائوں نے دفن ہو نے کے لیے نہ دیا تھا شریف برادران ،زرداری اور عمران خان غور سے سنو کہ تمہارے محلات میں توپھٹے پرانے میلے کچیلے کپڑوںاور ٹوٹی پھوٹی جوتیوں والے غریب پسے ہوئے طبقات کے لوگ حتیٰ کہ تمہارے ہی کارکنان داخل تک نہیں ہو سکتے مگر آپ کی شہ زوریوں اور اکڑی گردنوں کو دیکھ کر ان مجبوروں کی آنکھوں میں خاص چمک پیدا ہو چکی ہے۔
وہ بہری قذاقوں کی طرح تمہارے ہی خون کے پیاسے ہو کرتمہارے ریت کے گھر وندوں جیسے محلات کی اینٹ سے اینٹ بجاڈالنا چاہتے ہیںکسانو ں ، مزدوروں ، کے ممکنہ لانگ مارچ کے وقت تمہارے گن مین اور حفاظتی باڑیںان کا راستہ نہیں روک سکیں گی کہ وہ حکمرانوں کی حرام خوراکیوں کی بدولت ڈھول نما توندوںکو پھاڑنا اور انہی کے خون پر پلے ہوئے بدبودارجسموں سے آخری قطرہ تک نچوڑ ڈلنا چاہتے ہوں گے۔