ڈاکٹر موہن سنگھ دیوانہ کمال کے پنجابی شاعر ہیں انہوں نے کیا خوب کہا ہے
جیون اے دکھ ونڈانا۔۔ تے اگ بیگانی سڑنا مرنے دی خاطر جینا ۔۔ تے جینے دی خاطر مرنا جیون اے ڈھینا ڈھونا جیون اے کھینا کھونا جیون اے ٹردے رہنا۔۔ تے کوئی پڑا نہ کرنا
ایک دوسرے کے کام آنا ایک اچھے معاشرہ کی تشکیل کا بنیادی نقطہ ٔ آغازہے د نیا کے ہر مذہب۔۔ہر نبی اور درددل رکھنے والے نے انسانیت کی بلا امیتاز خدمت کی تلقین کی ہے دین اسلام تو ہے ہی سراسر انسانیت کی فلاح کا مذہب ہے بدقسمتی سے انتہا پسندوںنے اسلامی تعلیمات کو مسخ کرکے رکھ دیا ہے پاکستان میں تو یہ صورت ِ حال مزید ابتر ہوگئی ہے حالانکہ ملکی ترقی و خوشحالی کیلئے آج ہمیں ایک قوم بننے کی ضرورت پہلے سے بھی کئی گنا زیادہ ہے
اخوت اس کو کہتے ہیں ،کانٹا چبھے جو کابل میں عرب کا ہر پیرو جواں بے تاب ہو جائے
بدقسمتی سے ہم ایک قوم کے تقاضوں پر پورے نہیں اترتے مجھے تو محسوس ہوتا ہے جیسے ہم سب ہجوم ہیں، تماشائی ہیں ایک دوسرے کو دکھ میں مبتلا دیکھ کر خوش ہوتے رہتے ہیں اس کیفیت سے باہر نکلنے کیلئے کچھ نہیں کرتے۔ ہم قوم اس وقت بن سکتے ہیں جب لالچ ، بغض،مفادپرستی کے خول سے باہر آجائیں ہم الحمداللہ مسلمان ہیں اور مسلمان کا سب سے بڑا وصف اخوت ہے،ہمدردی ہے، ایثار ہے، قربانی ہے اور محبت ہے اور یہی پیغام خلیل اللہ ہے ،ہرعید کا درس ہے اور نبی معظم ۖ کی تعلیمات۔۔۔ جن کو ہم نے فراموش کردیا ہے
درددِل کے واسطے پیدا کیا انسان کو ورنہ طاعت کیلئے کم نہ تھے کروبیاں
ہر شخص بالخصوص ہر مسلمان میں یہی جذبہ کارفرما ہونا چاہیے کہ جس سے جتنی ہو سکے دکھی انسانیت کی خدمت ضرور کرے بلا شبہ اللہ رب العزت دلوں کے بھید جانتے ہیں ہمیں خلوص نیت سے بے لوث خدمت کرنا ہوگی ۔۔ہردل کی خواہش ہونی چاہیے کہ میں کسی کے کام آسکوں۔ بے بس ،اپنے سے کمزور اور معاشرہ کے کچلے اور سسکتے لوگوںکی دعائیں لینا ہے اس میں کوئی سیاست ، کوئی نمائش نہیں ہونی چاہیے یہ عمل صرف اور صرف اللہ اور اس کے پیارے حبیب ۖ کی خوشنودی کیلئے ہے کیونکہ اللہ تبارک تعالیٰ نے انسان کو ایثار و محبت کیلئے منتخب کیا یہی جذبہ اس کی تخلیق کی بنیادہے ہم تو پھر مسلمان ہیں جن کو حکم ہے کہ اگر تمہارا ہمسایہ بھوکا ہے تو تم کامل مسلمان نہیں ۔ وہ سفید پوش ،غریب ،مستحقین ، نادار لوگ جو کم وسائل کی وجہ سے بے بس ہوگئے ہیں
وہی عظیم جس نے نئی شمع اک جلادی
کے مصداق معاشرہ کے مخیر اور دل میں درد رکھنے والے ان کی بلا امتیاز خدمت کریں میرے خیال میں یہی عبادت ہے۔حکومت بھی یہ بات بخوبی جانتی ہے کہ پاکستان کا اصل مسائل میں بڑا مسئلہ غربت ہے کہا جاتا ہے کہ بیشتر جرائم غربت کی کھوکھ سے جنم لیتے ہیں۔ملک کے طول و عرض میں ہونے والی چوری ،ڈکیتی، راہزنی اور قتل و غارت کی بڑی وجہ غربت ہے جس سے سماجی ناانصافیاں اور دہشت گردی میں مسلسل اضافہ ہے ایک عالمی ادارے کی خصوصی رپورٹ میں کہا گیا ہے اس وقت پاکستان میں 75%سے زائد شہری خط ِ غربت سے بھی نیچے زندگی بسرکررہے ہیں خود ہمارے وزیر ِخزانہ نے اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے جب تک ٹیکس چوری ختم نہیں ہوتی ملک معاشی طور پر مستحکم نہیں ہوگا۔امام غزالی فرماتے ہیں اللہ تبارک تعالیٰ کو عا جز لوگ بہت پسندہیں لیکن دولت مند عاجز انتہائی پسند ہیں جو لوگ مرنے کے بعد زندہ رہنا چاہتے ہیں انہیں چاہیے کہ صالح اعمال کریں کیونکہ درخت اپنے پھل اور انسان اپنے عمل سے پہچانا جاتاہے۔
ہماری کوشش اور خواہش ہ بس یہی ہونی چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ سفید پوش ،غریب ،مستحقین ، نادار لوگ جو کم وسائل رکھتے ہیں کی خدمت کریں تا کہ اللہ اور اس کا رسول ۖ راضی ہو سکے یہی ایک مسلمان کا مقصود و حاصل ہے اللہ ہماری عاجزی کو قبول کرے (آمین) پاکستانی قوم کے بہتر مستقبل کیلئے حکمران تمام غیر ضروری اخراجات بند کردیں ،سرکاری وسائل کا بیدردی سے استعمال بند کیا جانا ضروری ہے ،ہر شطح پر سادگی کو فروغ دیا جائے ۔تمام سرکاری محکموں کے خرچ کو کنٹرول کرنے کیلئے نئی حکمت ِ عملی وضح کرنے کی شدید ضرورت ہے، وفاقی اورتمام صوبائی حکومتوں میں مختصر کابینہ بنائی جائے وزیروں مشیروں کی فوج ظفر موج ، سرکاری محکموں میں نت نئی گاڑیاں خریدنا اور بیوروکریسی کا اختیارات سے تجاوز ہمارے ملکی وسائل کو چاٹ رہا ہے یہ وسائل عوام کی فلاح و بہبودپر خرچ کئے جائیں تومعاملات کافی بہتر کئے جا سکتے ہیں اس کیلئے درد ِدل رکھنے والی بااثرشخصیات کو آگے آکر فعال کردار ادا کرناہوگا زندگی اللہ تبارک تعالیٰ کی عطا کردہ سب سے انمول نعمت ہے اس کی قدر کیجئے زندگی کے رموز و اسرار سمجھنے کیلئے ان اوگوںپر توجہ دیجئے شفقت کریں جومسائل سے دوچارہیں ان کا خیال کیجئے جو بے بس ،بے کس اور مجبورہیں کسی مستحق کی بے لوث خدمت روحانی خوشی عطا کرتی ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔
انپے لئے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا