لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے کپتان صاحب کو ملک وقوم نہیں کرسی” سے محبت ہے اور اِس محبت کی جنگ میں وہ اپنا پرانا”بال ٹمپرنگ”والا حربہ بھی استعمال کرنے سے نہیں چونکتے کیونکہ ”جنگ اور محبت میں سب جائز ہے”لیکن ہم کہتے ہیں کہ یہ بالکل غلط اور الزام تراشی ہے کیونکہ خاں صاحب تو لَگ بھگ چودہ ماہ سے اپنی سونامی کو سمجھا بجھا کر ٹھنڈا کرتے رہے لیکن”تنگ آمد بجنگ آمد”کے مصداق ”سونامی” اب بپھر چکی ہے اور خاں صاحب کی بھی سنی ان سنی کردیتی ہے۔ سونامی کہتی ہے کہ خاں صاحب نے اپنے بیٹوں سے وعدہ کیا تھا کہ اُن سے اگلی ملاقات بطور والد نہیں وزیرِاعظم ہوگی۔ اسے یہ بھی علم ہے کہ خاں صاحب ضد کے پکے اور تھوڑے”ہَٹ دھرم”واقع ہوئے ہیں اِس لیے اب وہ اتنی دیر تک اپنے بیٹوں سے نہیں ملیں گے جب تک وزیرِاعظم نہیں بن جاتے۔
اُدھر میاں برادران کی جاری پالیسیوں اور منصوبوں کو دیکھ کرتویوں محسوس ہوتا ہے کہ کپتان صاحب کا اِس جنم میں تو وزیرِاعظم بننے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔ گویا خاں صاحب کو بیک وقت دو دُکھ جھیلنا ہونگے ایک کرسی سے دوری کا دُکھ اور دوسرا بیٹوں سے جدائی کا۔ یہ صورتِ حال سونامی کو ہرگز قبول نہیں اسی لیے یہ طے ہے کہ اب معرکہ ہو گا،آخری معرکہ۔حکمرانوں کے لیے بری اور ہمارے لیے اچھی خبریہ ہے کہ اب شیخ الاسلام اور کپتان صاحب ایک ہی بولی بول رہے ہیں۔
دونوں کا نقطۂ ارتکاز حکومت کا خاتمہ ہے لیکن اِس فرق کے ساتھ کہ خاں صاحب حکومت کے خاتمے کے بعد الیکشن چاہتے ہیں جبکہ مولانا قادری صاحب انقلاب اور کڑا احتساب۔ سوچ کا یہ معمولی فرق بھی عنقریب دور ہو جائے گا۔ ہم نے ایک لیگئے کوجب بڑے فخر سے یہ خبر سنائی تواُس نے مسکراتے ہوئے کہا چلویہ بھی اچھا ہی ہوا۔ اب ایک ہی ہلّے میں دونوں کا صفایا ہوجائے گا۔ہم نے کہا ایسی ہی خوش فہمیوں کی بدولت آپ کو پہلے بھی جَلاوطن ہوناپڑا۔
مولانا صاحب نے تو قوم کو خوشخبری سنادی ہے کہ میاں برادران نے اپنا سامان باندھ لیا ہے اور وہ پاکستان سے کھسک لینے کو تیار بیٹھے ہیں۔اب کی بار اُن کی منزل امریکہ ہے کیونکہ سعودی حکومت نے میاں برادران کو پناہ دینے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ جبکہ دوسری طرف میاں شہباز شریف کہتے ہیں کہ قرآنِ پاک کی جھوٹی قسمیں اُٹھا کر قوم کو گمراہ کرنے والا عالمِ دین ہوہی نہیں سکتا۔
مولانا طاہر اشرفی نے شیخ الاسلام کی گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر جامعہ حفصہ کی طالبات ڈنڈے اُٹھائیں تو اُنہیں فاسفورس بموں سے اُڑا دیا جاتا ہے لیکن منہاج القرآن کے سامنے ڈاکٹر طاہرالقادری کی ”مریدنیاں”ڈنڈے اٹھائے بیٹھ رہیں تواُنہیں کچھ نہیں کہا جاتا۔ اشرفی صاحب کو پتہ ہونا چاہیے کہ یہ”آستانۂ قادریہ”ہے جہاں جمال نہیں جلال ہی جلال ہے۔ حکومت نے کنٹینر لگا کر منہاج القرآن کی طرف جانے والے راستے تو بند کر دیئے لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ مُرشد کے ایک اشارے پر سارے کنٹینر بھاپ بن کراُڑ جائیں گے۔ اُنہوں نے اپنی ڈنڈابردار فورس کو حکم دیا جس نے پہلے پولیس کی دوڑیں لگوائیں اور پھر پلک جھپکتے میں منہاج القرآن کی طرف جانے والے راستوں کی ساری رکاوٹیں دور کردیں۔ رہا شیخ الاسلام کی گرفتاری کا معاملہ توسوال یہ ہے کہ بِلّی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟۔
یہاں تو صورتِ حال یہ ہے کہ بِلّی ہی”شیر”پر حاوی نظر آتی ہے اور اب تو منہاج القرآن کی ”خونخوار”بلیوں نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ وہ شیخ الاسلام کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جانیں قُربان کردیں گی۔ اُنہوں نے اپنے آپ کو مختلف گروہوں میں منقسم کرکے شیخ الاسلام کی حفاظت بھی شروع کردی ہے۔ویسے اِن حکومتی”بھولے بادشاہوں”کو اتنا تو علم ہونا چاہیے تھاکہ ہم نے انقلاب کا نعرہ”ایو یں ای”تو نہیں لگا دیا تھا۔ ہم نے اپنے گھوڑے تیار رکھے اور مُرشد کے حکم پر سروں پہ کفن بھی باندھ لیے لیکن”بادشاہ”استراحت فرماتے رہے۔
Tahir ul Qadri
مُرشد کے حکم پر سبھی ایک ہاتھ میں کیل لگے ڈنڈے، دوسرے میں ڈھال، مُنہ پر گیس ماسک اور سروں پر ہیلمٹ ڈالے جب باہر نکلے تو پولیس کی دوڑیں لگوا دیں اور حکومت جو تین دِن سے کنٹینر لگا لگا کر”ہَپھ”چکی تھی اُس کی اِس کوشش کوتہس نہس کرتے ہوئے سارے کنٹینر لمحوں میں الٹاکے رکھ دیئے۔ یہی نہیں بلکہ شیخ الاسلام کے دیوانوں، پروانوں اور مستانوں نے پورے ملک میںوہ”دھمال”ڈالی اور پولیس کاایسا حشر کیا کہ”کوئی یہاں گرا، کوئی وہاں گرا۔ گوجرانوالہ کے علاقہ سادھوکی میں 51 پولیس اہلکار زخمی ہوئے اور کچھ اغوا۔
خوشاب کا تھانہ ریکارڈ سمیت جلا دیا حوالات توڑ کرتین خطرناک ڈاکوؤں کو رہا کروایااور ڈی ایس پی سمیت چار پولیس اہلکاروں کو اغو کر لیا تاکہ”بوقتِ ضرورت”کام آئیں۔ یہی نہیں بلکہ اب تو میاں شہباز شریف کی ناک کے عین نیچے اوراُن کے گھرسے چند قدم دور منہاج القرآن کے سامنے سے بھی چھ پولیس اہلکاروں کو یَرغمال بنا لیا گیاہے۔ اب تو”بادشاہوں”کوپتہ چل گیا ہو گا کہ شیخ الاسلام کی ڈنڈابردار فورس اُن کے احکامات کو”صحیفۂ آسمانی”سمجھتی ہے۔ میںنے ایک نواز لیگیئے سے کہا کہ حکومت ایک چھوٹے سے علاقے(ماڈل ٹاؤن) میں تو اپنی رِٹ قائم کرنہیں سکی، پورے ملک میں کیا خاک کرے گی۔
اُس نے تَپ کر جواب دیا کہ حکومت اِن”دہشت گردوں”کو چیونٹی کی طرح مَسل سکتی ہے لیکن طاہر القادری کی کوشش ہے کہ اُسے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی طرح مزید لاشیں مِل جائیں جو ہم ہونے نہیں دیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت طاقت کا بھر پور استعمال نہیں کر رہی۔ میں نے کہا کہ اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ مُرشد کے پروانے صرف ڈنڈابردار فورس تک محدود ہیں تووہ یہ خوش فہمی دِل سے نکال دیں۔ یہ توہماراصرف ہراول دستہ تھا۔
ہمارے پاس ٹھیک ٹھیک نشانے لگانے والوں کی کمی ہے نہ جدید ترین اسلحے کی۔ ذراوقت کو آگے کھسکنے دیں، پھر ایسا دمادم مست قلندر ہو گا کہ ہمارے بیرونی دوست خوش ہوجائیں گے اور یہ جو عزیز بھائی اور معروف کالم نگار رؤف طاہر نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ”ایک دوست کی تجویز ہے۔ قائدِ انقلاب کی اشتعال انگیز تقاریر کی وڈیو اسلام آباد میں کینیڈین سفارت خانے کو بھجوا کر پوچھا جائے کہ فتنہ وفساد پر ابھارنے والی، اِس کے شہری کی اِن سرگرمیوں پر کیا کارروائی کی جائے۔
بھائی رؤف طاہر کے دوست بھی حکمرانوں کی طرح”بھولے بادشاہ”ہی ہیں کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ منہاج القرآن کا میڈیا سیل پہلے ہی نہ صرف کینیڈا بلکہ اپنے دیگر بیرونی دوستوں کوایک ایک لمحے سے باخبر رکھ رہا ہے بلکہ اُن سے ہدایات بھی لے رہاہے۔ کینیڈین حکومت کی تواپنے ”شہری”کے کارناموں پر باچھیں کھلی جارہی ہیں، پنجاب حکومت لاکھ کینیڈین سفارت خانے کوخط لکھے، وہ اپنے”کارآمد”شہری کی شہریت منسوخ نہیں کرنے والی۔