برسوں سے میری قوم کاایک یہی المیہ رہاہے کہ اِس نے اپنے حق کے لئے کبھی بھی آوازنہیں اُٹھائی ہے،اور آج جب یہ 68 سالوں بعد اپناحق مانگ رہی ہے، اور جب یہ اپنے حقوق چھین لینے کے لئے ریڈزون میں پڑی سراپا احتجاج ہے، تو حکمرانوں، سیاستدانوں اور ہماری اشرافیہ کو قوم کا یہ نیا روپ کھٹک رہاہے، آج قوم کے بپھرے ہوئے نئے روپ کے سامنے اِسے کٹھ پتلی کی طرح نچانے والے سب لٹیرے مل گئے ہیںاور یہ یکدل اور یکجان ہو کر ایک ہوگئے ہیں، مگردوسری طرف قوم ہے کہ یہ بھی اپناحق چھین لینے اور کٹ مرنے سے بھی پیچھے ہٹنے کو تیارنہیں ہے
اِس لئے کہ قوم اپنے حکمرانوں، سیاستدانوں اور اشرافیہ کا مکروہ چہرہ پہچان چکی ہے،اَب ایسے میں عوام اپناحق چھیننے کی تڑپ لیئے عمران و قادری کے گونوازگو،گونوازگو کے نعرے کے ساتھ تبدیلی اور انقلاب کے لئے سمندر بن کراسلام آباد کے ایوانوں سے ٹکرا رہے ہیں اور اقتدارپرقابضین کے سامنے اپنے حقوق چھین لینے کے لئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہیں،اور انقلاب اور تبدیلی کے لئے متحدو منظم ہوگئے ہیں۔
لانگ فیلو کا کہناہے کہ ” تبدیلی آتی رہنی چاہئے کچھ نیااور خوش کن یہی زندگی ہے”آج میرے مُلک میں بھی تبدیلی اور اِنقلاب کی صدائیں چارسوگونج رہی ہیں ،اور تبدیلی اور انقلاب کے بعد خوش کُن زندگی کی بازگشت بھی حرکت کررہی ہے،اَب دیکھتے یہ ہیں کہ جن لوگوں نے قوم کو تبدیلی اور انقلاب کے لئے جھنجھوڑاہے،اور مُلک میں تبدیلی لانے کے لئے قوم میں حرکت کی جو روح پھونک دی ہے ،یہ حضرات اپنے اِس مشن میں کتنے کامیاب ہوتے ہیں اور اِن کے مخالفین کو کتنی بار اور کس کس طرح سے ناکامی کا منہ دیکھ کر اقتدارسے اپنے قابضین قدم اُکھاڑنے پڑیں گے…؟
اِس کا فیصلہ تو میں وقت اور حالات پر چھوڑتاہوں،کہ یہ کیااور کیسے نتائج سامنے لاتے ہیں…؟ بہرحال….!تبدیلی اور انقلاب کے لئے قوم میں حرکت پیداکرنے والوں نے تبدیلی اور انقلاب کا نعرہ دینے کے ساتھ ساتھ ” گونوازگو،گونوازگو ” کا نعرہ دے کر اپنے انقلاب اور تبدیلی کا منصوبہ تیارہ کررکھاہے،مگر اَب ایسے میںاُدھراقتداراور ایوانوں پر قابضین کا یہ کہنا کہ ”ہمیں قوم نے مینڈیٹ دیاہے ، تم لاکھ بولو گو نواز، گو نواز گو مگر ہم جانے والے نہیں ہم …سُن ہوگئے ہیں” یعنی یہ کہ یوں ہم جانے والے نہیں ہیں ،اَب کوئی انقلاب کی لہرکو طوفان میں بدل دے یا اپنے طوفان سے ہمارے اقتدار کو ہلانے کی ضدبھی پوری کردکھائے بھی تو .. ہم ایسے کاغذی طوفانوں سے ڈرنے والے نہیں ہیں
ہم انقلابیوں اور تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں کے طوفانوں کا ہر صورت 30 اور 31 اگست سے بھی زیادہ سخت انداز سے نمٹنے کا ارادہ رکھتے ہیں اَب ایک طرف مُلک میں تبدیلی اور انقلاب لانے والے ساری کشتیاں جلا کرکھڑے ہیںتو کہیںاِن کے خلاف دھاندلی سے اقتدار کے قابضین مقابلے کے لئے اپنی ساری مشینری کے ساتھ مورچہ زن ہیں مقابلہ کی آگ دونوں جانب لگی ہوئی ہے،یعنی کہ ایک طرف تبدیلی اور انقلاب کے لئے حرکت ہے تو دوسری طرف قابضین اقتدار انقلابیوں اور دھرنیوں کو توڑنے کی سازشوں میں مصروف ہیں،موجودہ حالات میں یوں کہہ لیجئے کہ مُلک میں خیر اور شر کی جنگ جاری ہے۔بہرحال…!آج جو کچھ بھی میرے دیس میں ہورہاہے، اِس نے ہم سب کے قول اور فعل پر لنگ کاٹیکہ اور سوالیہ نشان لگادیاہے۔
اَب اِس سارے منظر اور پس منظر میں کیاآپ اِس معقولے سے متفق ہیںکہ حرکت میں برکت ہے …؟اگر نہیں ہیں تو ہوجائیں کیوں کہ میری طر ح اِس روئے زمین پر بسنے والے ایسے انگنت افراد موجود ہیں جن کااِس پر یقین ہے کہ حرکت میں برکت ہے ،اور عدمِ حرکت فنا کا دوسرانام ہے ،آج دنیا سے جتنے بھی اِنسان گزرگئے ہیں اِن کا بھی یہی خیال تھاکہ حرکت میں برکت ہوتی ہے اور عدِم حرکت موت کی شکل ہے ، ویسے توہر زندہ اِنسان کی زندگی میں تبدیلی کا عمل بتدریج جاری رہتاہے اوراِسی تبدیلی کے عمل کو زندگی کا نام دیاگیاہے، اور سانس لینے والے زندہ دل اِنسان اپنے تبدیلی کے عمل کو اپنی اور اپنے معاشرے اور اپنے مُلک کی تبدیلی سے تعبیر کرتے ہیں ،کیوں کہ وہ یہ بات اچھی طرح سے سمجھتے ہیں کہ جب تک حرکت نہیں ہوگی
Revolution March
تو برکت بھی نہیں ہوگی اور جب تک برکت نہیں ہوگی تو پھر کچھ بھی نہیں ہوگااور تبدیلی بھی نہیں آسکے گی اور انقلاب بھی نہیں آئے گا۔آج68سال بعدموجودہ فرسودہ اور غاصبانہ نظام میں تبدیلی کے لئے عمران و قادری کے ریڈزون میں دیئے جانے والے دھرنوں کو چالیس روز سے بھی زیادہ کا عرصہ گزرچکاہے، مگرجس مقصدکے لئے یہ دھرنے دیئے گئے ،بیشک بظاہر تو دونوں کے دھرنے اُتنے کامیاب ہوتے ہوئے محسوس تو نہیں کئے جاسکتے ہیں مگر یہاں میں دونوں کے دھرنوں سے متعلق اپنی سوچ اور نقطہ نگاہ کے مطابق اپنی ایک بات نہ کہوں تو میرے قلم کا حق ادانہیں ہوگا،اورمیری وہ بات یہ ہے کہ آج عمران و قادری کی حرکت اور ہمت نے قوم کے حوصلے بلند کردیئے ہیں اور قوم کو مخصوص خاندان پر مشتمل حکمرانوں ، سیاستدانوںاور اشرافیہ سے ا پنے حق چھین لینے کا طریقہ ضروربتادیاہے،اور یقینااِسی کا نام تبدیلی ہے
جیساکہ آج کل کہاجارہاہے کہ ” تبدیلی آئے گی نہیں ، آگئی ہے”اَب اِس موقع پر میر ااُن لوگوں سے یہ کہنا ہے کہ جو عمران و قادری کے مخالف ہیں اور یہ اپنی ذاتی یا سیاسی ناراضگی کی وجہ سے عمران و قادری کو بُرا بھلا کہہ رہے ہیں ،تو میرے بھائی آپ کی ناراضگی فضول ہے مگرمیرے دوست ذراا پنے کلیجے پہ ہاتھ رکھ کر اور اپنی آنکھیں کھول کراورسچے دل و دماغ سے سوچو اور اپنے اردگردکے ماحول کا جائزہ لواوراگرتم کسی وجہ سے کسی کے سامنے یہ نہ کہہ سکوتو مجھے یقین ہے کہ تم تنہائی میں یہ بات ضرورکہے بغیر نہیں رہ سکوگے کہ ”ہاں تبدیلی آئے گی نہیں بلکہ آگئی ہے۔