تحریر : راجہ وحید احمد خواب دیکھنا صحت مند زندگی کی علامت ہے خواب دو قسم کے ہوتے ہیں ایک جو ہم سُوتے ہوئے دیکھتے ہیں اور دوسرا وہ جو ہم جاگتی آنکھوں سے دیکھتے ہیںجاگتی آنکھوں سے دیکھے جانے والے خواب زندگی کا رُخ متعین کرتے ہیں یہ خواب دراصل وہ خواہشات جو ابھی تک پوری نہیں ہو سکی اُن کا دوسرا نام ہے یہ خواب زندگی میں ایک جذبہ ،حوصلہ ، ولولہ، جوش اور ہمت پیدا کرتے ہیں جا گتی آنکھوں سے دیکھے جانے والے خواب بھی دو قسم کے ہوتے ہیں ایک انفرادی دوسرئے اجتماعی انفرادی خواب جو میں یا آپ دیکھتے ہیں کہ ہمار ا ایک گھر ہو گامیرا بیٹا ڈاکٹر بنے گا یہ ہمارا انفرادی خواب ہے اجتماعی خواب جیسے ذولفقار علی بھٹو ، ڈاکٹر عبدلقدیر خان اور اُن کے چند ساتھیوں نے ملکر خواب دیکھا کہ اس ملک کو ایٹمی طاقت بنائے گے کچھ خواب دیکھے جاتے ہیں اور کچھ دکھائے جاتے ہیں لیکن دکھائے جانے والے خواب کو بھی ہم اپنا ہی خواب سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔
انفرادی خواب ہی اجتماعی خواب کی شکل اختیار کر لیتے ہیں جیسے علامہ محمد اقبال کا یہ خواب کہ مسلمانوں کے لیے ایک الگ ملک ہونا چاہیے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے مسلمانوں کا اجتماعی خواب بن گیا اور پھر قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں اس خواب کو تعبیر ملی ایران میںامام خمینی کی قیادت میں انقلاب کا خواب اجتماعی خواب تھا چین کومعاشی طاقت بنانے کا خواب چینیوں کا اجتماعی خواب تھا جنوبی آفریقہ کی آزادی کا خواب جو نیلسن منڈیلا کی قیادت میں پایہ تکمیل کو پہنچا وہ بھی ایک اجتماعی خواب تھا قیام پاکستان کے بعد اس ملک میں اجتماعی خواب دیکھے نہیں گئے بلکہ دکھائے گئے ہیںلیکن اکثر ان خوابوں کو ہم اپنا خواب ہی سمجھنا شروع کر دیتے ہیں کیونکہ ہماری خواہشات انصاف کا حصول،کرپشن کا خاتمہ، بلا تفریق احتساب، بے روزگاری کا خاتمہ،عزت نفس کی بحالی،پر سکون زندگی، بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی(تعلیم ،صحت ،روٹی ،کپٹرا اور مکان) اور آزادی اظہار رائے جو ابھی تک مکمل نہیں ہو سکی جس کی وجہ سے ہم دوسروں کے مفادات سے وابستہ خواہشات کو بھی اپنے خواب سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔
میری زندگی میں اس ملک میںجاگتی آنکھوں سے دیکھے جانے والے چار خواب ایسے تھے جن کو ہم اجتماعی خواب کہہ سکتے ہیںان چار میں سے دو خواب ایسے تھے جن کے سحر میں گرفتار ہونے والوں میں میں بھی شامل تھا1997کے وسط میں عمران خان کی شخصیت کی وجہ سے میرئے جیسے لوگوں نے یہ خواب دیکھنا شروع کر دیا کہ پاکستان تحریک انصاف کی وجہ سے اسمبلیوں میں متوسط طبقے، پڑھے لکھے اور ایماندار نوجوانوں کو نمائندگی ملے گی سیاست سے جدی پشتی حکمرانی کا خاتمہ ہو گاایماندار لیڈر کی سربرائی میںایماندار لوگ ہی پاکستان تحریک انصاف کا حصہ ہو گے مکار ،عیار اور کرپٹ سیاستدانوں سے ملک کی جان چھوٹ جائے گی2013تک اسی فیصد نوجوان اس خوبصورت خواب کی لپیٹ میں آ چکیں تھیںلیکن پھر پاکستان تحریک انصاف میں بھی ایماندار لوگوں کی جگہ مہا کرپٹ لوگ قابص ہو گئے پڑھے لکھے نوجوانوں کی جگہ وہ ہی گھسے پٹے پرانے چہرئے،سرمایہ دار اور جاگیر دارجماعت کی اگلی صفوں میں گھس گئے اور یہ سپنا بھی ادھورا رہ گیادوسرا خواب جس میں اس ملک کی اکژیتی آبادی محو خواب تھی ہر عمر اور اس ملک کے پڑھے لکھے اور سمجھدار لوگ بھی اس خواب کے سراب میں کھو گئے کہ اب وہ وقت آچکا ہے۔
جب قانون کی حکمرانی ہو گی بلا تفریق احتساب کا آغاز ہو گا حکمران عوام کے سامنے جوابدہ ہو گے زیادتی اور ظلم کا بازار بند ہو جائے گا آمریت کے سیاہ بادل اس ملک پر ہمیشہ کے لیے منڈلانا بند ہو جائے گے ملک دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرئے گااس خواب کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے میں میڈیا نے بھی ایک اہم کردار ادا کیا یہ بات ہے جنرل پرویز مشرف کے آخری دور کی جب سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی وجہ سے اس طلسم کی گرفت میں ایک بار پھر ہم سب آ گئے اعتزاز احسن کی نظم ،،دھرتی ہو گی ماں کے جیسی،، انسان میں ایک نیا جوش اور جذبہ پیدا کر دیتی تھی اس خواب کی تعبیر کے لیے لوگوں نے خون بہایا، ساری ساری رات سٹرکوں پر کھڑئے رہیں ایک دیوانگی کا عالم تھا اس طرح لگتا جس طرح جس صبح کا انتظار تھا وہ طلوع ہونے والی ہے جو اس انقلاب میں شامل نہیں بھی ہونا چاہتے تھیں اُن کو اپنی ساکھ بچانے کے لیے شامل ہونا پڑا افتخار چوہدری بحال ہوئے لیکن اُن کے انقلاب کا بھرم بھی اُن کے بیٹے ارسلان چوہدری کی ایک ٹکر سے ہی پاش پاش ہو گیا اس انقلاب کا فاہدہ اٹھایا اُن کے بیٹے نے یا اُن لوگوں نے جو اُن کی وجہ سے جوڈیشری میں تعنیات ہو گئے یا اُنھوں نے جنہوں نے اُن کے دور میں فیس کی مد میں بڑی بڑی رقوم بٹور لی اور عوام کے ہاتھ کیا آیا صرف خواب ان دو خوابوں میں میں بھی شامل تھا لیکن میری خوش قسمتی کہ تیسرئے اور چو تھے خواب سے میں بچ نکلاتیسرا خواب بھی چند مفاد پرست عناصر کے مفاد سے وابستہ تھا۔
اس کو بھی بڑی جانفشانی سے ہٹ کرنے کی کوشش کی گئی اورا کثریت نے اس خواب کو بھی اپنی آنکھوں میں سجانا شروع کر دیا لیکن اس کو پہلے دو خوابوں کی طرح پذیرائی نہ مل سکی یہ خواب جنرل راحیل شریف سے متعلق تھا تمام ادارئے کی کامیابیوں اور قربانیوں کو صرف ایک شخص کے پلڑئے میں ڈال دیا گیا کچھ بے چاروں نے تو اُن کو محمد بن قاسم سے بھی تشبیہ دی تو کچھ نے اُن کو تمام مشکلات سے نجات دلانے والانجات ہندہ قرار دیا کچھ نے تو اپنے مفاد کو مدنظر رکھ کر بینرز بھی آویزاں کر دہیے،، کہ جانے کی باتیں مت کرو،، لیکن جنرل صاحب دانش مند نکلے جو مقررہ وقت پر چلے گئے چوتھا خواب جس کی اقساط کو آجکل پورئے زورو شور سے نشر کیا جا رہا ہے نعرہ پھر وہ ہی پرانا بلا تفریق احتساب،لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانا ،غربت کی چکی میں پسی ہوئی قوم کو خوشحال بنانا اور اکثریت اس خواب کے جال میں پھنس بھی چکی ہے میدان بھی اچھا سجایا گیا ہے میڈیا کو بھی خوب استعمال کیا جا رہا ہے مفاد پرستوں کا ٹولہ نئی نئی کہانیاں سُنا کر عوام کا جوش بڑھا رہا ہے ان دیکھا پہلوان ابھی تک کی لڑائی میں جیتتا ہوا نظر آ رہا ہے تین بار کا چمئین پہلوان اپنے آپ کو بچانے کے لیے ہاتھ پا ئوں مار رہا ہے عوام ایڑیاں اُٹھا اُٹھا کر دیکھ رہی ہے کہ کرپشن کے الزامات میںلت پت ہوا تین بار کا چمئین پہلوان اب گرا کہ اب گر ا اور سکرپٹ کے مطابق اس کے نصیب میں گرنا ہی لکھا ہے لیکن اس کا انجام بھی پہلے تین خوابوں جیسا ہی ہو گا کیوں کہ یہ بھی اختیار ات کی جنگ ہے اور اب اس جنگ میں جانشینی کا عنصر بھی شامل ہو چکا ہے۔
تین بار کے چمپئن پہلوان کی گرفت کمزور ہو چکی ہے آخری وار تین بار کے چمپئن پہلوان پر اُس کے اپنوں کی طرف سے ہو گا اور پہلوان چاروں شانے چت اور خوشحالی کے خواب دیکھنے والی عوام کے حصے میں ایک بار پھر نیا خواب لیکن اگر ہم نے واقعی اپنی قسمت بدلنی ہے تو ہم کو اپنے آپ کو بدلنا پڑئے گا ہم خود کرپٹ ہیں لیکن کرپشن پسند نہیں، ہم خود ایماندار نہیں لیکن حکمران ایماندار دیکھنا چاہتے ہیں،ہم خود انصاف نہیں کر سکتے لیکن انصاف کے متمنی،ہم اپنا احتساب نہیں کر سکتے لیکن دوسروں کا احتساب ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں،ہم خود مفاد پرست لیکن دوسروں کو درویش صفت دیکھنا چاہتے ہیں،ہم خود جھوٹ کا پلندرہ لیکن دوسروں کو سچائی کا پیکر دیکھنا چاہتے ہیں اور ہم خود بد کردار اور دوسروں کو کردار کا غازی دیکھنا چاہتے ہیں اگر ہم نے اپنے اجتماعی خوابوں کو پایہ تکمیل تک پہچانا ہے تو ہم کو واپس اپنے اصل کی طرف جانا پڑئے گااور ہمارا اصل ہے اسلامی ضابطہ حیات نہیں تو ہم اور ہماری آنے والی نسلیں بھی صرف خواب ہی دیکھیں گی جاگتی آنکھوں سے خواب کہ،، دھرتی ہو گی ماں کے جیسی۔