آج یہ جانتے ہوئے بھی کہ سچ کا تعلق اِنسان کے دل اور اِس کے ضمیر سے ہے جو اِسے کہیں بھی ناکام اور ذلیل نہیں ہونے دیتاہے اور جھو ٹ کا تعلق اِنسان کی مرگِ ناگہاں اور ذلت و خواری سے ہے مگر ا افسوس ہے کہ اَب موجودہ دورمیں بھی میری اور میرے دیس میں بسنے والے ہر پاکستانی کی یہ مجبوری بن گئی ہے کہ ہم سب کچھ جانتے بُوجھتے ہوئے بھی سچ بولنے، سچ سُننے اور سچ لکھنے سے ڈرنے لگے ہیں ،آج میرے مُلک میں جھوٹا کامیاب اور سچاز مین پر رگڑرگڑ کر چل رہاہے، ہمارے حکمرانوں کو ایوانوں میں اور حکمران پارٹی کو پبلک مقامات پر جھوٹ ملنے سے فرصت نہیں ہے، اور اپوزیشن والے(جو حکومت ہی کی بی ٹیم کا رول اداکررہے ہیں
انہیں ایوانوں میں اپنا وجود برقرار اور زندہ رکھنے اور عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے ) محض دکھاوے کے لئے ہی حکومتی کاموں میں جھوٹ بول کر ساتھ دینا پڑ رہا ہے، اور اگر ایسے میں نیاپاکستان بنانے اور مُلک میں انقلاب لانے والے (عمران اور قادری) سچ بھی بولیں تو قوم کویہ بھی جھوٹ لگتاہے، آخریہ کب تک ہوتا رہے گا..؟ہم کب تک جھوٹ پہ جھوٹ بول کر ساری دنیا کے سامنے جھوٹے کہلاتے رہیں گے..؟آخرہم کب اپنے اُوپر چڑھے جھوٹ کے خول کو اُتارپھیکیں گے ..؟ کب ہم اِس کا حل نکالیں گے…؟اور اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کا سامناکس منہ سے کریں گے..؟اَب میرے اِن خدشات نماسوالات کا جواب ڈھونڈناکس کا کام ہے ..؟ آپ کے لئے یہ نکتہ چھوڑے دیتاہوں اور آگے بڑھتا ہوں۔
ٹھیک ہے کہ یہ قانونِ فطرت ہے کہ دنیا میں جتنے بھی اِنسان پیداہوئے ہیں اِن می ں سے بیشتر ایسے افرادہیں جو تمام اقسام کے ظاہری ا ور باطنی نقائص سے پاک پیداہوئے ہیں مگراِسی دنیا میںکچھ ایسے بھی اِنسان پیداہوئے ہیں جن میں ظاہری اور باطنی دونوں ہی اقسام کے نقائص پائے جاتے ہیں اورکچھ ایسے بھی ہوئے ہیں جن میں صرف پوشیدہ نقائص رہے ور اِسی طرح بہت سے ایسے بھی پیداہوئے جن میں قدرت نے صرف ظاہری ہی نقص رکھااَب یہ بھید تخلیق کائنات کے کارخانے میں اِنسانوں کوپیدا کرنے والاہی جانتا ہے کہ یہ کِسے کن خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ پیدا کرے؟ اور کس کو ایک مکمل او ر جامع اِنسان بنا کر دنیا میں بھیجدے، الغرض کہ یہ بات صرف میرااللہ ہی جانتاہے کہ کس کو کس حال میں پیدا کرنا ہے
کِسے کیسے دنیامیں بھیجناہے، بے شک بے عیب تو صرف میرااللہ رب العزت ہی ہے اوراُسی کے لئے ہی تمام تعریفیں ہیںاور میرے اللہ کے بعد صرف اللہ کے برگزیدہ بندے ہیں جو اِس کی تمام صفاتی خوبیوں سے مستفید ہوتے ہیں اوراللہ جنہیں ہر قسم (ظاہری اورباطنی) کی خامیوں اور برائیوں سے پاک کے کر دنیا میں بھیجتاہے تاکہ اللہ کے یہ نیک اور برگزیدہ بندے اپنے قول و فعل سے اللہ کا پیغام بنی نوع انسان تک پہنچائیں اوراِس طرح یہ ہر دوراور ہرزمانے میں آنے والے اِنسانوں کو اللہ کی واحدانیت کی جانب راغب کریں تاکہ دنیامحبت اورامن وآشتی کا عظیم گہوارہ بنی رہے اور دنیا سے شیطانیت کا خاتمہ ہو۔
یہاں مجھے انتہائی دُکھ کے ساتھ یہ کہنا پڑرہاہے کہ اگر آج اِس پُرآشوپ دورمیں بھی جب ہم اپنے اردگرد دیکھیں تو ہمارے درمیان اکثریت ایسے لوگوں اور افرادکی ضرور موجود نظر آئے گی ،جواپنی بظاہرتو تمام ظاہری خوبیوں کے لحاظ سے ایک قابلِ اعتبار اور بھروسہ والے اِنسان دکھائی دے رہے ہوں گے، مگر افسوس ہے کہ آج میرے مُلک اور معاشرے میں ایسے بہت سے افرادہیںجو اپنی ظاہری شکل و صورت کے اعتبارسے تو بڑے معتبراور پاکبازنظرآتے ہیں مگر اِن کا باطن سماجی واخلاقی اور سیاسی سُوجھ بُوجھ کے لحاظ سے داغدارہوتاہے کیونکہ اِن کی اکثریت ایسے افرادپر مشتمل ہوتی ہے جن کے منہ کے 32 دانتوں کے درمیان جوایک زبان ہوتی ہے
وہ اِس سے سچ بولنے اور بلوانے سے کتراتے ہیں اور جب ایسے لوگوں کی زبان سے سچ نہیں نکلے گاتو ظاہر سی بات ہے کہ سامنے والے کے کان بھی جھوٹ ہی سُنیں گے اور پھر لامحالہ معاشرے میں چارسومنہ در منہ جھوٹ ہی بولاجائے گا،یعنی یہ کہ آج میرے مُلک اور معاشرے میں سچ کہنے والی زبان اور سّچ سُننے والے کان موجود نہیں ہیں جس کی وجہ سے یقینا میرامُلک اور معاشرہ بہت سی،سماجی، اخلاقی اور سیاسی برائیوں کا آماجگاہ بن گیا ہے، کہا جاتا ہے کہ جب دنیااتنی فاسٹ نہیں ہوئی تھی جتنی کہ آج ہوگئی ہے، میرے اِسی مُلک میں ہرسوچ وفکر اور تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ہر طبقے کے لوگ سچ بولاکرتے تھے تو مُلک اور معاشرے میں کبھی بھی اتنی برائیاں نہ سماجی اور نہ اخلاقی اور نہ ہی سیاسی حوالوں سے پھل پھول پائیں تھیں جیسی کہ اِس دورِ جدیدمیں ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افرادمیںجھوٹ کی وجہ سے بُرائیاں رگوں میں گردش کرتے خون کی طرح دوڑ رہی ہیںاور شاید اِس جھوٹے سچے میڈیائی جدیددورمیں میرے مُلک اور معاشرے کے لوگوں کو اِس سے بھی انکاری نہ ہوںکہ جھوٹ تمام گناہوں کی ماں اور سچ سب بُرائیوں کا علاج ہے۔
Media
مگر معاف کیجئے گاکہ آج مجھے انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہناپڑرہاہے کہ اَب ایسا لگتا ہے کہ جیسے دنیا اور میڈیا کے فاسٹ ہونے کے ساتھ ہی میرے مُلک میں بالخصوص سچ کا گلاگھونٹ کرجھوٹ کا بول بالا سب سے زیادہ کردیا گیاہے، آج یہی وجہ ہے کہ شہر اور گاو¿ں رہنے والوں سے لے کر حکمران الوقت اور اِسی طرح حاکم الوقت سے لے کر مُلک کے طول ارض پر پھیلے ہوئے جنگلوںاورریگستانوں میں بنی جھونپریوں میں رکھنے والے افراد بھی جھوٹ ہی کے بل بوتے اپنی اپنی زندگیوں کی گاڑیاں گھسیٹ رہے ہیں یعنی یہ کہ آج جیسے میرے دیس کے لوگوں کا(جھوٹے سچے میڈیا اور قدم قدم پر جھوٹ بولتے ہمارے حکمران اور سیاستدان اور ہمارے اداروں کے سربراہان نے) اِس بات پر ایمان بنادیا ہے کہ” جھوٹ زندگی کی ضمانت ہے اور سچ بولنا اور سُننا موت کی علامت ہے۔
بہرحال کچھ بھی ہے اگر میری قوم کو دنیا میں ترقی اور خوشحالی کے ثمرات حاصل کرنے ہیں …؟؟ تو اِسے ہر حال میں حق اور سچ کانعرہ بلند کرنا ہوگا، اور نہ صرف خود سچ بولنا ہوگا بلکہ اَب اپنے حکمرانوں، سیاستدانوں اور اداروں کے سربراہان سمیت اپنے میڈیا سے بھی سچ بلوانا ہو گا اور لوگوں میں سچ برداشت کرنے کی عادت پیداکرنی اور کروانی ہوگی تب ہمارامُلک اور معاشرہ اور ہم اُوجِ ثریاکی قدم بوسی کرسکیں گے ورنہ نہیں۔
اگرچہ ہردوراور ہر زمانے میں سچ بولنامشکل ضروررہاہے مگر اِس حقیقت سے بھی تو انکارنہیں کیا جاسکتاہے کہ آ ج بھی دنیاکی جن اقوام نے سچ کو اپنی کامیابی کازینہ بنایا ہے آج بھی ترقی اور خوشحالی اُن اقوام کا ماتھا چوم رہی ہیں اور قدم کے بوسے لے رہی ہیں حضرت بایزید بسطامیؒ کا قول ہے کہ” سچائی میں بڑی طاقت ہے اور وہ اپناآپ دِکھاکر رہتی ہے“اور ہم میں یہ خوبی تب ہی پیدا ہو سکتی ہے کہ جب ہمیں سچ بولنے اور سچ کو سُننے اورسچ کو لکھنے کے ساتھ ساتھ ہرسطح پر سچ کو برداشت کرنے کی عادت پیداہوجائے تو ہمارے مُلک اور معاشرے کا ہر شخص سچا کلام کرے گا اور اِس طرح ہمارے دل کے خانوں میں سچائی کا بسیرا ہو جائے گا اور ہمارے کانوں کے پردے بھی سچ کے میٹھے بول کے رس سے تررہیں گے پھر میرے مُلک اور قوم کو بھی ترقی اور خوشحالی نصیب ہوجائے گی۔